کھلا خط بنا م وزیرِ اعظم پاکستان عمران خان

Dr Ibrahim Mughal, Nai Baat Newspaper, e-paper, Pakistan

عا لی مر تبت جناب وزیرِ اعظم پا کستان، مو دبانہ عرض کچھ یو ں ہے کہ ایوب زرعی تحقیقاتی ادارہ فیمائن کمیشن کی سفارشات پر1906ء میں معرضِ وجود میں آیا۔ جسے 1962ء میں زرعی یو نیورسٹی سے الگ کر کے ریسرچ کا علیحدہ ادارہ بنا دیا گیا۔ ادارہ ہذا پاکستان کی فوڈ سیکیورٹی اور زراعت کی ریسرچ میں GHQکی حیثیت رکھتا ہے۔اس ادارے کی ریسرچ اور ڈیویلپمنٹ کے کردار کو دُنیا  کے نامور اداروں (FAO, CIMMYT)نے بہت سراہا ہے۔پاکستان میں سبز انقلاب کا سہرا اسی ادارے کے سر جاتا ہے۔ اس ادارے نے گندم کی دوگنی پیداوار دینے والی اقسام تیار کیں جن کی بدولت پاکستان میں سبز انقلاب برپا ہوا۔ سبز انقلاب سے ریاستِ پاکستان کی بنیادیں اس قدر مستحکم ہوئیں کہ بھارت سے دو بڑی جنگیں لڑنے کے باوجود ہمارا ملک اللہ کے فضل و کرم سے متزلزل نہ ہوا۔ ادارہ ہذا کے پورے پنجاب میں 26 ریسرچ انسٹیٹیوٹ اورلگ بھگ 200 کے قریب ذیلی ادارے ہیں۔ ایک معتبر اور مستند ملکی تحقیقی ادارہ ہونے کے ناتے اس کے اغراض و مقاصد میں موسمیاتی تغیرات سے ہم آہنگ فصلات میں زیادہ پیداوار کی حامل نئی اقسام کی تیاری و پیداواری ٹیکنالوجی، غذائی تحفظ کی جدید ٹیکنالوجی، مصنوعات میں جدت، قدرتی وسائل کے تحفظ اور نئے پودوں کو متعارف کرانا شامل ہے۔ اب تک یہ ادارہ مختلف فصلوں،پھلوں،سبزیوں،دالوں اور دیگر اجناس کی550 سے زیادہ اقسام دریافت کر چکا ہے جو کہ ملک کے   80فیصد رقبہ پر زیر کاشت ہیں۔  اس ادارے کے تحت چھبیس ریسر چ انسٹیٹیو ٹ ہیں۔
1۔ گندم ریسرچ انسٹیٹیوٹ، فیصل آباد
2۔چاول ریسرچ انسٹیٹیوٹ، کالاشاہ کاکو
3۔ گنا ریسرچ انسٹیٹیوٹ۔ فیصل آباد
4۔ مکئی ریسرچ انسٹیٹیوٹ، ساہیوال
ان 26 ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں سے مندرجہ بالا  4بڑے ریسرچ انسٹیٹیوٹ، مکئی، گنا، چاول اورگندم کو  Punjab Agri. Res. Transformation کے نام پر Transform یا  آسان الفاظ میں Private کیا جا رہا ہے۔  
وطن عزیز میں مسلسل غیر متوازن زرعی پالیسیوں اور سیاسی عدم استحکام کے باوجود یہ ادارہ فصلوں کی بہترین اقسام پیدا کر کے فوڈ سکیورٹی کی ضمانت دیتا آیا ہے۔ پنجاب حکومت کے زیرِاہتمام اپنی خدمات سرانجام دینے والے اس ادارے میں مختلف فصلوں مثلا گندم،کپاس،چاول،گنااور مکئی  وغیرہ پر تحقیق کے نتیجے میں ناصرف ملکی غذائی ضروریات پوری ہو رہی ہیں بلکہ ان کی فاضل پیداور سے زر مبادلہ بھی کمایا جا رہا ہے۔ بات کچھ یوں ہے کہ ایوب ریسرچ میں چار بڑی فصلوں (گندم،چاول،گنا اورمکئی) پر تحقیق کرنے والے ذیلی اداروں کو زرعی ٹرانسفارمیشن ایکٹ کے ذریعے پرائیوٹائیزیشن کی طرف دھکیلا جا رہا ہے جس سے زرعی سائنسدان گہری تشویش میں مبتلا ہیں۔ دراصل کسی بھی تحقیقی ادارے کا سب سے بڑا اثاثہ اس کا جرم پلازم ہوتا ہے جو اندرون و بیرون ملک سے تنکا تنکا کر کے اکٹھا کیا جاتا ہے۔ سائنسدان اس جرم پلازم کی ایٹم بم کی طرح حفاظت کرتے ہیں۔ زرعی سائنس دانوں کو تحقیق کے یہ اثاثے پرائیویٹ ہاتھوں میں جانے یا ممکنہ طور پر ضائع ہو جانے کے حوالے سے سخت تشویش ہے۔سائنسدان یہ محسوس کرتے ہیں کہ اگر یہ جرم پلازم اور بیجوں کی تحقیق کے 
