لحد میں اُترتی ہوئی تبدیلی!

 لحد میں اُترتی ہوئی تبدیلی!

اپوزیشن کی حکومت گرائو مہم یا مشن اور وزیراعظم و ہم نوائوں کی حکومت بچائو مہم یا مشن میں کہیں کوئی اُصول، کوئی عزت آبرو، کوئی شرم وحیا دکھائی نہیں دیتے … آج کی سیاست اُس بدترین اور غلیظ ترین مقام پر ہے جس کی نشاندہی آغاشورش کاشمیری نے اپنے ایک خوبصورت شعر کی صورت میں کئی برس قبل کردی تھی …’’ میرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو …گھری ہوئی ہے طوائف تماشبینوں میں ‘‘ … کسی  زمانے میں طوائفوں اورتماشبینوں کے بھی کچھ اُصول ہوتے تھے، آج کے کچھ سیاستدان طوائفوں اور تماشبینوں سے بھی بدتر ہیں، سیاست کو اِس قدر آلودہ کردیا گیا ہے بازار حُسن کی ایک رہائشی سے کسی نے پوچھا ’’ بی بی تم سیاست میں کیوں نہیں آجاتی ؟ وہ بولی ’’اللہ اِس کاروبار میں اتنی عزت کی روٹی دے رہا ہے اُس (سیاست ) گندگی میں ضرور جانا ہے … سیاست کے اِن تماشبینوں کے ہاں عزت آبرو کی تو خیر کوئی اہمیت ہی نہیں ہے اقتدار کے نشے میں یہ اپنی زندگی سے ہاتھ دھونے کے مقام تک اُترآتے ہیں، اقتدار کا چسکا یا نشہ جوئے کے چسکے یا نشے کی طرح ہوتا ہے، جو قبر میں اُترنے کے بعد بھی شاید نہیں اُترتا، جوئے اور سیاست میں البتہ ہلکا سا ایک فرق یہ ہے جوئے میں ہارجیت ہوتی رہتی ہے، مگر اقتدار اور سیاست کے جواری ہمیشہ یہ چاہتے ہیں اقتدار کے جوئے میں اُن کی صرف جیت ہی ہو، ظاہر ہے ایسا ممکن نہیں ہوتا، لہٰذا اِس ناممکن کو ممکن بنانے کے لیے یہ گھٹیا سے گھٹیا حدتک اُتر آتے ہیں، یہ اقتدار میں ہوں تو ملک کو کھانے کو دوڑتے ہیں، اور اقتدار میں نہ ہوں تو ملک اُنہیں کھانے دوڑتا ہے، لہٰذا جیسے ہی یہ اقتدار سے باہر ہوتے ہیں باہر چلے جاتے ہیں، پاکستان کو اُنہوں نے لُوٹ مار کی ایک ’’تجربہ گاہ ‘‘ بلکہ ’’چراہ گاہ‘‘ بنارکھا ہے … پچھلے تین چار ماہ سے اقتدار گرانے اور اقتدار بچانے کا جو مقابلہ جاری ہے، جِس جِس طرح کی بدتمیزیاں، بداخلاقیاں، رسہ گیریاں، غنڈہ گردیاں، بے شرمیاں، بے حیائیاں وبددیانتیاں ہورہی ہیں یہ کوئی پہلی بار نہیں ہورہیں، ایسا’’میلہ مویشیاں‘‘ پاکستان میں پہلے بھی لگتا رہا ہے، فرق صرف یہ ہے اِس بار اِس عمل میں ایک ایسا حکمران سیاستدان بھی شریک ہوگیا ہے جو ’’تبدیلی‘‘ کے نام پر ووٹ لے کر آیا تھا، بلکہ یہ کہا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا تبدیلی کے نام پر عوام کو وہ گمراہ کرکے آیا تھا، دو تین لُٹیری سیاسی جماعتوں کے بار بار اقتدار سے اُکتائے لوگوں کو ’’تبدیلی‘‘ کا نعرہ اِس قدر بھا گیا وہ اِس نعرے پر اپنا سب کچھ قربان کرنے پر تیارہو گئے، … تبدیلی یہ آئی کہ تباہی بڑھ گئی، ہر شعبہ ہرادارہ ایک حکمران کے نکمے پن، اُس کی ضِد ، اُس کی جھوٹی انائوں، اُس کے تکبر کے زد میں آکر مزید کچلا گیا، اپنی سیاست چمکانے کے لیے ہر ’’کارڈ‘‘ اُس نے استعمال کیا، چار برسوں میں سوائے باتیں کرنے کے اور کچھ وہ نہیں کرسکا، آپ اِس کی گزشتہ پندرہ بیس برسوں کی تقریریں اور بیانات اُٹھا کر دیکھ لیں، جوکچھ وہ پندرہ بیس برسوں سے کہہ رہا ہے، آج بھی  وہی کچھ وہ کہہ رہا ہے، اگر کسی حوالے سے وہ اپنی’’زبان ‘‘ پر قائم ہے تو وہ یہی حوالہ ہے  کہ ایک ہی طرح کی باتیں وہ مسلسل کیے جارہا ہے ، ایک ہی طرح کے راگ وہ مسلسل الاپے جارہا ہے، ایک ہی طرح کی بین وہ مسلسل بجائے جارہا ہے ،… جتنی