بنجر آنکھیں کبھی خواب نہیں دیکھ سکتیں

بنجر آنکھیں کبھی خواب نہیں دیکھ سکتیں

معاشرے کی عمارت اخلاقیات، برداشت، رواداری اور بھائی چارے کے ستونوں پر کھڑی ہوتی ہے اور جب یہ اعلیٰ قدریں رخصت ہو جائیں تو سماج تباہی کی جانب سفر شروع کر دیتا ہے۔پاکستانی معاشرے کو بھی اسی گمبھیر صورت حال کا سامنا ہے،ایک طرف انتہائی تیزی سے معاشرے میں فروغ پاتا عدم برداشت کا رجحان اور دوسری جانب تعلیمی اداروں میں جی پی اے کی دوڑ میں شامل ہمارے ملک کا مستقبل یعنی نوجوانانِ ملت۔عدم برداشت اور تعصب کی کہانی ہماری تربیت گاہوں سے شروع ہوکر سماج میں قتل و غارت پر ختم ہوتی ہے۔ محلے کی مسجد ومدرسہ ہو یا پھر کوئی کالج و یونیورسٹی‘بچے کی ذہنی و جسمانی نشو نما میں یہ تربیت گاہیں انتہائی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ آپ کو تعصب یا عدم برداشت کا پہلا سبق آپ کی تربیت گاہ سے ملتا ہے‘دوسراسبق آپ کو سماج سے ملتا ہے اور تیسرا سبق آپ کے سماج سیوک آپ کو صبح و شام اپنے جلسوں میں دیتے ہیں۔یہ تینوں سکول کسی نہ کسی سطح پرہماری ذہنی تشکیل میں نمایاں کردار ادا کر رہے ہوتے ہیں۔ایسے میں ہمارے محلے کی مسجد کا مولوی‘ کالجز اور جامعات سے وابستہ پروفیسرز دانش ور اور ہمارے سیاست دان، معاشرے کے مثبت یا منفی خدوخال بنانے میں یہ تینوں سکول بہت اہم ہیں۔
آپ کو تعصب اور عدم برداشت کا پہلا سبق آپ کا مذہبی پیشوا سکھاتا ہے‘آپ کو فرقہ بندی‘مسالک و مذاہب کی بحث میں الجھاتا ہے،آپ سے اس بات کی توقع رکھتا ہے کہ آپ معاشرے میںاس کے بتائے ہوئے متعصب و متشدد نظریات کو فروغ دیں گے‘زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنے من پسند فرقے کے ساتھ جوڑیں گے اور جو آپ کے مسلک‘مذہب یا فرقے کو غلط کہے گا‘اسے جہنم واصل کریں گے یا اسے جہنم کا سرٹیفکیٹ دیں گے۔آپ اپنے ارد گرد مساجد میں بیٹھے علماءکی تقاریر اٹھا کر دیکھ لیں‘آپ کو نوے فیصد اسی نظریے کی تشہیر کرتے نظر آئیں گے لہٰذا آپ معاشرے میں پروان چڑھتے عدم برداشت اور تشدد کے واقعات میں محلے کے مولوی کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔دوسرے نمبر پر آپ کے کالج اور یونیورسٹی کا استاد آتا ہے جس نے آپ کو جی پی اے کی دوڑ میں شامل کیا‘جس نے کلاس روم میں امن‘اخوت اور بھائی چارے کا سبق دینے کے بجائے ”مر جاﺅ یا مار دو“کا سبق پڑھایا۔جب آپ کے تعلیمی اداروں(کالجز و یونیورسٹیز)کے اساتذہ کرام اپنی دیہاڑی لگانے آتے ہوں‘طالب علموں کو سوال کرنے پر کلاس روم سے باہر نکال دیتے ہوں‘طالب علموں کے ذہنوں میں دوسرے اساتذہ کرام‘دوسرے تعلیمی اداروں اور مخالف سوچ رکھنے والے طالب علموں سے تعصب اور نفرت سکھاتے ہوں تو سماج میںاخوت کی جگہ صرف اور صرف عدم برداشت‘تعصب اور مخالف طبقوں کے بارے نفرت ہی پروان چڑھے گی۔بدقسمتی سے میں اس معاشرے کا فرد ہوں جہاں تعلیم صرف اس لیے حاصل کی جاتی ہے کہ ہم سرکار کے”نوکر“ بھرتی ہو سکیں لہٰذا اس میں تعجب کیسا کہ ہمارے نوے فیصد طالب علم ڈگریاں (جو جہالت کا سرٹیفکیٹ ہوتی ہیں)اٹھائے نوکری کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں‘ان طالب علموں کے پاس ہنر ہوتا ہے اور نہ ہی مشاہدہ‘نہ ہی ان بے چاروں کو کتب خانوںاور سوال کی اہمیت سے متعارف کرایا جاتا ہے۔لہٰذا ایک استاد جب پچاس سال کسی ادارے سے وابستہ رہنے کے بعد ریٹائرڈ ہوتا ہے تو اس کے پاس گنتی کے اپنے دس کامیاب طالب علم بھی نہیں ہوتے جن کے بارے وہ معاشرے کو فخر سے بتا سکے کہ اس کا کل سرمایہ یہ دس لوگ ہیں۔ایسا کیوں ہے؟کیا ہم نے کبھی اس بارے میں سنجیدگی سے سوچا؟۔کس قدر تکلیف کی بات ہے کہ ہم نے اپنے تعلیمی اداروں میں تعلیم تو دی مگر شعور‘علم اور سوچ بچار کے سارے راستے بند کر دیے۔ہم نے بچوں کو یہی سکھایا کہ بیٹا یہ ڈگری ہے‘اس کے بعد نوکری کرو تاکہ تمہاری کسی” کھاتے پیتے “گھرانے میں شادی ہو سکے یعنی ہم نے تعلیم کا مقصد بھی شادی تک محدود کر دیا۔ 
