ووٹ کو عزت مل رہی ہے

 ووٹ کو عزت مل رہی ہے

 اپوزیشن کی طرف سے ڈالا جانے والا تحریک عدم اعتماد کا ڈول ابھی تک خالی ہے، اسے بھرنے اور ووٹ کو عزت دینے کی کوششیں جاری ہیں ، تحریک کی کامیابی کے بعد کیا سیاسی نقشہ بنے گا اس پر اب تک اتفاق رائے کا فقدان ہے، طرہ یہ کہ دونوں جماعتوں کی قیادت میں باہمی اعتماد کی بھی کمی ہے،اسی بنا پر سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی بھی تو کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو گی،تحریک عدم اعتماد ہی نہیں لانگ مارچ اور اسلام آباد میں دھرنے پر بھی اپوزیشن جماعتیں کسی نقطے پر متفق نہیں،فضل الرحمٰن نے باقاعدہ طور پر پیپلز پارٹی کی قیادت سے اپیل کی ہے کہ 27فروری کو کراچی سے روانہ ہونے والے لانگ مارچ کو فی الحال مؤخر کردے اور پی ڈی ایم کے23مارچ کے دھرنے کو کامیاب بنانے کیلئے تعاون کرے،ورنہ اپوزیشن تقسیم ہو جائے گی اور حکومت پر دبائو ڈالنا مشکل ہو جائے گا۔
شہباز شریف اور آصف زرداری میں اب تک دو ملاقاتیں ہو چکی ہیں مگر کوئی ملاقات نتیجہ خیز نہیں ہو سکی،آصف زرداری ،شہباز شریف،فضل الرحمٰن چو دھری برادران سے بھی ملاقاتیں کر چکے ہیں مگر ان کی طرف سے بھی کوئی حوصلہ افزاء جواب نہیں ملا،اسی وجہ سے ن لیگ وزیر اعظم کیخلاف تحریک عدم اعتماد لانا چاہتی ہے اور پیپلز پارٹی کا خیال ہے کہ مرکز میں پہلے سپیکر قومی اسمبلی کیخلاف عدم اعتماد لائی جائے اس سے ایک تو حکومت سے ناراض تحریک انصاف کے ارکان اور حکومتی اتحادیوں کے بارے میں یقینی طور پر معلوم ہو جائے گا کہ وہ وزیر اعظم کیخلاف تحریک عدم اعتماد میں تعاون کرتے ہیں یا نہیں،پیپلز پارٹی وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کیخلاف بھی تحریک عدم اعتماد لانا چاہتی ہے اور بضد ہے کہ کامیابی کی صورت میں وزارت اعلیٰ چودھری پرویز الٰہی کو دی جائے مگر ن لیگ کو اس حوالے سے تحفظات ہیں،ن لیگ وزیر اعظم کیخلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں فوری عام انتخابات کرانے پر بضد ہے جبکہ پیپلز پارٹی اسمبلی کی پارلیمانی مدت پوری کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے،دوسری صورت میں پیپلز پارٹی سے کہا گیا ہے کہ باقی ماندہ مدت کیلئے وہ اپنا وزیر اعظم لے آئین لیگ کو مسائل کا ٹوکرا اپنے سر پر دھرنے میں کوئی دلچسپی نہیں،ان اختلافات کی نوعیت اگر چہ سنگین نہیں مگر فریقین ایک دوسرے کے مؤقف کو تسلیم کرنے پر بھی تیار نہیں،ایسی صورت میں تحریک عدم اعتماد کی کامیابی بارے یقینی طور پر کچھ کہنا ممکن نہیں۔
 تحریک انصاف کیخلاف اپوزیشن کا شور و غوغا ،عدم اعتماد تحریک،لانگ مارچ ،دھرنے یہ سب باسی کڑھی میں ابال لگتا ہے اور باسی کڑھی کی یہ ہنڈیا بیچ چوراہے آج پھوٹی کہ کل پھوٹی،حکومت مخالف اس جدو جہد میں ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی سمت مختلف ہے تو دونو ںکی منزل بھی مختلف ہو گی البتہ مقصد ایک یعنی کرپشن مقدمات،نیب انکوائریوں،ریفرنسز اور سزائوں سے گلو خلاصی ہو سکتا ہے،نواز شریف اپوزیشن جماعتوں کے اس اتحاد سے وہ مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں جو نوابزادہ نصراللہ مرحوم کی کوششوں سے لندن میں بینظیر کیساتھ میثاق جمہوریت سے حاصل کئے گئے تھے تاہم اس کی امید کم ہی دکھائی دیتی ہے،آصف زرداری اور شہباز شریف کی پہلی ملاقات سے فضل الرحمٰن کو بے خبر رکھا گیا،چودھری برادران سے آصف زرداری کی دو اور شہباز شریف کی ایک ملاقات سے بھی ان کو لا تعلق