چین کی ترقی کا راز

چین کی ترقی کا راز

تحریر : حسن  افضل رانا

 

عظیم قوموں کے باہمت اور باصلاحیت لوگ ہمیشہ محنت سے ترقی کے قائل رہے ہیں ان کے نزدیک رات بھر میں امیر بننے کا خواب محض ایک ادھوری بات جانا جاتا ہے اور شاید یہ ہی وجہ ہے کہ وہ محنت سے آگے بڑھنے کو ہی اپنا وطیرہ بنائے رکھتے ہیں۔ ترقی کی اصل روح کو پہنچنے کیلئے لگ بھگ نصف صدی کا عرصہ چاہیئے ہوتا ہے جس میں کسی ملک یا پھر قوم کی بہتری کا عمل پروان چڑھ سکتا ہے۔

 

 یہاں ایک مثال چائنہ  بھی ہے جہاں چند دہائیاں قبل لوگ قسم پرسی کی حالت میں وقت گزارنے پر مجبور تھے لیکن پھر اس ہی ملک نے معاشی اور اقتصادی اصلاحات لاکر اپنی قسمت ہی بدل ڈالی کہ آج وہ دنیا کی سب سے بڑی معاشی طاقت بن چکا ہے۔ چائنہ ہمیشہ نت نئی جدت اور اعلی طرز معاشرت کا قائل سمجھا جاتا ہے جس نے ناصرف پوری دنیا میں اپنے نام کا لوہا منوایا ہے بلکہ کورونا جیسی عالمی وباء کے باوجود اپنی معاشی حالت کو پہلے سے زیادہ مستحکم کیا ہے۔ 

 

چائنہ  معیشت کی شب و روز میں پنپتی ہوئی ترقی ملکی لیڈروں کی بہتر حکمت عملیوں کا آئینہ دار دکھائی دیتی ہے۔چائینہ کی تاریخ میں جھانکا جائے تو ایک بڑا نام ڈینگ زیوفنگ دکھائی دیتا ہے جس نے ملکی ترقی کی داغ بیل رکھی۔ ڈینگ زیوفنگ سنہ 1976 میں ایک ملٹری کمانڈر اور  لیڈر کی حیثیت سے ملکی ترقی کا سبب بنے۔ کمانڈر نے زراعت اور صنعت کے شعبہ میں کمال مہارت دکھائی اور مینجرز کی مدد سے اصلاحات کا آغاز کیا اور تمام شعبہ ہائے زندگی میں سنگ میل کی حیثیت سے کام کا آغاز کیا۔

 

چائنہ  نے معاشی صورتحال کو بھانپتے ہوئے سب سے پہلے زراعت کے شعبہ کو چنا وہ جانتا تھا کہ بھوک و افلاس کے خاتمے کیلئے روزی روٹی کا بنیادی مسئلہ حل کرنا ہو گا جس کیلئے کمانڈر نے زراعت میں جدت لانے کیلئے ایگریکلچر فارمنگ کا رجحان متعارف کروایا اور اس کام کیلئے دنیا بھر کے زراعت ماہرین مدعو کئے۔ یونہی شعبی زراعت میں فارمنگ کے عمل سے کچھ ہی وقت میں ناصرف ملک میں درپیش خوراک کی کمی پوری ہو گئی جبکہ زراعت ملکی زرمبادلہ کا بہترین زریعہ بھی بن گئی۔

 

 ملکی پہیہ حرکت میں آنے کے بعد چائنہ کمرشل انڈسٹری پر دھیان دینا شروع کیا تو کاٹن اگانا شروع کی جس سے ٹیکسٹائل انڈسٹری کا پہیہ حرکت میں آگیا۔ کسانوں کو جدید زرعی آلات کی آگاہی کیلئے  ووکیشنل ٹریننگ انسٹیٹیوٹ قائم کئے گئے۔ لوگوں کو روز گار دینے کیلئے دیہی علاقوں میں منی پروڈکشن یونٹس قائم کئے گئے جہاں زرعی آلات، بچوں کے کھلونے اور سمارٹ فرنیچر کے کام کا آغاز کیا گیا۔چائنہ میں اس طریق کار سے GPB 13% سے بڑھ کر 30% تک پہنچ گئی اور ملک ترقی پزیدلر ممالک کی سف میں کھڑا ہونے لگا۔1990 میں چائینہ نے جنوبی کوریا اور جاپان کو اپنی زمین اور سستی لیبر آفر کی تاکہ وہ چائینہ میں جدید ٹیکنالوجی کے یونٹس لگا سکیں کیونکہ چائینہ کو علم تھا کہ اس کے پاس اپنے لوگوں کو ٹیکنالوجی کی دنیا میں لانے کا اس سے بہتر کوئی اور راستہ نہیں تھا جس میں وہ خاطر خواہ کامیاب ہورہا تھا۔

 

 پھر یونہی چین نے سپیشل اکنامک ذون بناکر دینا کی بڑی کمپنیز کے ریسرچ اینڈ ڈیولپمینٹ یونٹس لگوائے اور جب انٹرنیٹ ٹیکنالوجی آئی توچائنہ نے اس ٹیکنالوجی کے سروس سیکٹر میں ٹریڈ اینڈ ریسرچ پر بلین ڈالرزخرچ کرکے اپنی قوم کو امیر ملکوں کی صف میں لاکر کھڑا کردیا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ آج ان کے GDP میں سروس سیکٹر کا حصہ 54% تک بڑھ چکا ہے۔محنت کوئی بھی ہو اثر رکھتی ہے لیکن اگر محنت کا حصول مثبت ہو تو واقعی خوشحالی مقدر بن جاتی ہے۔ چائینہ اپنی دواندیشی اور انتھک محنت سے دنیا بھر کو ہر میدان میں مات دے رہا ہے جبکہ ان دنوں اپنے منصوبے بیلٹ اینڈ روڈ پراجیکٹس کی مدد سے پوری دنیا میں اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہا ہے جس وہ آنے والے دنوں میں مزید اوپر جاتا دکھائی دے رہا ہے۔ یقینا وہ ہی قومیں یاد رکھی جاتی ہیں جو اپنے بل بوتے پہ پروان چڑھتی ہیں جس کی چائینہ کی ایک واضح مثال ہے۔ محنت وہ واحد عمل ہے جس کا رشتہ کامیابی سے جڑا ہوتا ہے۔