بھروسے میں کمی

بھروسے میں کمی

روس کا یوکرین پر حملہ فوجی طاقت کا مظاہرہ ہے جنگ کہیں بھی ہو اچھی نہیں ہوتی کیونکہ یہ انسانی، معاشی اور تجارتی نقصان کا باعث بنتی ہے۔ یوکرین، جو رقبے کے لحاظ سے یورپ کا سب سے بڑا ملک ہے، کو جنگ میںشکست فاش کا سامنا ہے۔ حیران کُن بات یہ ہے کہ یوکرین جس نے امریکہ اور مغربی ممالک کے فوجی اتحاد نیٹو کی شہ پر روس کو آنکھیں دکھائیں مگر حملے کے دوران کسی نے اُس کی مدد نہیں کی، ترکی اور چین کی طرف سے بھی جنگ بندی کے صرف مطالبات سامنے آئے ہیں۔ خطے کے حالات پر نظر رکھنے والے ماہرین کا دعویٰ ہے کہ اہم مسائل پر روس اور یوکرین معاہدے کے قریب آ چکے ہیں کچھ مزید پیش رفت کی صورت میں جنگ بندی کا امکان ہے لیکن مکمل امن کے لیے وثوق سے کوئی بھی کچھ کہہ نہیں سکتا۔ اگر نیٹو رُکنیت کے متعلق روس کو یوکرین یقین دہانی نہیں کراتا تو بدترین شکست یقینی ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ دونوں ملکوں میں مذاکرات جاری ہیں بات چیت سے تصفیہ طلب مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ سلامتی کو درپیش چیلنج کے دوران مدد نہ کرنے پر امریکہ پر بھروسہ کرنے والوں میں مزید کمی آ سکتی ہے کیونکہ طاقت کے مظاہرے اور شکست کی رسوائی کے اثرات خطے تک محدود نہیں اور ایسا تصور کرنا حقائق سے چشم پوشی کے مترداف ہے۔ بھلے جنگ یوکرین میں ہورہی ہے لیکن اِس کے اثرات ساری دنیا پر مرتب ہونے سے کمزور ہوتی امریکی گرفت کا پردہ چاک ہوا ہے۔ اب تک دنیا بھر میں امریکہ نے فوجی طاقت کا بھرپور مظاہرہ کیا کئی ملک تاراج کیے لیکن تین دہائیوں تک دنیا کی واحد عالمی طاقت کا اعزاز رکھنے والے کی اب قوت کم ہو رہی اور چین و روس کی صورت میں نئے چیلنج درپیش ہیں نیز کئی ایک غلط فیصلوں سے قریبی دوست ممالک فاصلہ رکھنے لگے ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں خاص طور پر امریکہ کو درپیش ناگوار صورتحال کسی سے پوشیدہ نہیں رہی۔
چین نے روس اور یوکرین جنگ کی اگر حمایت نہیں کی تو واضح مخالفت سے بھی گریز کیا ہے اُس کی پالیسی خاصی محتاط ہے وجہ امریکہ سے مخاصمت ہے وہ روس پر عائد کی جانے والی پابندیوں کی مخالفت کر تے ہوئے کہتا ہے کہ پابندیاں مسائل کا حل نہیں بلکہ اشتعال انگیزی کا باعث بن رہی ہیں۔ چین کے علاوہ بھی کئی ممالک ایسے ہی موقف کا اظہار کرتے ہیں جنوبی ایشیا میں چین سے مقابلے کا دعویدار بھارت بھی کم و بیش ایسا ہی موقف رکھتا ہے امریکہ سے کواڈ جیسے معاہدوں کی صورت میں اتحادی ہونے کے باوجود عالمی پابندیوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے روس سے کم نرخوں پر تیل کی خریداری میں عار تصور نہیں کرتا، آج بھی اُسے روسی اسلحے کے سب سے بڑے خریدار ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ نئے قریبی اتحادی امریکہ کے سخت اعتراض اور ناپسندیدگی کے باوجود روس سے جدید ترین میزائل سسٹم  خرید چکا ہے یہ امریکہ پر بھروسے کی کمی کی نشانی ہے۔ اب ذہنوں میں یہ خیال تقویت پکڑنے لگا ہے کہ دنیا کی واحد عالمی طاقت ہونے کا عرصہ ختم ہو چکا اور ترقی پذیر ممالک کا امریکہ کے بجائے دیگر ممالک پر بھروسہ بڑھنے لگا ہے۔
