چھوٹے قد،بڑھتے مسلمان……

Ali Imran Junior, Daily Nai Baat, Urdu Newspaper, e-paper, Pakistan, Lahore

دوستو،بھارت میں مذہبی اعتبار سے آبادی کے تناسب میں تبدیلی آرہی ہے۔ ہندوؤں کی نسبت مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ ہورہا ہے۔بی بی سی پر شائع ہونے والے تحقیق کے مطابق بھارت میں تمام مذہبی گروہوں میں شرح پیدائش میں واضح کمی آئی ہے، تاہم اس کے باوجود مسلمان خواتین میں شرح پیدائش دوسرے مذاہب کی نسبت زیادہ ہے۔تازہ تحقیق کے مطابق بھارت کی 1 ارب 20 کروڑ آبادی میں بڑا حصہ (94 فیصد) ہندوؤں اور مسلمانوں پر مشتمل ہے، جب کہ عیسائی، سکھ، بدھ مت اور جین مذہب کے ماننے والے بھارت کی آبادی کا 6 فیصد ہیں۔اس مطالعے میں بھارت کے دو سالہ مردم شماری اور قومی صحت کے سروے کے اعداد و شمار کا جائزہ لیا گیا جس  سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک میں مذہبی تناسب تبدیل ہوچکا ہے اور اس تبدیلی کے پیچھے اہم وجہ یہ ہے کہ 1947 میں تقسیم کے بعد سے 2011 تک بھارت کی آبادی تین گنا سے زائد بڑھی۔1951 میں ہونے والی پہلی مردم شماری کے مطابق  بھارت کی آبادی 36 کروڑ 10 لاکھ تھی اور 2011 میں ہونے والی آخری مردم شماری میں یہ بڑھ کر 1 ارب 20 کروڑ ہوگئی تھی۔ اس عرصے میں بھارت میں رہنے والے ہر بڑے مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کی آبادی میں اضافہ ہوا۔ ہندوؤں کی تعداد 30 کروڑ 4 لاکھ سے بڑھ کر 96 کروڑ 60 لاکھ، مسلمانوں کی آبادی ساڑھے تین کروڑ سے بڑھ کر 17 کروڑ 20 لاکھ اور عیسائیوں کی تعداد 80 لاکھ سے بڑھ کر 2 کروڑ 80 لاکھ ہوگئی۔بھارت کی آبادی میں 79 اعشاریہ 8 فیصد ہندو اور 14 اعشاریہ 2 فیصد مسلمان ہیں۔ بھارت انڈونیشیا کے بعد مسلمانوں کی آبادی والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔  باقی آبادی دوسرے مذاہب رکھنے والوں پر مشتمل ہے۔ریسرچ کے مطابق 1992 تک بھارت میں مسلمانوں میں شرح پیدائش 4 اعشاریہ 4 بچے فی خاتون اور ہندوؤں میں 3 اعشاریہ 3 بچے فی خاتون تھی۔ 2015 میں بھی بھارت میں ہندوؤں کی نسبت مسلمانوں میں شرح پیدائش 2 اعشاریہ 6 بچے فی خاتون اور ہندوؤں میں 2 اعشاریہ 1 بچہ فی خاتون تھی۔تحقیق کے مطابق 60 سال کے عرصے میں بھارت کی آبادی میں مسلمانوں کے تناسب میں 4 فیصد اضافہ ہوا ہے جب کہ اسی عرصے میں ہندوؤں کی آبادی میں 4 فیصد کمی ہوئی ہے۔
تدفین کرنا اور میت کو آگ لگا کر جلا دینا، دنیا میں مر جانے والوں کو اگلے سفر پر روانہ کرنے کے یہ دو مقبول ترین طریقے ہیں تاہم ان کے علاوہ بھی دنیا میں میتوں کو ٹھکانے لگانے کے کچھ ایسے طریقے رائج ہیں کہ سن کر آپ کی حیرت کی انتہانہ رہے گی۔ جنوبی کوریا میں ایک یہ طریقہ تیزی سے رواج پا رہا ہے کہ وہ مرنے والے شخص کی چتا جلا کر اس کی راکھ تسبیح کے دانوں میں بھروا کر تسبیح اپنے پاس رکھ لیتے ہیں۔ 2000ء میں جنوبی کوریا میں ایک قانون منظور کیا گیا تھا جس میں 60سال بعد قبر کو ختم کر دینا لازمی قرار دے دیا گیا۔ اس قانون کے منظور ہونے کے بعد مرنے والوں کی راکھ کی حامل تسبیح بنوانے کا رجحان تیزی سے عام ہو رہا ہے۔تبت کے علاقے میں نہ تو مرنے والوں کو دفن کیا جاتا ہے اور نہ ہی انہیں جلایا جاتا ہے بلکہ میتوں کو پہاڑ کی چوٹی پر لیجا کر رکھ دیا جاتا ہے جہاں انہیں چیل کوے اور دیگر جانور کھا جاتے ہیں۔ یہ طریقہ چین کے کچھ صوبوں اور منگولیا میں بھی رائج ہے۔ فلپائن میں تینگویان قبیلے کے لوگ اپنے مرنے والے افراد کو بہترین لباس پہناتے، ان کے بال بناتے اور زیوارت وغیرہ پہناتے ہیں اور ہفتوں تک میت کو اپنے پاس ہی رکھتے ہیں۔ اس دوران عموماً وہ میت کے ہونٹوں میں ایک سگریٹ بھی دبائے رکھتے ہیں۔ یہ لوگ میتوں کو اکڑوں بیٹھنے کی حالت میں دفن کرتے ہیں جبکہ خواتین کی میتوں کے ہاتھ ان کے پیروں کے ساتھ باندھ کر دفن کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اس طریقے سے یہ خواتین بھوتوں سے محفوظ رہتی ہیں۔فلپائن ہی میں ایگوروٹ (Igorot)نامی قبیلے کے لوگ مرنے والوں کے تابوت پہاڑ کے ساتھ لٹکا کر چلے جاتے ہیں۔ اس قبیلے میں تابوت محض ایک میٹر لمبے ہوتے ہیں کیونکہ یہ لوگ مرنے والوں کو اسی حالت میں تابوت میں بند کرتے ہیں جس حالت میں بچہ ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے۔چین کے بعض علاقوں میں مرنے والے کی آخری رسومات میں نیم برہنہ ڈانس کرنے والی لڑکیاں بلائی جاتی ہیں۔ برطانوی نشریاتی ادارہ اس انوکھی روایت پر ایک ڈاکومنٹری بھی بنا چکا ہے۔ مڈغاسکر اور دیگر کچھ علاقوں میں یہ عجیب و غریب رسم پائی جاتی ہے کہ لوگ اپنے مرنے والوں کو تدفین کے ہر پانچ سے سات سال بعد قبریں کھود کر دوبارہ باہر نکالتے اور انہیں نہلا دھلا کر نیا لباس پہناتے اور دوبارہ دفن کردیتے ہیں۔ دوبارہ دفن کرنے سے پہلے وہ انہیں اچھی طرح تیار کرنے اور پرفیوم لگانے کے بعد ان کے ساتھ ڈانس کرتے ہیں اور میت کے اردگرد بیٹھ کر اس طرح اس سے باتیں کرتے ہیں جیسے وہ زندہ ہو۔ وہ اسے گزرے سالوں میں پیش آنے والے تمام واقعات سناتے ہیں۔
 ڈچ قوم کاشمار دنیا کی طویل قامت قوم میں کیا جاتا ہے، لیکن ناقص اور غیر صحت بخش غذاؤں کے استعمال نے ان کے اوسط قد میں کمی کرنا شروع کردی ہے۔برطانوی اخبارکی رپورٹ کے مطابق نیدر لینڈ کے قومی شماریاتی دفتر نے اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ دنیا کی سب سے طویل قامت رکھنے والی قوم کا قد سال بہ سال کم ہوتا جا رہا ہے۔اعداد وشمار کے مطابق 2020 میں 19 سالہ ڈچ نوجوانوں کا اوسط قد 6 فٹ (182.9 سینٹی میٹر) اور خواتین کا قد 5 فٹ 6 انچ تھا۔ حکومتی ادارے برائے شماریات کے مطابق 1958 سے نیدر لینڈ نے اس میدان میں اپنی پوزیشن برقرار رکھی ہوئی تھی، تاہم 19 سے 60 سال کی عمر کے 7 لاکھ 20 ہزار افراد پر ہونے والے سروے سے یہ بات سامنے آئی کہ 2001 میں پیدا ہونے والے لڑکوں کا قد 1980 میں پیدا ہونے والی نسل سے 1 سینٹی میٹر اور لڑکیوں کا قد 1 اعشاریہ 4 سینٹی میٹر کم ہے۔رپورٹ کے مطابق ایک صدی قبل تک دنیا کے سب سے طویل قامت افراد کا تعلق شمالی یورپ اور شمالی امریکا سے تھا۔ بیسویں صدی کے وسط تک ڈچ قوم کے اوسط قد میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا۔ 1930 میں پیدا ہونے والے ڈچ لڑکے کا اوسط قد 5 فٹ 9 انچ اور 1980 میں پیدا ہونے والے لڑکے کا اوسط قد 6 فٹ تھا۔ جس سے ظاہر ہوتاہے کہ 50 سالوں میں ڈچ مردوں کے اوسط قد میں 8 اعشاریہ 3 سینٹی میٹر اضافہ ہوا۔اسی طرح 1930 میں پیدا ہونے والی ڈچ لڑکیوں کا اوسط قد 5 فٹ 5 انچ، جب کہ 1980 میں پیدا ہونے والی لڑکیوں کا اوسط قد 5 فٹ 7 انچ تھا، یعنی 50 سالوں میں ان کے قد میں اوسطاً 5 اعشاریہ 3 سینٹی میٹر کا اضافہ ہوا۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔ابھی ابھی باباجی نے ایس ایم ایس کیا ہے کہ انہوں نے بھی سالن گرم کرنے والا ٹی وی لے لیا ہے۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