عوام کو عزت دو!!!

عوام کو عزت دو!!!

تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ برصغیر پاک و ہند پر قا بض فرنگیوں نے ایک مضبوط اور حکومت کی فرمابردار پولیس فورس کی ضرورت اس لیے محسوس کی تھی کہ اس کے ذریعے وہ مقامی لوگوں پر اپنا دباؤ اور تسلط برقرار رکھ سکیں اور حکومت مخالف تحریکوں کو انتہائی سفاکی سے کچل سکیں۔
ممکن ہے کہ اس وقت کے غاصب حکمرانوں کے حساب سے یہی بہترین حکمت عملی ہو کیونکہ یہ انتہائی کامیابی سے سالہاسال قابل عمل رہی۔لیکن سوال تو یہ ہے کہ کیا اسلام کے نام پر قائم ہونے والی ریاست میں بھی انہی استحصالی قوانین کو برقرار رہنا چاہے تھا یا ان میں کوئی بہتری آنی چاہیے تھی؟ 
 انگریر کو تو اس خطے سے گئے ہوئے ایک زمانہ بیت گیامگر کیا وجہ ہے کہ ہمارے حکمران آج بھی انہیں کے بنائے ہوئے قوانین اور ضابطوں کے محتاج ہیں؟ پجھتر سال میں کسی فوجی آمر نے تو خیر کیا کرنا تھا عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی کسی جمہوری حکومت کو بھی توفیق نہیں ہوئی کہ قوانین میں کچھ اس طرح ترمیم کر لی جائے کہ عدالتوں اور سرکاری دفاتر میں جانے والے عوام وہاں جانے میں کم از کم اپنی تذلیل محسوس نہ کریں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان سمیت تیسری دنیا کے تقریباً  سب ہی ممالک میں حکومتیں اور سیاستدان افسر شاہی اور پولیس کو اپنے جائز ناجائز مقاصد کے حصول اور مخالفین کے استحصال کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ بلکہ اگر یوں کہا جائے کے ان ممالک میں پولیس کا کردار کسی گینگسٹر کے چمچے جیسا ہوتا ہے جسے ہر الٹے سیدھے کام کے لیے استعمال تو کیا جاتا ہے لیکن اگر کسی سطح پے ان حرکتوں کی وجہ سے ان کو  رائے عامہ اپنے خلاف ہوتی ہوئی نظر آئے تو عوام کی نظروں میں دھول جھونکنے کے لیے ایک نام نہاد سا ایکشن لے کر معاملات کو ٹھنڈا بھی کرلیا جاتا ہے۔
اب تو عالم یہ ہے کہ پولیس اور بیوروکریسی مکمل طور پر سیاسی ہو چکے ہیں اور ہر سیاسی پارٹی نے مذکورہ سرکاری ملازمین میں سے اپنے ہم خیال اور وفادار لوگوں کی ٹیم بنا رکھی ہے اور حکومت بدلتے ہی ’وفاداروں‘ کی نئی ٹیم اپنی پوزیشنیں سبنھال لیتی ہے۔وطن عزیز میں تو بات اس حد تک بگڑ چکی ہے کہ اب تو ہر قسم کی لاقانونیت میں پولیس بالواستہ یا بلاواسطہ ملوث نظر آتی ہے۔ ہو بھی کیوں نہ جب بااثر افراد کے ناجائز احکامات کی بجا آوری کرنی ہو یا کسی بھی اچھی اور پرکشش تعیناتی کو نیلامی میں خریدنا ہو تو خدمت، عوام دوستی اور جرائم پر کنٹرول جیسی باتیں صرف اخباری بیانات اور اشتہاروں کی حد تک محدود  ہو جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اگر یہ کہا جائے کہ ضرورت سے زیادہ سیاسی مداخلت کی وجہ سے پولیس جیسا خالصتاً انتظامی ڈیپاٹمنٹ کرپشن اور استحصال کا گڑھ بن چکا  ہے تو زیادہ غلط نہ ہو گا۔