رواں برس ماہ فروری میں جب عمران خان کے روسی دورے کو حتمی شکل دی جا رہی تھی تو امریکہ نے سفارتی ذرائع سے باز رہنے کا پیغام دیا دہشت گردی کی جنگ کے دوران کیونکہ پاکستان فرنٹ لائن اتحادی رہا ہے اسی بنا پر کچھ حلقوں کا خیال تھا کہ شاید پاکستان ایسا دباؤ برداشت نہ کر سکے اور وزیرِ اعظم لیاقت علی خان کی طرح موجودہ وزیرِ اعظم بھی دورے سے معذرت کر لیں۔ معاشی ابتری اور فوجی ساز و سامان کی ضرورت اِس خیال کی اہم وجہ تھی مگر حیرت کا جھٹکا لگاتے ہوئے عمران خان ایسے حالات میں بھی ماسکو پہنچ گئے جب روس یوکرین جنگ کے بادل گہرے ہو رہے تھے۔ 
مشرقِ وسطیٰ میں امریکی رسوخ کو زوال ہے ترکی میں سعودی صحافی جمال خاشقجی کی سفارتخانے میں ہلاکت کو ایشو بنا کر جو بائیڈن انتظامیہ نے سعودی ولی عہد محمد بن سلیمان کو دباؤ میں لانے کی کوشش کی تاکہ دنیا کو پیغام ملے کہ نئی امریکی انتظامیہ انسانی حقوق پر سودے بازی کرنے کے بجائے یقینی بنانے میں یکسو ہے لیکن ناقص حکمتِ عملی کی وجہ سے مشرقِ وسطیٰ کا اہم اتحادی سعودی عرب نہ صرف امریکہ سے دور اور چین کے قریب ہونے لگا ہے بلکہ محمد بن سلیمان کی طرف سے ٹیلی فون کال نہ سُننے کی وجہ سے دیگر کئی ملکوں کی امریکہ پر انحصار کم یا ختم کرنے کی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے۔ پہلی بار سعودی عرب چین کو تیل کی ترسیل کے لیے یوآن میں ادائیگی کے معاہدے کے قریب ہیں حالانکہ 1974 سے سعودیہ ڈالر میں تیل کی تجارت کے عہد پر کاربند ہے، اسی عہد کے عوض امریکہ نے سعودیہ کو دفاع کی ضمانت دے رکھی تھی۔ دس سالہ خانہ جنگی کے بعد شامی صدر بشار الاسد کا متحدہ عرب امارت کے دورے پر آنے سے امریکی انتظامیہ خفا ہے مگر لگتا ہے یو اے ای کو خفگی کی کوئی پروا نہیں بلکہ اس نے جان بوجھ کر ایسا کیا ہے۔ ایف 35 کے حصول میں رکاوٹوں سے یو اے ای اور حوثیوں کو دہشت گردوں کی فہرست سے نکالنے پر سعودیہ ناخوش ہے حالانکہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی شہری آبادیوں، آئل فیلڈز، ہوائی اڈوں، پاور پلانٹس اور گیس سٹیشنوں کو حوثیوں کی طرف سے ڈرون اور میزائلوں حملوںسے نشانہ بنایا جا رہا ہے جن کے دوران انسانی جانوں، ہوائی جہازوں، گاڑیوں اور مکانوں کو نقصان پہنچ رہا ہے مگر امریکہ مداخلت سے گریز کر رہا ہے اسی پالیسی نے سعودیہ کو امریکہ سے دور کیا ہے۔ نیٹو کا رُکن ترکی بھی روس کی طرف مائل جبکہ ایران تو کھلم کھلا روس کا پشتبان ہے۔ جنوبی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ کے اہم ممالک کی طرف سے دفاعی تعاون کی راہیں جدا کرنے اور چین و روس کے ساتھ کاروباری معاملات کو حتمی شکل دینا ثابت کرتا ہے کہ دنیا کی واحد عالمی طاقت کا عالمی کردار اور بھروسہ اب زوال پذیر ہی نہیں بلکہ خاتمہ کے قریب ہے۔ 

مصنف کے بارے میں