تیسرا طبقہ ہمارے سیاست دان اور سیاسی جماعتیں۔ اس معاشرے کو ذہنی طور پر مفلوج کرنے ‘ سماج میں متشدد واقعات کو فروغ دینے اور آپ کی سوچ سے اختلاف کرنے والوں کے لیے”اڑادو“ جیسی پالیسیوں کو متعارف کرانے میں اس طبقے نے انتہائی اہم کردار ادا کیا۔یہ لوگ جب حکومت میں ہوتے ہیں تو فرعون ہوتے ہیں اور جن اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو ان سے بڑا سماج سیوک کوئی اور نہیں ہوتا۔یہ اقتدار کی خاطر مخالف پارٹی کی عورت کی برہنہ تصاویر اور ویڈیوز تک وائرل کرتے ہیں اور جب کرسی کی ہوس ان کی آنکھوں تک آ جائے تو 
ایسے لوگوں سے ہاتھ ملا لیتے ہیں جنھیں کل تک یہ غدار کہتے تھے۔لہٰذا اس معاشرے کا ہر دوسرا سیاسی ورکر اپنی پارٹی کے بارے اسی طرح کے خیالات رکھتا ہے لہٰذا معاشرے میں پروان چڑھتے عدام برداشت‘تعصب اور نفرت کے واقعات میں آپ سیاسی جاگیرداروں کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔ ہم عدم برداشت میں اس مقام پر کھڑے ہیں کہ ایک باپ اپنی بیٹی کو محض اس لیے گولی سے اڑا دیتا ہے کہ اس نے ”گول روٹی“ کیوں نہیں بنائی‘عدم برداشت کا یہ عالم ہے کہ بیٹے نے باپ کو اس لیے قتل کر دیا کہ اس نے نون لیگ کے جلسے میں جانے سے انکار کیا تھا۔ ایک بیوی نے اس لیے خلع کا دعویٰ دائر کر دیا کہ اس کا شوہر عمران خان کی تقاریر سنتا رہتا ہے۔پچھلے دو ماہ میں مختلف شہروں میں کالجز کے طالب علموں کے درمیان ہاتھا پائی‘قتل و غارت اور گالم گلوچ کے مجموعی طور پر دو سو واقعات(جو ریکارڈ ہوئے) پیش آئے ۔ایسی گھناﺅنی صورت حال میں ہمیں سوچنا پڑے گا کہ آخر کہاں پہ خلا ہے‘آخر کیا وجہ ہے کہ ہمارے تین بڑے مکتب مکمل طور پر فیل ہو چکے ہیں‘آخر کوئی تو وجہ ہے کہ آج کا طالب علم اے پلس گریڈ لینے کے بعد بھی اندر سے کھوکھلا ہے‘اس کے پاس نہ تو اپنے سبجیکٹ پر دسترس ہے اور نہ ہی اسے ذہنی طور پر معاشرے کے تھپیڑوں کےلیے تیار کیا گیا ہے۔ایک طالب علم سو لہ سالہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد بھی کنفیوژ ہے تو آخر کیوں؟اس کنفیوژن کا ذمہ دار کون ہے‘استاد‘معاشرہ یا خود طالب علم؟۔مجھے خوشی ہے کہ سوشل میڈیا پر یہ سوالات زیربحث آنے لگ گئے ہیں لیکن ہمارے قومی چینلز آج بھی ایسے سوالات اور ایسے موضوعات پر بات کرنا پسند نہیں کرتے۔مجھے کبھی کبھی ایسے لگتا ہے کہ ہمیں ”پری پلان“شعور اور سوا ل سے دور رکھا گیا‘ہمارا دشمن جانتا تھا کہ اگر ان کو سوال اور سوچ بچار کی طاقت کا اندازہ ہو گیا تو ہماری دکان بند ہو جائے گی۔لہٰذا کوئی استاد ہے یا قومی دانشور ‘کوئی سیاست دان ہے یا محلے کا مولوی‘سب اسی خوف میں مبتلا ہیں کہ کہیں ان کے مقلدین اور شاگرد سوچنا شروع نہ کردیں لہٰذا وہ پوری محنت کے ساتھ معاشرے سے سوال کا قتل کر رہا ہے‘ لائبریریزاور کلاس رومز سے ایسی نسل تیار کر رہا ہے جو اندھی تقلید کی قائل ہو۔ایسے میں ہم عظیم قوم بننے کا خواب کیسے دیکھ سکتے ہیں‘دوستو!بنجرآنکھیں کبھی خواب نہیں دیکھ سکتیں۔

مصنف کے بارے میں