اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

پاکستان 1947ء میں ایک طویل سیاسی جدوجہد کے بعد وجود میں آیا جو مسلمانوں نے دو قومی نظریہ اور جداگانہ مذہبی اقدار کی وجہ ایک مشترکہ سوچ اور مفادات کی بنیاد سے حاصل کیا ایک ایسا ملک کہ جس کے لازمی اجزاء اعتقاد، نظریات ، اور انسانی زندگی کے مقاصد شامل تھے۔ علامہ محمد اقبالؒ کے مطابق
 جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی 
دین اسلام میں قوانین کا ایک ایسامجموعہ موجود ہے جو انسان کو باقاعدہ زندگی گزارنے میں معاون ثابت ہوتا ہے یہ انسان کو ہرموڑ اور حالت میں رہنما اصول فراہم کرتا ہے۔ اسلام میں مذہب اور سیاست یکجا نظر آتے ہیں بدقسمتی سے ہمارے ملک میں یہ سوچ بہت عام ہے کہ مذہب کا دوردورتک سیاست سے کوئی تعلق نہیں جبکہ اسلام میں مذہب سیاست اور سیاست مذہب ہے علامہ اقبال کے نزدیک اسلام ہی ایسا زندہ وتابندہ حقیقت ہے جو مسلمانوں کے لیے بے پناہ قوت کا سرچشمہ ہے ہمارے پاس ایک ایسا عالمگیر سیاسی نظام قائم ہے جس کے بنیادی اصول الہامی ہیں اور اس کے معاشرتی نظام کی نفی سے مسلمانوں کے مذہبی نصب العین کی نفی خود بخود ہو جاتی ہے پاکستان اسلام کے نام پر حاصل تو کیا گیا لیکن قیام پاکستان کے بعد آج تک عملی طورپر اسلامی نظام کا بول بالا نہیں ہوسکا ہمارے ملک میں جو لوگ خود اسلام اور اسلامی نظریہ حیات پر ایمان کو کمزور پارہے ہیں وہ آج کی نئی نسل کی نظریاتی تربیت کا کیا اہتمام کریں گے جو کوئی بھی آج اقتدار میں موجود ہے وہی اسلام کی سہی روح اور نظریے کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ یہاں اگر امام علی علیہ السلام کے فرمودات کو پیش نظر رکھ کر انسان اور اس دنیا کی حقیقت کو بیان کیا جائے جو کہ عنقریب مٹ جانے والی ہے کہ حکومت لوگوں کے لیے ایک آزمائش کا میدان ہے کچھ لوگ وہ ہیں جنہیں ان کے نفسوں کی کمزوری اور سازوسامان کی نافراہمی ملک گیری کے لیے اٹھنے نہیں دیتی ان حالات نے انہیں ترقی و بلندی حاصل کرنے سے درماندہ وعاجز کردیا ہے اس لیے قناعت کے نام سے انہوں نے اپنے آپ کو آراستہ کرلیا ہے اور زاہدوں کے لباس سے خود کو سجارکھا ہے مشکوک ومشتبہ چیزوں پر ان کا عمل ہے اور خدا کا خوف نہیں نہ یہ عیب سے دامن بچاتے ہیں۔ یہ اپنے نفسوں کو اس طرح سنوارتے ہیں کہ لوگ ان کو آمین سمجھ لیں کچھ وہ تلواریں سونتے ہوئے علانیہ شرپھیلارہے ہیں اور انہوں نے اپنے سوار اور پیادے جمع کررکھے ہیں صرف کچھ مال بٹورنے، یا کسی دستہ کی قیادت کرنے، یا منبر پر بلند ہونے کے لیے انہوں نے اپنے نفسوں کو وقف کردیا ہے ذراسی دنیا کا ان کے ہاتھوں سے نکلنا انہیں بے چین کردیتاہے۔ کتنا ہی براسودا ہے کہ تم دنیا کو  اپنے نفس کی قیمت اور اللہ کے یہاں کی نعمتوں کا بدل قرار دے لو۔ میں اس داردنیا کی حالت کو کیا بیان کروں کہ جس کی ابتداء رنج اور انتہا فنا ہو۔ جس کے حلال میں حساب اور حرام میں سزاوعقاب ہو۔ یہاں کوئی غنی ہو تو فتنوں سے واسطہ اور فقیر ہو تو حزن وملال سے سابقہ رہے جو دنیا کے لیے سعی وکوشش میں لگارہتا ہے جو انسان اپنی بازگشت کی حقیقت جان لیتا ہے وہ کبھی غداری نہیں کرتا لیکن ہمارا زمانہ ایسا ہے کہ اکثر لوگوں کے عذر وفریب کو عقل وفراست سمجھ لیا ہے اور جاہلوں نے ان کی چالوں کو حسن تدبیر سے منسوب کردیا ہے بدقسمتی سے پاکستان شروع دن سے ہی سیاسی عدم استحکام کا شکار رہا ہے آج بھی ایسی سیاسی جونکیں جو پاکستانی سیاست میں جمہوری نظام اور نظام حکومت میں رکاوٹ کا حائل ہیں حالات حاظرہ کا بغورجائزہ لیا جائے تو ہمارے ملک میں آج بھی جمہوری نظام کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو پارہایہاں غریب آدمی کا استحصال ہرجاتے دن عام ہو چکا ہے بانی پاکستان کی وفات کے بعد اقتدار ایسے ہاتھوں میں منتقل ہوتا گیا کہ جن کو اپنے مفادات سے بڑھ کر کچھ عزیز نہیں نظریاتی انتشار، معاشی  ناانصافیاں، اپنے عروج پر ہیں نہایت افسوس کے ساتھ کہ آج بھی ہمارے حکمرانوں نے نہ صرف نئی نسل کی تربیت سے غفلت برتی بلکہ آج بھی سیاسی نظام افسر شاہی کے ہاتھوں میں پروان چڑھ رہا ہے افسر شاہی کا نظام جو آج بھی
 کسی کے سامنے نہ تو جواب دہ ہے اور نہ ہی اختیارات کو اپنے ہاتھ سے جانے دے رہے ہیں خاندانی سیاست سے چھٹکارا ممکن نہیں ہوسکا جاگیرانہ نظام کی جڑیں مضبوط تر ہوتی جارہی ہیں نظریاتی تشکیل کی ناکامی تیز سے تیز تر ہے اور ہمارے خودی کے منتخب کیے نمائندے اقتدار کی ہوس میں انسانیت جیسے بہترین وصف سے بھی محروم ہیں ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ہمارے آبائواجداد کی زندگیوں کے ہرلمحے میں ہمارے لیے قابل قدر مفید راز پوشیدہ تھے کہ ہم بحیثیت مسلمان کس طرح سے اپنی پوری ذمہ داری کے ساتھ اس ملک وقوم اور معاشرے کی تعمیر ونو میں اپنا کردار ادا کریں اگر موجودہ صورت حال کی بات کی جائے تو عمران خان کا نظریاتی سفر بتدریج کٹھن مراحل میں ہے نظریاتی ارتقا کے مراحل طے کرتے ہوئے اس کا رخ اسلام کے نظریے کے زیادہ قریب ترین دکھائی دے رہا ہے اور وہ اس اصول پر بھی ڈٹا نظر آتا ہے کہ جدھر سے پتھر آئے اسے ادھر ہی پلٹا دو کیوں کہ سختی کا دفعہ سختی سے ہی ہوسکتا ہے آج اگرریاست مدینہ کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے وہ اس بات پر قوم کو متحد کرنے کی مسلسل کو شش میں ہے کہ نظریہ اسلام ہی درحقیقت زندگی کی اساس ہے تو کیا بحیثیت مسلمان ہم اس بات سے منکر ہوسکتے ہیں؟ چلیں کچھ لمحوں کے لیے اس حقیقت کو مان  بھی لیا جائے کہ عمران خان کی قیادت میں پاکستان نئی منازل طے کرتا نظر نہیں آرہا تو اس سے کہیں زیادہ قابل توجہ خیالات وافکار تو یہ ہونے چاہئیں کہ ہم کیوں صرف یہ دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کون کہہ رہا ہے بلکہ ہم سب کو یہ دکھائی کیوں نہیں دیتا کہ کیا کہا جارہا ہے؟ حیرت انگیز ثابت قدمی کے ساتھ اس معاملے میں اگر عمران خان اپنی مسلسل کوشش اور تگ ودو سے یہ سمجھانے کی کوشش میں ہے کہ ہمیں اپنی تقدیر اپنے علیحدہ اور منفرد انداز میں بنانی ہوگی کہ شرعی قوانین آج بھی قابل عمل اسی طرح ہوں جیسے پہلے تھے تو اس ایک حقیقت کو ماننے میں عار بھی کیا کہ یہی نقطہ تو آج سے چودہ سوسال پہلے اسلام نے بھی واضح کردیا کہ خلیفہ مذہبی رہنما بھی ہوتا ہے اوردنیاوی امور، معاملات زندگی میں بھی معاملہ فہم ہونا چاہیے کہ قوم کے ساتھ وفاداری اس کا واحد نصب العین ہو ناقابل شکست ارادوں کی کرشمہ سازی سے ہی کی مقاصد کا حصول ممکن ہوتا ہے بانی پاکستان کے فرمان کی مطابق سرکاری ملازم عوام کے خادم ہیں اور انتظامیہ کو سیاست کا پیروکار نہیں ہونا چاہیے غیر سیاسی اور غیر جماعتی اصول کو اپنانا ہوگا ایک سکولر ریاست جس کو لادینی قرار دیا جائے تو غلط کہاں ہوگا؟ کیا موجودہ سیاسی کشمکش میں اس وقت اجتماعی سوچ کی ضرورت قابل غور پہلو نہیں جوکسی نہ کسی حوالے سے عمران خان کا نکتہ نظر بھی ہے کہ نظریہ پاکستان جن اجزاء سے ترکیب پایا تھا تو گویا ہم سب کو بحیثیت قوم ایک ذمہ داری سے نواز دیا گیا کہ عقل و شعور کی بنیاد پر اس سوچ کووسعت دیں کہ جب ملت اسلامیہ کی بنیاد ایک مشترک دین پر ہے تو پھر ہم سب ایک دوسرے سے فاصلے پر کیوں ہیں حق اور سچ کی آواز ہم کو خود کے اندر سے سنائی کیوں نہیں دیتی یہی ہم سب کا نقطہ نظر کیوں نہیں کہ حقائق کا مطالعہ اور تجزیہ کس قدر ضروری ہے کیا ہمارے پاس عقل وفراست موجود نہیں کہ ہم اسلام کے بتائے ہوئے اصولوں کے عین مطابق رسول اکرم ؐ اور خلیفہ راشدین کے فرامین کو پیش نظر رکھ کر اپنے مشاہدے، تجزیے، اور تجربے کی بنیاد پر فیصلہ لے سکیں کہ اس وقت ہمارے خود کے تقاضے کیاہیں یا پاکستان کو کون سے مسائل درپیش ہیں اور ان سے نمٹنے کے لیے ہرفرد کو کس طرح سے اپنا کردار مثبت انداز میں ادا کرنے کی ضرورت ہے یہ بھی دیکھنے کی اشد ضرورت ہے کہ ہمارے لیڈر کے اندر وہ کون سی صلاحیتیں ہونا بہت ضروری ہیں کہ بدلتے ہوئے حالات کے عین مطابق وہ ملک و قوم کے مفادات کو پیش نظر رکھ کر مصلحت کے مطابق قوانین اور نئی پالیسیوں کا اجراء ممکن بنائے آج پاکستان کو ہماری ضرورت ہے اس ایک سوچ کے ساتھ آگے بڑھیں 
شکوہ ظلمت شب سے توکہیں بہتر تھا 
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے 

مصنف کے بارے میں