آخر فیصلہ ہوہی گیا

آخر فیصلہ ہوہی گیا

ایک ہفتے سے تمام حکومتی جماعتیں، اپوزیشن، سیاسی لیڈر اور ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے نے اس بات کو ڈسکس یوں کیا کہ جیسے کسی کار خیر میں حصہ لینے کے مترادف ہو، اور اگر انہوں نے اس چیز کو ڈسکس نہ کیا تو کہیں وہ اس دوڑ میں پیچھے نہ رہ جائیں۔ وہ دوڑ تھی نئے آرمی چیف کی تقرری۔ جتنا اس بات کو اس ادارے کے فیصلوں اور ان کے اندرونی معاملات کو ان پانچ سال میں ڈسکس کیا گیا شاید ہی کبھی کسی دور میں اتنا کیا گیا ہو۔ آخر کار فیصلہ ہو ہی گیا جس کا سب کو بے صبری سے انتظار تھا وہ یہ کہ جنرل عاصم منیر نئے آرمی چیف مقرر ہو گئے۔
تمام تر باتیں اپنی جگہ مگر اس ادارے کا یوں زبان زدعام ہونا میری نظر میں غلط تھا اور ہے بھی۔ اب اس پہ ذرا، روشنی ڈالنا چاہوں گی۔ ایک تو یہ سب عمران خان کے زیر سایہ، یہ بات پروان چڑھی کہ ہمارے اہم اور حساس ادارے کو عام آدمی کو بھی ڈسکس کرنے کی جرأت پیدا ہوئی۔ آج یہ ارض پاکستان اگر قائم ہے تو اس پاک آرمی کے ادارے کے دم سے۔ میں پچھلے دنوں کچھ انڈین چینل کی نیوز دیکھ رہی تھی کہ اُن کے چینلز پہ یہ بات ڈسکس کی جا رہی تھی بڑی شدت کے ساتھ ایک بھارتی صحافی یہ بات کر رہا تھا کہ جس طرح پاکستانی لوگ اپنی آرمی پہ ڈسکس کر کے انہیں اُچھال رہیں ہیں ہمیں تو کچھ کرنے کی ضرورت ہی نہیں۔
اب اس سارے منظر کو اگر میں سمیٹتے ہوئے بولوں تو اس طریقے سے اپنے اداروں کو، وہ ادارہ چاہے کوئی بھی ہو، یوں ہم لوگ اُن کو اُچھالیں گے تو ہم اپنے ہی ملک کو اپنے ہی ہاتھوں غیر محفوظ کر رہے ہوتے ہیں۔ کسی بھی ریاست کی مضبوطی کا انحصار اُس کے مختلف اداروں کی مضبوطی پر ہی ہوتا ہے۔ ریاستی ادارے جتنے مضبوط، فعال اور قابل اعتماد ہوں ریاست بھی اُتنی ہی طاقتور اور باوقار گردانی جاتی ہے۔
ہماری ریاست میری نظر میں پانچ ستونوں پہ کھڑی ہے اور وہ پانچ ستون، فوج، عدلیہ، بیورو کریٹس، پارلیمنٹ اور صحافت ہے۔ جب تک ریاست کے یہ پانچ ستون عزت و وقار سے رہیں تو ہماری ریاست کو بھی تکریم کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔ مگر اس تکریم کو بھی پانے کے لیے چند چیزوں پہ عمل ضروری ہے کہ ریاست کو درست سمت کی جانب پھر ہی چلایا جا سکتا ہے۔ ان اداروں کو اپنا وقار برقرار کرنے کے لیے ایک تو میرٹ پہ کام کرنا ہو گا اور ہر خاص و عام کی رسائی بآسانی ہو سکے تاکہ عوام اپنی مشکل کو حل کرنے کے لیے اداروں سے رجوع کریں۔ مگر جمہوریت کے ان ٹھیکیداروں نے اپنی کرسی بچانے کے چکروں میں ہمیشہ ان اداروں کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
کبھی وہ پاک آرمی کو نشانہ بناتے ہیں جن پہ اس دور سے پہلے کبھی اس طرح سے ڈسکس نہیں کیا گیا۔ مجھے آج بھی یاد ہے ذرا ذرا کہ یہی عمران خان تھے جنہوں نے اپنے ایک انٹرویو میں یہ بیان دیا تھا کہ میں چیف آف آرمی سٹاف کی ایکسٹینشن کے حق میں نہیں ہوں کیونکہ ایک آرمی چیف کی یوں ایکسٹینشن جب ہوتی ہے تو پیچھے بہت سے افسران کی اسی انتظار میں مدت ملازمت پوری ہو جاتی ہے۔ ادارے کا وقار اور میرٹ برقرار نہیں رہتا تو پھر اب بتائیے کہ ان تمام سیاسی لیڈران نے اپنی کرسی کی خاطر نہ صرف یہ قدم اُٹھایا بلکہ اس ادارے کے وقار کو بھی مجروح کیا۔
