عمران خان کی سوچ اور میرا معاشی نظریہ

عمران خان کی سوچ اور میرا معاشی نظریہ

پاکستان کی معیشت کو سنبھالنے کے لیے عمران خان کے پاس فوری نوعیت کی اور موثر سپورٹ سمندر پار پاکستانیوں کی ملک میں سرمایہ کاری ہے۔ عمران خان کی یہ بات بھی درست ہے کہ ملک میں سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول کا ہونا وہ بنیادی عنصر ہے جس کے بغیر کسی بھی ملک کی معیشت بحال کی جا سکتی ہے نہ ترقی کر سکتی ہے۔ کسی بھی ملک میں اگر صرف سرمایہ کاری کو تحفظ اور سرمایہ کار کو اعتماد بخش دیا جائے تو کمزور سے کمزور ملک کو بھی آکسیجن مہیا کی جا سکتی ہے۔ لیکن دنیا کے مختلف ممالک کو قرضے بیچنے والے اداروں کا کاروبار اس وقت تک نہیں چل سکتا جب تک دنیا میں ملکوں کی معیشت کمزور نہ ہوتی رہے۔ ملک غریب ہونگے تو ان کا کاروبار چلے گا۔ قرضوں سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ ملک میں پیداواری نظام کو ترقی دی جائے۔ اس وقت میکرواکانومی کا زیادہ تر انحصار دوسرے ملکوں سے تجارت پر ہوتا ہے اور اس کے ثمرات عموماً عام آدمی تک نہیں پہنچتے۔ پوری دنیا میں ٹرکل ڈاؤن تھیوری نے جو تباہی برپا کی ہے اسے اعداد و شمار میں اس طرح پیش نہیں کیا جاتا جس طرح کیا جانا چاہیے۔ ٹرکل ڈاؤن تھیوری نے سنگل ڈائمینشنل یا یک پرتی سرکولیشن آف منی جیسے مضمرات پیدا کیے جس نے دولت کے ارتکاز کا نیا راستہ دکھایا ہے۔
اگرچہ عمران خان کے معیشت دان یہ سارا گورکھ دھندہ سمجھتے ہیں لیکن میرا اندازہ ہے کہ ان میں مائیکرو اکانومی کی روح اور اس کی افادیت کا ویژن کسی کے پاس نہیں۔ میں نے جب آج سے پندرہ سال پہلے اپنے ماڈل کے تحت اسلامک مائیکرو فنانس کے پائلٹ پراجیکٹس شروع کیے تو ان کی گروتھ اور غریب آدمی کی معاشی بحالی کے شاندار نتائج حاصل کیے۔ میرے ان پراجیکٹس میں مرغیوں کی تقسیم کے پراجیکٹس بھی تھے۔ میں نے دیکھا کہ میری دیکھا دیکھی کسی نے عمران خان کو قائل کیا کہ غریبوں میں مرغیاں تقسیم کرنی چاہئیں۔ 
مرغیوں کی تقسیم سے آگے نہ ان صاحب کو کچھ پتہ تھا نہ حکومت کو کہ اس پراجیکٹ کو غریب آدمی کے لیے اور پھر پورے ملک کے لیے معاشی ترقی کا ذریعہ کیسے بنانا ہے۔ لہٰذا سسٹم کے بغیر مرغیوں کی تقسیم ایک طرف تو کوئی امپیکٹ پیدا نہ کر سکی اور دوسری طرف مذاق کا نشانہ بھی بن گئی۔ اگرچہ کنونشنل مائیکرو فنانس نے بنگلہ دیش کی معیشت کو شروع میں بہت سہارا دیا لیکن پس پردہ محرکات کی وجہ سے گرامین بینکنگ نے واپس اسی غریب کو ہٹ کیا جس کے نام پر اسے شروع کیا گیا تھا۔ میں نے انڈونیشیا میں ہونے والی ایک بین الاقوامی کانفرنس میں ڈاکٹر یونس سے سوال کیا کہ آپ کے بینک اور کسٹمر کی اکنامک گروتھ کا اگر موازنہ کیا جائے تو ریشو کا تناسب کیا ہو گا؟ پروفیسر یونس نے میرے سوال کا جواب دینے کے بجائے مجھے بنگلہ دیش کا وزٹ کرنے کی دعوت دے ڈالی۔ میں بنگلہ دیش تو نہ گیا لیکن میں نے دنیا کو متبادل مائیکرو فنانس سسٹم ضرور دیا جو اسلام کے حقیقی اور سچے معاشی اصولوں کو مدنظر رکھ کے بنایا گیا ہے۔
