یوکرائن دوسرا افغانستان بن سکتا ہے

یوکرائن دوسرا افغانستان بن سکتا ہے

روس یوکرائن جنگ تقریباً چھٹے ماہ میں داخل ہو چکی ہے لیکن ابھی تک اس کے خاتمے کا دور دور تک کوئی امکان نہیں۔ یوکرائن کی طرف سے رومیوں کو حیرت انگیز مزاحمت کا سامنا ہے اور یہ جنگ جتنی طویل ہو گی روس کو اتنا ہی بھاری نقصان اٹھانا پڑے گا۔ اس جنگ نے دنیا کو روس کے افغانستان پر حملے کی یاد تازہ کرا دی ہے وہاں سے بھی روس کو بالآخر ناکام ہو کر واپس آنا پڑا تھا جس کی وجہ افغانی نہیں بلکہ امریکی سپانسر شپ تھی۔ ایک بار پھر وہی تاریخ یوکرائن میں دہرائے جانے کے امکانات ہیں۔ 
جنگ کے آغاز میں جب امریکی صدر بائیڈن نے یوکرائن میں امریکی فوج بھیجنے سے اجتناب کیا تو پوری دنیا میں امریکہ کا مذاق اڑایا گیا مگر حقیقت یہ ہے کہ جنگوں اور ملکوں کے باہمی تنازعات راتوں رات حل نہیں ہوتے۔ روس نے جس شدت سے حملہ کیا تھا۔ اس وقت لگتا تھا کہ یوکرائن پر قبضہ محض چند دنوں یا ہفتوں کی بات ہے مگر یوکرائن نے جو ناقابل یقین مزاحمت پیش کی ہے وہ جنگی ماہرین کے لیے حیران کن ہے۔ روس کے لیے اب ہر گزرتے دن کے ساتھ اس جنگ کو فیصلہ کن نتیجے پر پہنچانا مشکل ہو رہا ہے۔ اسے فوجی نقصانات جنگی اخراجات اور معاشی ناکہ بندی اور پابندیوں کی وجہ سے سخت مشکلات کا سامنا ہے۔ یورپین یونین کے 27 ممالک نے روسی پٹرول اور گیس کا بائیکاٹ کر دیا ہے انہیں متبادل ذرائع سے دوگنی قیمت پر پٹرول اور گیس خریدنا پڑ رہے ہیں مگر اس کے باوجود یورپی یونین نے کویرائن کی امداد جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ 
سب سے بڑی خبر یہ ہے کہ گزشتہ ماہ امریکی ایوان نمائندگان نے امریکی صدر کی سفارش پر یوکرائن کے لیے 40 بلین ڈالر امداد کے پیکیج کی منظوری دی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکی صدر نے 37 بلین کی سفارش کی تھی مگر ہاؤس نے توقع سے زیادہ انہیں دیا ہے۔ آج تک آپ نے کبھی سنا ہے کہ یکمشت امریکہ کی طرف سے کسی ملک کو اتنا بڑا پیکیج دیا گیا ہو۔ یہ تاریخ فیصلہ ہے۔ 
دوسری طرف روس جس کے 10 سے زیادہ جنرل اس جنگ میں مارے جا چکے ہیں اور گزشتہ 5 ماہ سے جس کی پٹرول اور گیس کی فروخت بند ہے کب تک اس بائیکاٹ کا مقابلہ کرے گا۔ فوجی لحاظ سے بھی روس نے اپنی فوج کو جتنا over-stretch کر دیا ہے۔ اس صورتحال کا برقرار رہنا ممکن نہیں یوکرائنی فوجی اپنے وطن کی سرزمین کے لیے لڑتے ہیں جبکہ روسی فوجی اپنی ریاست کے حکم پر لڑ رہے ہیں تو اس جنگ میں فتح کا جذبہ یو کرائن کے ساتھ ہے۔ روس جتنی مرضی بمباری اور تباہی کرلے بالآخر یوکرائن کی امریکی امداد اور یورپی یونین کی حمایت اپنا اثر 
دکھائے گی۔ روس کے لیے جس طرح افغانستان پر قبضہ مشکل تھا امریکہ آہستہ آہستہ اسی طرح کے حالات پیدا کرتا جائے گا کہ صدر پیوٹن اس جنگ پر نظرثانی کریں یہ لمبے عرصے کے لیے sustainable نہیں ہو گی۔ 
امریکی دفاعی ادارے پینٹاگون کے ایک عہدیدار کا یہ بیان عالمی میڈیا میں نمایاں طو رپر چھپا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ "This is a knife fight" یہ ایک جنگی اصطلاح ہے۔ آپ کو پتہ ہے یہ گولہ بارود کا زمانہ ہے جس میں پلک جھپکنے میں بارود سے تباہی ہوتی ہے اور جنگ کا پانسہ پلٹ جاتا ہے لیکن خنجروں کی لڑائی جیسا کہ امریکی اس کو قرار دے رہے ہیں۔ اس میں ایک فریق کے خاتمے تک جنگ جاری رہتی ہے امریکیوں کا خیال ہے کہ جب تک ایک فریق واضح طور پر شکست نہیں کھائے گا یہ جنگ جاری رہے گی۔ 
