’’آفاقی مامتا اور اشک کا سیل رواں

’’آفاقی مامتا اور اشک کا سیل رواں

حکیم الامت جیسی عظیم شخصیت کا ، اپنی والدہ محترمہ کے بارے میں فرمان ہے ، ان کایہ شعر ہرانسان کے بارے میں ہے، خواہ اس کا تعلق اشرافیہ سے ہو، خواہ وہ عوام الناس سے ہو، وہ ماں کے بارے میں یوں عرض پروازہیں کہ
جہاں جہاں ہے، میری دشمنی سبب میں ہوں
جہاں جہاں ہے میرااحترام تم سے ہے!!
حضور ؐکا فرمان ہے، کہ خواہ ماں کو گرم ترین تپتے ہوئے فرش حرم پر احرام پہن کراور کندھے پہ اُٹھا کر حج کرایا جائے، تو بھی زائر صرف ماں کی اُس پیار بھری مسکراہٹ کا بدل بھی نہیں ہے، جو وہ اپنے بچے کو دیکھ کر مسکرا اُٹھتی ہے، اسی لیے قرآن پاک سورۃ البقرہ میں ارشاد گرامی ہے۔ 
’’اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرتے رہنا، اور رشتے داروں یتیموں اور محتاجوں کے ساتھ بھی ‘‘۔
سورۃ بنی اسرائیل میں بھی فرمان ہے۔ 
اگر والدین میں سے ایک یا دونوں تیرے سامنے بوڑھے ہو جائیں، ان کے سامنے ’’اُف‘‘ بھی نہ کرنا، اُف یا ہوں نہ کرنا، اس کا مطلب لفظی مطلب روکنا، اور ٹوکنا ہوتا ہے، اور بعض مفسرین فرماتے ہیں ، کہ اس طرح سے سانس روک لینا، جیسے سانس، سدھ لینا یعنی سانس روک لینا حضرت ابوہریرہؓ کا فرمان ہے، کہ ایک شخص رسول کریم ؐ کی خدمت میں حاضر ہوا، اور اس نے عرض کیا یارسول اللہ ؐ میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ حقدار کون ہے ؟ اس شخص نے تین دفعہ پوچھا، اور آپؐ نے تین دفعہ فرمایا ماں، اور چوتھی بار پوچھنے پر فرمایا ، اس کے بعد فرمایا ، تمہارا باپ ۔
بخاری ، مسلم میں لکھا ہے ، کہ ایک اور شخص دربار نبوتؐ میں حاضر ہوا، اور اس نے آپ ؐ سے جہاد میں جانے کی اجازت طلب کی، حضورؐنے دریافت فرمایا کیا تیرے والدین زندہ ہیں، اس نے عرض کیا ہاں پھر آپؐ نے فرمایا تو پھر ان دونوں کی خدمت میں جدوجہد کرو یہی تمہارا جہادہے اور انہیں اپنے ساتھ جہاد میں لے کر نہیں گئے حضرت اسمابنت ابی بکر نے فرمایا کہ رسول کریم ؐ کے زمانہ میں میری والدہ آئیں جبکہ وہ مشرک تھیں، تو میں نے عرض کیا یارسول اللہ ؐ میری والدہ میرے پاس آئی ہیں،  اور انہوں نے ابھی اسلام قبول نہیںکیا ہے، کیا میں ان کے ساتھ حسن سلوک کروں اور ان کی مالی مدد کروں، آپؐ نے فرمایا، ہاں ضرور وہ تمہاری ماں ہیں، خواہ وہ مشرک ہیں، مگر ہیں تو تمہاری ماں، بخاری میں حضرت ابوبکرؓ کا فرمان ہے، کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرنا والدین کی نافرمانی کرنا، اور یادرکھنا ، جھوٹ بولنا بہت سے بڑے گناہوں میں سے ہے، بخاری میں مزید آیا ہے، والدین کی نافرمانی گناہ کبیرہ میں ہے، مسلم میں فرمایا گیا ہے، اعمال میں بہترین کام والدین سے ’’حسن سلوک‘‘ ہے، ترمذی ،والد کی رضامندی میں اللہ کی رضا ہے، اور والد کی ناراضگی میں، اللہ تعالیٰ کی ناراضگی ہے، آپ ؐ نے فرمایا کہ ماں اور باپ تمہاری جنت یا جہنم میں جانے کا باعث ہیں، ایک اور جگہ ذکر فرمایا، کہ جن میں یہ خصلت بھی پائی جائے کہ والدین سے حسن سلوک’’شفقت‘‘ سے پیش آئے، اللہ تعالیٰ اس پر اپنی رحمت پھیلا دیتا ہے،  دراصل یہ کالم لکھنے کے لیے میرے روحانی بھائی جناب فہیم ظفر صاحب کی والدہ ماجدہ کی رحلت نے مائل کیا، جنید سلیم صاحب کی والدہ محترمہ کے دوسرے دن یہ خبر سننے کو ملی تو مجھے قدرت اللہ شہاب صاحب یاد آگئے، کیونکہ جناب اشفاق احمد اور بانو آپا سے خاندانی تعلقات اس وقت سے ہیں، جب میں ابھی طالب علم تھا، اور زندگی کی ہرراہ میں وہ میرے راہبر رہے، چونکہ میں اکثر فارغ ہوکر ان کے دفتر چلا جاتا تھا اور اشفاق صاحب اردو سائنس بورڈ کے دفتر سے ملحقہ اپنے پیچھے بنے کچن میں بیٹھے شہاب صاحب کے ساتھ کافی بنانے کے نت نئے تجربات میں مصروف ہوتے تھے، اوراپنی میز کی درازوں  سے مختلف بسکٹ نکال کر کہتے، نواز میاں آپ بھی لو، بہرکیف یہ یاد آئی تو مجھے شہاب صاحب کے اپنی ماں کی وفات پر لکھے وہ الفاظ یادآگئے، لکھتے ہیں کراچی کے قبرستان میں ماں جی کو چھوڑ کر جب میں تنہا راولپنڈی پہنچا تو معاً یوں محسوس ہوا کہ گھر کی چھت اڑ گئی ہے، اور اب دھوپ بارش ، اولے ، اور آندھی سے بچنے کے لیے کوئی حفاظتی سہارا موجود نہیں، ایوان صدر میں اپنے دفتر گیا تو وہ بھی اُجڑا اجڑاسا نظر آیا، کئی روز تک میری میزپہ فائلوں کا پلندہ جمع ہوتا رہا، اور میں ایک کاغذ پہ سر جھکائے بے ساختہ ’’ماں جی‘‘ کے عنوان پر لکھتا رہا، لکھتے لکھتے آنکھوں سے بار بارآنسو ٹپ ٹپ کرکے گرتے تھے، اور کاغذ پر تحریر شدہ الفاظ ان کو بھگو کر لکیروں کی صورت میں پھیلا دیتے تھے، میرے اردلی نے بتایا کہ اس دوران صدر ایوب خان کوئی بات کرنے بذات خود میرے کمرے میں آئے تھے، تو جب مجھے کاغذ پہ جھکے، آنسو بہاتے دیکھا تو بغیر کچھ کہے سنے چپ چاپ واپس چلے گئے … دوتین گھنٹے بعد میری تحریر مکمل ہوگئی، اور دل پھول کی پتی کی طرح ہلکا ہوگیا۔ 
صدر کے ملاحظہ کے لیے میں نے چند فائلیں جلدی جلدی تیار کیں، اور ان کو لے کر ان کی خدمت میں حاضر ہوگیا، وہ کرسی پہ نیم دراز ہوکر کوئی کتاب پڑھ رہے تھے جب میں اٹھ کر باہر آنے لگا تو انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے واپس بٹھالیا، چند لمحے مکمل خاموشی رہی ، پھر وہ نہایت ہمدردانہ اور نرم لہجے میں بولے، مجھے احساس ہے کہ تمہارا زخم ابھی ہرا ہے۔ 
میں نے کسی قدر ہچکچاہٹ سے جواب دیا، سر میں نے اپنی ماں کی یاد کو الفاظ میں ڈھال کر کاغذ پہ منتقل کردیا ہے، اب یہ المیہ صرف میرا ہی غم نہیں رہا، ان کے پوچھنے پہ کہ میں اس کو کسی رسالے میں چھپوائوں گا۔ میں نے جواب دیا جی کسی رسالے میں ۔ قارئین کرام، میں نے بھی فہیم ظفر صاحب جن کے پے پناہ احسانات کے نیچے میں دباہوں، اور پچھلا کالم ’’یہی خدا کی مرضی ہے‘‘ لکھ کر اپنا دکھ غم اپنے پڑھنے والوں کے سپرد کردیا ہے… امید ہے کہ ان کی دعائیں غموں کا بوجھ اٹھانے میں مدد دے کر بلندی درجات کو مزید بڑھائیں گی۔ ان شاء اللہ 
قارئین محترم، دنیا کے چاہے عوام ہوں یا حکمران، بقول اقبالؒ
حتیٰ کہ عمر رسیدہ شخص بھی پکاراٹھتا ہے 
عمر بھر تیری محبت، میری خدمت گررہی 
میں تیری خدمت کے قابل جب ہوا!
توچل بسی……