شروع شروع میں مجھے مغربی معاشی اداروں اور تھنک ٹینکس کی طرف سے بہت پذیرائی دی گئی لیکن جب انہیں لگا کہ اس میں سود کی گنجائش ہے نہ ایکسپلائٹیشن کی تو انہیں مجھ سے مایوسی ہوئی اور مجھے ان کے رویے سے لگا کہ ان کے نزدیک غریب کو غربت سے نکالنے کے بجائے اپنے منافع میں اضافہ کرنا ہی اصل مقصد تھا۔ سو میں نے بھی یہی مناسب سمجھا کہ خاموشی سے اپنی راہ لوں۔ ہمارے اپنے حکمرانوں کا بھی یہی حال ہے کہ خود عمران خان جیسے لیڈر نے بھی مختلف شعبوں میں مغرب پلٹ لوگوں کو اہمیت دی اور جو مغرب کو پلٹا کے واپس آئے انہیں وہ جانتا تک نہیں۔ اگر اس کی پارٹی میں سے اسے کسی نے یہ نہیں بتایا کہ ایک پاکستانی کو خدا نے خالص اسلامی اصولوں پر بنائے گئے مائیکرو اکانومی سسٹم سے ملک کی معاشی تقدیر بدلنے کی توفیق عطا کی ہے اور اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے تو اس کا مطلب بھی یہی ہوا کہ اس کی پارٹی کے لوگوں کو بھی اپنی ترقی ہی مقصود ہے۔ میں نے ایک بار بابر اعوان کو بتایا کہ میں اپنے اسلامک مائیکرو فنانس سسٹم سے عمران خان کی حکومت کے ذریعے ملک اور قوم کی مدد کر سکتا ہوں آپ اس تک یہ بات پہنچائیں تو انہوں فرمایا کہ پہلے میری زمینوں پہ یہ کام شروع کرو۔
یہ باتیں میں اس لیے ریکارڈ پہ لانا ضروری سمجھتا ہوں کہ مینار پاکستان کے جلسے میں عمران خان نے اپنی تقریر میں ملک کی معیشت کو سنبھالنے کی نیت کا اظہار کیا ہے اور اگر میں اس میں حصہ ڈال سکتا ہوں تو کیوں پیچھے رہوں۔ لیکن میرے جیسے لوگوں کا سیاسی رہنماؤں کے پیچھے پھرنا اور پرپوزلز دینا اس لیے مشکل ہوتا ہے کہ اس میں ہمارا اپنا کوئی ذاتی مقصد نہیں ہوتا اور دوسرا ہمیں رہنماؤں سے توقع بھی نہیں ہوتی کہ وہ کسی بڑے مقصد کے لیے سوچ اور فکر رکھنے والے لوگوں کو قابل توجہ سمجھیں گے۔ لیکن اس وقت ملک کی معیشت جس سطح پر چلی گئی ہے وہاں جب تک ملک کا ہر فرد اپنا اپنا حصہ نہیں ڈالے گا بات نہیں بنے گی۔ لہٰذا میری بھی خواہش ہے کہ میرا ملک اور میری قوم مجھ سے فائدہ حاصل کرے اور یہ سوائے کسی ویژنری حکمران کے ممکن نہیں۔ عمران خان کبھی ملائیشیا کی طرف دیکھتا ہے اور کبھی چین کی طرف جبکہ میرا اکنامک ماڈل اور تھیوری ریاست مدینہ کے اقتصادی نظام پر وضع کی گئی ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ ہمارے کسی حکمران میں یہ حوصلہ ہے کہ وہ مغربی ذہنی غلامی سے باہر آ کر یہ سوچ سکے کہ ہمارے پاس ان سے بڑے دماغ موجود ہیں۔ جہاں تک میری اپنی طمانیت کی بات ہے تو میرے لیے آج بھی پندرہ سال پہلے فرزند علامہ اقبال جسٹس جاوید اقبال کے منہ سے نکلے ہوئے جملے اعزاز کا باعث ہیں کہ ”فرحت عباس شاہ نے جو معاشی سسٹم بنایا ہے علامہ اقبال اپنی آخری عمر میں اس پر کام کرنا چاہتے تھے لیکن زندگی نے ان کو مہلت نہ دی۔ آج مجھے خوشی ہو رہی کہ ایک شاعر نے اس کام کو آگے بڑھایا ہے۔ مجھے یوں لگتا ہے جیسے فرحت نے علامہ صاحب کے خواب کو تکمیل دی ہے“۔