اسی طرح عدلیہ اگر حکومت کے خلاف فیصلہ سنا دیتی ہے تو حکومتی بنچ کھلے عام ججوں پر تنقید کرتے ہیں۔ اگر عدالت اپوزیشن کے خلاف کوئی فیصلہ سنا دے تو اپوزیشن والے ججوں اور عدالتوں کی تضحیک کرتے ہیں جبکہ عدالتیں تو حقائق کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کرتی ہیں۔ اگر جمہوریت کے ٹھیکیدار یونہی اپنی کرسی اور اقتدار بچانے کے لیے اداروں کی تضحیک کریں گے تو ریاست بھی اپنا وقار برقرار نہ رکھ سکے گی۔ یہ بات تمام سیاسی لیڈران کو سوچنی چاہیے کہ وہ اپنے مفادات کی آڑ میں اداروں اور ملکی وقار کو داؤ پہ نہ لگائیں ہم ریاست سے ہیں، ریاست ہم سے نہیں۔
ایگزیکٹو انتظامیہ یعنی بیوروکریٹس بھی ریاست کا اہم ستون ہے۔ مگر میرٹ اور شفافیت کی عدم موجودگی کی وجہ سے یہ اُس طرح کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں جس کی ان سے توقع کی جاتی ہے۔ اس کا بہترین حل یہ ہے کہ انتظامیہ کی کمزوریوں پہ ضرور تنقید جائے تاکہ وہ اپنے آپ میں درستی لا سکیں لیکن اُن کے اچھے کاموں کو سراہا بھی جانا چاہیے مگر ہوا کچھ یوں کہ بد قسمتی سے انتظامیہ کے بارے میں بھی معاشرے میں منفی تاثر کو زیادہ پھیلایا گیا ہے جس سے عوام کے دلوں میں نفرت پھیلی۔ اسی طرح صحافت بھی ریاست کا اہم ستون ہے جس نے ہر دور میں کلیدی کردار ادا کیا تحریک پاکستان کے اوائل ادوار کو دیکھیے کس قدر تکریم سے دیکھا جاتا تھا مگر اب کیوں وہ احترام نہیں رہا۔ ایک تو صحافیوں نے خود کو سیاسی کر رکھا ہے جس کی وجہ سے وہ شفافیت رپورٹنگ میں نہ رہی مگر ایک فیکٹر یہ بھی ہے کہ ان کو کسی بھی طرح مالی لحاظ سے سپورٹ نہیں کیا جاتا آخر ان کو بھی زندگی گزارنا ہے اس بارے میں بھی حکومتی جماعتوں کو سوچنا چاہیے تاکہ اُن کے لیے بھی آسانی ہو سکے۔
یہ تو میں بات کر رہی تھی ریاستی ستونوں کی مگر کچھ اہم خبروں پہ بھی ذرا روشنی ڈالنا چاہوں گی۔ بہت سے لوگ آج بھی اس بات پہ اظہار کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ عمران خان ایک عوامی لیڈر ہے مگر میں اُن پہ تنقید نہیں کرنا چاہوں گی بلکہ قوم کے آگے سچ بات کر کے اُن کے دماغوں پہ پڑے پردے ہٹانا چاہوں گی کہ عوامی لیڈر وہی ہوتا ہے جو عوام کی طرح گزر بسر کرے۔ مگر بدقسمتی سے عوام کو دکھایا وہ جاتا ہے جو اندر سے ویسا ہوتا نہیں اور جو ہوتا ہے اُسے چھپایا جاتا ہے۔ عمران خان ہیلی کاپٹر کے بغیر سفر نہیں کر سکتے اسلام آباد سے پنڈی یا پنڈی سے اسلام آباد بھی ہیلی کاپٹر کے بغیر نہیں جا سکتے، یہ کیسے کیسے عوامی لیڈر اس قوم کو تحفے میں ملے ہیں۔ آخر یہ قوم کب ہوش کے ناخن لے گی کب آنکھیں کھول کے سچ دیکھنا شروع کرے گی۔
اپنی جمہوریت کے چکروں میں خدارا ریاستی اداروں کو نشانہ مت بنائیے۔ پچھلے کچھ عرصہ سے سوشل میڈیا پر اداروں پہ بہت تنقید دکھائی دیتی ہے یہ وہ لوگ کر رہے ہیں جن کو شعور نہیں اور اپنے چھوٹے سے مفاد کو پورا کرنے کے لیے منفی پروپیگنڈا خصوصاً ہماری آرمی جیسے ادارے پہ کر رہے ہیں۔ افواج پاکستان ملک کے دفاع کی ضامن ہے اور اگر ایسے اداروں کو ہدف تنقید بنایا جائے گا تو یہ ریاست کے لیے لمحہ فکریہ ہے اس کا حل صرف یہی ہے کہ تمام متعلقہ حکومتی اداروں کو ہر ممکن سعی کر کے ایسے تمام عناصر کو کیفر کردار تک پہنچانا ہو گا جو ریاست کے ستونوں کو بلا وجہ ہدف تنقید بناتے ہیں اور ریاست کو کمزور کرنے کا باعث بنتے ہیں۔