 اپنے ہی بہن بھائیوں کے پرامن احتجاج پر لاٹھی چارج، شیلنگ اور حتیٰ کہ فائرنگ تک کر دینے میں ان کی سوچ سفاکانہ حد تک خطرناک ہو چکی ہے۔ اگر کسی جگہ لاٹھی چارج کا حکم مل گیا تو بس اس علاقہ میں موجود ہر فرد خواہ وہ بزرگ ہو، خاتون ہو، بچہ ہو، اس احتجاج میں شریک ہو یا نہ ہو اس کی شامت آ جاتی ہے۔ جانے قانون نافذ کرنے والے اس ادارے کے اہلکاروں کی تربیت کن لائنوں پر کی جاتی ہے جو یہ اپنے ہی ملک کے شہریوں کو جانوروں کی طرح مارنے پیٹنے کو فخریا کاروائی سمجھتے ہیں۔ 
بات چاہے پرویز الٰہی دور کی ہو یا شہباز شریف کی حکومت کی یا ا س سے بھی پہلے کی ہم نے تو بس اپوزیشن کو ہمیشہ یہی کہتے سنا ہے کہ حکومت نے ملک کو پولیس سٹیٹ بنا رکھا ہے اور حکومت ہمیشہ یہی راگ الاپتی ہے کہ پولیس کلچر کو تبدیل کیا جائے گا اور پولیس کو عوام دوست بنایا جائے گا۔ صورتحال بدلتی تو ہے مگر صرف اس حد تک کہ اپوزیشن والے حکومت میں اور حکومت والے اپوزیشن میں چلے جاتے ہیں لیکن  عوام کی چھترول کا سلسلہ اسی طرح جاری رہتا ہے۔ 
بات تھانوں کے اندر ہونے والے تھرڈ ڈگری ٹارچر کی ہو یا پھر سڑکوں پر احتجاج کرتے عوام پر ڈنڈوں کی برسات کی، یہ سب کرتے تو پولیس والے ہی ہیں لیکن یہ ہوتا حکومتی ایوانوں میں بیٹھے ’عوامی نمائندوں‘ کے حکم پر ہے۔
 جب سے میڈیا ایک حد سے زیادہ متحرک ہوا ہے تو حکمرانوں نے اس ریاستی غنڈہ گردی کا ایک آسان حل تلاش کر لیا ہے۔میڈیا کی آنکھوں  میں دھول جھونکنے اور عوام کو بیوقوف بنانے کے لیے نچلے درجے کے چند اہلکاروں  پر سارا ملبہ ڈال کر انہیں قربانی کا بکرا بنا دیا جاتا ہے اور معطلی کے نام پر انہیں کچھ عرصہ کے لیے چھٹی پر بھیج دیا جاتا ہے اور بعد ازاں ان کی بحالی اسی تاریخ سے ہو جاتی ہے جس سے وہ معطل ہوئے تھے۔ 
 اگر نگران وزیر اعلیٰ صاحب کی طبیعت پر گراں نہ گزرے تو کیا ان سے یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ اتنے بڑے رقبے پر پھیلا ہوا یہ صوبہ پنجاب ہے اور اس کے چپے چپے پر جرائم ہو رہے ہیں لیکن اب تک کی روایت یہ رہی ہے کہ جو باتیں میڈیا پر ہائی لائٹ ہو جائیں ان پر توحکومتی ایوانوں کی جانب سے ایکشن کے احکامات جاری ہو جاتے ہیں لیکن ان بے شمار معاملات کا کیا ہو گا جو کسی بھی سطح پر رپورٹ ہی نہیں ہوتے اور اگر ہوتے بھی ہیں توارباب اختیار کی نظر سے نہیں گزرتے۔
 وزیر اعلیٰ صاحب سے گزارش ہے کہ اب وہ دور نہیں رہا جب ایک چھوٹی سی آبادی کے لیے بادشاہ سلامت نے محل کے باہر زنجیر عدل لگوا رکھی تھی، فریادی آکر زنجیر ہلاتا، بادشاہ اس کی دادرسی کرتا اور سب اچھا ہو جاتا۔ اب اتنی بڑی آبادی کے مسائل حل کرنے کے لیے ایک جامع اور خودکار نظام دینا ہو گا۔اگرچہ موجودہ وزیر اعلیٰ کی تقرری بہت عارضی اور کم مدتی ہے لیکن پھر بھی اگر وہ چاہیں تو کو سرکاری محکموں میں اروند کیجری وال کی طرز پرکچھ ایسا سسٹم متعارف کروایا جا سکتا ہے جس میں عوام کے لیے ایک باعزت طریقے سے اپنے مسائل حل کروانے کی زیادہ گنجائش ہو۔