اس جنگ کی طوالت کی وجہ بذات خود امریکہ ہے اگر وہ یوکرائن کی پشت پر نہ ہوتا تو یہ جنگ کب کی ختم ہو چکی ہوتی لہٰذا صدر پیوٹن کو اندر سے اس بات کا ادراک ہے کہ اس نے حملہ تو یوکرائن پر کیا تھا مگر اب اس کی لڑائی امریکہ سے ہے جسے جیتنا اتنا آسان نہیں ہے۔ اس جنگ بندی کے لیے پہلا امکان تو یہ تھا کہ ایک فریق شکست کھا جائے وہ امکان اب کافی حد تک کم ہو چکا ہے۔ دوسرا امکان یہ ہے کہ روس یہ اعلان کر دے کہ اس نے اپنے مطلوبہ اہداف حاصل کر لیے ہیں اور اب وہ واپس جا رہا ہے یہ بھی ابھی تک خارج از امکان نظر آتا ہے۔ اب اگر جنگ ختم ہونی ہے تو وہ معاشی اور اقتصادی وجوہات کی بنا پر ہو گی۔ بائیڈن امریکہ میں عوامی مقبولیت کھو رہے ہیں جس کی وجہ مہنگائی اور پٹرول اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ ہے۔ بائیڈن نے رواں ماہ سعودی عرب کا دورہ کرنے کا پروگرام بنایا تھا تا کہ سعودی عرب کے ساتھ تیل کی پیداوار میں یومیہ اضافے کا معاہدہ ہو سکے مگر اس میں تاخیر ہو گئی ہے کیونکہ یہاں بھی بائیڈن کو اصولوں پر سودے بازی کرنا پڑ رہی ہے یہ اب بائیڈن اور پیوٹن یعنی دو شخصیات کے درمیان اعصاب کی جنگ ہے جس نے پوری دنیا کی معیشت کو سولی پر لٹکا دیا ہے دیکھنا یہ ہے کہ اس کا نتیجہ کیا آتا ہے۔ 
پاکستان اس جنگ کا بے قصور شکار (innocent victim) بن چکا ہے یہی معاملہ دنیا کے ان تمام ممالک کے ساتھ ہے جو پٹرول امپورٹ کرتے ہیں پٹرول کی قیمت گزشتہ 14 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ 42 ڈالر سے 114 ڈالر تک کے اضافے نے نان آئل معیشتوں کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے اور مستقبل قریب میں یعنی رواں سال کے اندر پٹرول کی قیمت میں کمی کا کوئی امکان  نہیں ہے۔ مہنگائی اتنی بڑھ چکی ہے کہ تیل واپس 42ڈالر پر بھی آجائے تو اشیائے خورو نوش کی قیمت کم نہیں ہو گی۔ گویا روس اور امریکہ نے دنیا کو نئی مصیبت میں مبتلا کر دیا ہے۔ یہاں تک کہا جاتا ہے کہ امریکہ نے روس کو ترغیب دی کہ وہ یوکرائن پر حملہ کرے انہیں شک تھا کہ وہ ایسا نہیں کرے گا روس کو اتنا مشتعل کیا گیا کہ وہ ان کی بچھائی ہوئی لینڈ مائن پر کود گیا جس کا نتیجہ پوری دنیا کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ 
پاکستان جیسے آئل امپورٹنگ ممالک کے برعکس اس سارے کھیل میں اگر کسی کی لاٹری نکلی ہے تو وہ عرب ممالک ہیں جو پٹرول کی ڈبل قیمت کا فائدہ اٹھا رہے ہیں یورپی ممالک کی ساری مارکیٹ اب قطر سے گیس کے معاہدے کر رہی ہے جس کی وجہ سے LNG کی قیمت ڈبل ہو گئی ہے ۔ قطر نے فوری طور پر گیس کی عالمی کمپنیوں سے کہا ہے کہ وہ ہنگامی بنیاد پر قطر کے گیس کے ذخائر کو استعمال میں لانے کے لیے انفراسٹرکچر تعمیر کر کے دیں گویا ان کی پانچوں انگلیاں گھی میں ہیں۔ ان حالات میں دیکھنا یہ ہے کہ کیا چین ان دو ممالک یعنی روس اور امریکہ کشمکش میں اس تنازع میں کیا کردار ادا کرے گا۔ چین اندر سے چاہتا ہے کہ روس کو شکست نہ ہو کیونکہ اس کے لیے اصل خطرہ امریکہ ہے۔ 

مصنف کے بارے میں