رکھا گیا،اب جبکہ فریقین ایک دوسرے کی ماننے کی بجائے اپنی بات منوانے پر بضد ہیں تو فضل الرحمن کو متحرک کیا گیا ہے، فضل الر حمن نے چودھری برادران سے ملاقات کر کے ان کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کیساتھ کلی طور پر حکمرانی دینے کی پیشکش کی مگر چودھری برادران نے کوئی واضح جواب دینے کی بجائے سوچ بچار کیلئے ٹائم مانگ لیا،فضل الرحمٰن کو ہی شہباز شریف اورآصف زرداری کو منانے کا بھی ٹاسک دیا گیا ہے،اب دیکھیں اختلافات کا یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے،مگر یہ طے ہے کہ فضل الر حمٰن نوابزادہ نصراللہ مرحوم کی سی سفارت کاری اور ثالثی کی خوبیاں نہیں رکھتے اس لئے فوری طور پر چودھری برادران کو اپوزیشن کا ساتھ دینے پر راضی اور شہباز شریف اور آصف زرداری کو اپنے مؤقف سے پسپا ہونے پر شائد ہی آمادہ کر سکیں،حکومت نے بھی اپنا سکور پورا کرنے کیلئے ایڑھی چوٹی کا زور لگا رکھا ہے،اگر ناراض حکومتی ارکان اورجہانگیر ترین گروپ کو ہی راضی کر لیا جاتا ہے تو حکومتی اتحادی بے شک اپوزیشن سے جا ملیں عدم اعتماد تحریک کو کامیاب نہیں کرایا جا سکتا۔
 جیسے حکومت کے پاس عوام کو ریلیف دینے کا کوئی پروگرام نہیں ایسے ہی اپوزیشن کا دامن بھی خالی ہے،اپوزیشن نے عوام کو ریلیف دینے کیلئے کئے گئے حکومتی اقدامات کی راہ میں روڑے اٹکانے کے سوا کوئی کارنامہ انجام نہ دیا اس کے پاس بھی عوامی مسائل و مشکلات کے حل کیلئے کوئی منصوبہ نہیں،اس لئے کوئی بھی حکومت کے گھر جانے کے بعد اقتدار سنبھالنے پر راضی نہیں،عام الیکشن میں اگر اپوزیشن جماعتوں نے مشترکہ طور پر حصہ لیا اور اکثریت حاصل بھی کر لی تو بھی اس کے پاس عوامی مشکلات میں کمی کیلئے کو ئی پر وگرام نہیں ہے بلکہ آئندہ حکومت بھی سابق حکومت کو مورد الزام ٹھہرا کر عوام کو مسائل و مشکلات میں گھرا چھوڑ دے گی اور عوام کو صبر کی تلقین کرکے ڈنگ ٹپاتی رہے گی اور عوام مہنگائی بیروزگاری لاقانونیت پولیس مظالم کا شکار رہے گی،آئندہ حکومت ہر برائی اور مسئلے کی ذمہ داری سابق حکومت پر ڈالنے کی روش اپنا کر ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کی کوشش کرے گی ،اس نازک موقع پر چو دھری پرویز الٰہی کی بات انتہائی با معنی ہے وہ کہتے ہیں،ملاقاتیں اور رابطے سیاسی عمل کا حصہ ہیں جاری تھے اور جاری رہیںگے مگر ہم کوئی غیر جمہوری اقدام کریں گے نہ اس کی حمایت کی جائے گی،حکومت کو عوام نے پانچ سال کا مینڈیٹ دیا ہے اور یہ مدت اسے پوری کرنے دی جانی چاہئے،شہباز شریف خود بھی عدم اعتماد لانے کے حوالے اعتماد سے محروم ہیں،اور اس حوالے سے انہوں نے کوئی حتمی تاریخ دینے سے انکار کر دیا ہے،یعنی ابھی اپوزیشن یہ بھی طے نہیں کر پائی کہ عدم اعتماد کا سانپ کب پٹاری سے نکالنا ہے،یہ اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ میں عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی کے بعد کی صورتحال بارے بھی اتفاق رائے نہیں پیپلز پارٹی پارلیمانی مدت پوری کرنے کے حق میں ہے جبکہ ن لیگ فوری الیکشن کی خواہش مند ہے،چھ مہینے کی بات بھی ہو رہی ہے ،جاری صورتحال کے بارے میں کچھ بھی حتمی طور پر کہنا ممکن نہیں کہ اپوزیشن خود بھی اس حوالے سے گو مگوں اور کشمکش کا شکار ہے،یہ صورتحال اس بات کی غماز ہے کہ اپوزیشن کی بڑی جماعتیں مخالفت برائے مخالفت کر رہی ہیں ،شائد کہیں سے اشارہ ملا ہے،کچھ ڈھیل ملی ہے یا ڈیل کی امید ہے اس لئے وہ سب مل جل کر ووٹ کو عزت دے رہے ہیں۔

مصنف کے بارے میں