باتیں وہ کرتا ہے اور جیسی باتیں وہ کرتا ہے، اُس پر ایک فی صدعمل بھی اُس نے کیا ہوتا آج یہ حالت نہ ہوتی، ملک ہرحوالے سے پستی کا شکار ہوتے ہوئے دکھائی دے رہا ہے، افسوس وزیراعظم بننے کے باوجود اپنے ظرف اور کارکردگی کے اعتبارسے آج تک یہ وزیراعظم نہیں بن سکا، پوری دنیا میں عزت آبرو کے اعتبار سے جتنا اِس شخص کو قدرت نے نوازا شاید ہی پاکستان میں اور کسی کو نوازا ہوگا، …تکبر اللہ کو پسند نہیں ہے،اِسے اِس حوالے سے بھی قدرت نے استثنیٰ دے رکھا تھا، ہم نے ہمیشہ یہی سنا اور دیکھا ’’جُھکی ہوئی شاخوں کو ہی پھل لگتا ہے‘‘… یہ واحد اکڑی ہوئی ’’شاخ‘‘ تھی جسے اللہ نے بے پناہ پھل لگایا، اُسے اللہ نے اُس کی اوقات سے بہت زیادہ نوازا مگر اُس نے ثابت کردیا یہ اُس کا اہل نہیں تھا، یہ جب وزیراعظم بنا ہرقومی ادارہ اُس کے سامنے سرنگوں ہوگیا، ایسے ایسے اداروں نے بھی اُس سے تعاون کیا جو کسی سے تعاون کرنے کے عمل کو اپنی ’’توہین‘‘ سمجھتے ہیں، جتنی مدد ادارے اِس شخص کی کرتے رہے یہ ’’اعزاز‘‘ پاکستان کے  شاید ہی اور کسی سیاسی حکمران کو نصیب ہوا ہوگا، اس عالم میں، ان حالات میں یہ شخص ذرا سی حکمت عملی سے اگر کام لیتا، عاجزی وانکساری سے کام لیتا، اہل لوگوں کو آگے لے کر آتا، آج پاکستان کو یہ ایک عظیم ترین مقام پرلے جا چکا ہوتا، اچھی باتیں ہمیشہ ایک کان سے سُن کر دوسرے سے یہ نکال دیتا ہے، اُس کا ’’ایمان‘‘ ہے اللہ نے دوکان انسان کو اِس لیے بخشے ہیں کہ اچھی بات ایک کان سے سُن کر دوسرے سے نکال دو، اور بُری بات ایک کان سے سُن کر فوراً زبان سے نکال دو، کئی بار اُسے ہم سمجھاتے رہے ’’اپنا ظرف اپنے منصب کے مطابق کرلیں ‘‘… افسوس  اُس نے اپنا منصب اپنے ظرف کے مطابق کرلیا، … اکڑتے صرف مردے ہیں، زندہ لوگوں میں لچک ہوتی ہے، وہ صرف اُن ہی معاملات میں لچکتا رہا جن میں اُس کے ذاتی مفادات تھے، بدلحاظ اور بے دید یہ اول درجے کا ہے، اِسی حوالے سے اُس کی پوری ایک ایک تاریخ ایک ماضی ہے، مگر اِس کی تازہ ترین مثال حال ہی میں وزیراعلیٰ بزدار سے اُس نے استعفیٰ لے کر قائم کی، بزدار کو وزیراعلیٰ بنانے کی ’’مہربانی‘‘ اُس نے شاید اِس لیے کی تھی بزدار نے زندگی میں اُس پر کوئی احسان نہیں کیا تھا، اگر کیا ہوتا اُسے بھی وہ وزیراعلیٰ نہ بناتا۔ اب جس طرح بے توقیر کرکے اُس سے استعفیٰ لیا گیا مجھے یقین ہے گزشتہ پونے چاربرسوں میں بزدار نے ضرور کوئی نہ کوئی احسان اُس پر کردیا ہوگا جس کے نتیجے میں اُسے اُس کی فطرت کا شکار ہونا پڑا، … تحریک عدم اعتماد سے ممکن ہے وہ بچ جائے، مگر اِس معاملے میں اُس کے ’’بے نامی اُصول ‘‘ جس بُری طرح ایکسپوز ہوئے اُنہیں ہمیشہ سیاہ حروف سے ہی لکھا جائے گا۔ بزدار سے استعفیٰ لینے سے ہزار درجے بہتر تھا وہ خود استعفیٰ دے دیتا، …جو لوگوں کے دلوں پر راج کرنے آیا تھا وہ حکومت بھی صحیح طرح نہیں کرسکا۔ اللہ کرے وہ  اپنے اقتدار کی بقیہ مدت پوری کرے، اُس کی بے اُصولیاں اُس کی نااہلیاں ہمیں یاد رہیں گی، اگر وہ اپنے اقتدار کی بقیہ مدت پوری نہ کرسکا، اُس کے بعد وطن عزیز کی باگ ڈور ایک بار پھر اُن ہی روایتی سیاستدانوں (چوروں ڈاکوئوں) کے ہاتھ میں آگئی، تو اِس بار اِس کا کریڈٹ ہم اسٹیبلشمنٹ کو دینے کے ساتھ ساتھ اپنے اس محبوب وزیراعظم کو بھی دیں گے جس نے چار برسوں میں سوائے باتیں کرنے کے کچھ نہیں کیا !!  

مصنف کے بارے میں