معاملات پرائیویٹ ہاتھوں میں چلے گئے تو پھر کسانوں کوکسی صورت سستا بیج میسر نہیں آ سکے گا اور سبزیوں کے ہائبرڈ بیجوں کی طرح ان عام فصلوں کے بیجوں کی قیمتیں بھی آسمان سے باتیں کرنے لگیں گی۔ نتیجتاً، فصلوں کی پیداوری لاگت بڑھ جائے گی جس کا بوجھ صارف یا عام عوام پر پڑے گا۔ اس عمل سے تین سال کے اندر اندر شدید غذا ئی بحران اور مہنگائی  کا ایک طوفان متوقع ہے اور آٹا،چینی، چاول وغیرہ عام آدمی کی قوتِ خرید سے باہر ہوجائیں گے اور مجبوراًغیر ممالک سے مہنگے داموں خریدنا پڑیں گے۔ لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ اس مسئلے کی سنگینی کو کسانوں، ذرائع ابلاغ  اور عوام کی سطح پر محسوس نہیں کیا جا رہا۔
زرعی ٹرانسفارمیشن ایکٹ کے ذریعے مذکورہ چار اداروں کا سالانہ بجٹ تقریبا پونے سات ارب روپے تجویز کیا گیا ہے جس کا بڑا حصہ تنخواہوں کی مد میں جائے گا۔ ہو سکتا ہے آپ کو یہ بات جان کر دھچکا لگے کہ زرعی ٹرانسفارمیشن کے تحت زرعی اداروں میں ر کھے جانے والے نئے سائنسدانوں کی تنخواہیں چالیس چالیس لاکھ روپے تجویز کی گئی ہیں۔ جی ہاں! اتنی خطیررقم ایک غریب اور مقروض ملک پر بہت بڑا بوجھ ہے۔ مزید یہ کہ انڈیا نے پاکستانی دریاؤں پر ڈیم بناکر پانی کا بہاؤ اورمقدار کو کم کردیا ہے۔ جس سے فصلوں کو سیراب کرنے کے لیے نہروں میں پانی کی شدید کمی واقع ہوئی ہے۔ ظاہر ہے اس سے بھی پاکستان کی زراعت براہ راست متاثر ہوئی ہے۔ مگر اس کے باوجود ایوب ایگریکلچرل ریسرچ انسٹیٹیوٹ کی تیار کردہ اقسام سے زبردست پیداوار حاصل ہورہی ہے۔ جیسا کہ حکومتی اعدادوشمار کے مطابق رواں سال گندم،چاول،گنا اورمکئی کی پیداوار میں تاریخی اضافہ ریکارڈ ہوا ہے۔زرعی سائنسدان تو جنا ب وزیراعظم پاکستان محترم عمران خان صا حب آپ کی اور وزیراعلیٰ پنجا ب سردار عثمان بزدار کی راہ دیکھ رہے تھے کہ انہیں زرعی اہداف کے حصول کی کامیابی پر تھپکی ملے گی، ان کی ڈھارس بندھائی جائے گی، زرعی تحقیق کو مزید مضبوط کیا جائے گا، لیبارٹریز کو جدید خطوط پر استوار کرنے پر غور کیا جائے گا،  انہیں پیش آنے والی مشکلات کو کم کرنے کی کوئی نوید سنائی جائے گی۔ جبکہ برخلاف توقع اُن پریہ خبر قیامت بن کر ٹوٹی ہے کہ ان مذکورہ زرعی اداروں کو نجکاری کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔
زرعی تحقیق کے ذریعے فصلوں کی نئی نئی اقسام پیدا کرنا ایک سخت مشکل اور صبر آزما کام ہے جو صرف مخصوص مزاج اور تربیت کے لوگ ہی کر پاتے ہیں۔ کیونکہ ایک فصل کی ایک نئی قسم بنانے کے لئے کم از کم 10سال کا وقت درکار ہوتا ہے۔ اس طرح کا صبر آزما کام محض حکومتی سربراہی میں ہی ہوسکتا ہے۔اگر یہ کام کسی کو زیادہ تنخواہ یا زیادہ خودمختاری دینے سے جلداور بہتر ہونے والا ہوتا تو پاکستان میں پرائیویٹ ملٹی نیشنل اور نیشنل کمپنیوں کو تو کلی خود مختاری حاصل ہے۔ وہ جیسے چاہیں اعلیٰ بیج تیار کرنے کی منصوبہ بندی کر سکتی ہیں۔مگر یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ بہتر پیداور کے لیے آج بھی کسان ایوب ایگریکلچرل ریسرچ انسٹیٹیوٹ کی تیار کردہ اقسام پر ہی انحصار کرتا ہے۔ یہ بات نہایت ذمہ داری کے ساتھ کی جا سکتی ہے کہ ہائبرڈ بیج کے میدان میں بھی ایوب ریسرچ ادارہ پرائیویٹ کمپنیوں کی ٹکر یا ان سے بہتر ورائٹیاں دے رہا ہے جن کا بیج نہایت سستے داموں کاشتکاروں کو میسر ہے۔ اس امر سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ایوب ریسرچ اور پرائیویٹ کمپنیوں کا ایک دوسرے کے ساتھ مسابقتی تعلق ہے۔ زیادہ تر پرائیویٹ کمپنیاں، ایوب ریسرچ کو اپنے حریف کے طور پر دیکھتی ہیں اور اسے اپنے کاروبار کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ سمجھتی ہیں، کیونکہ ان کے درآمد کئے گئے اکثر بیج ایوب ریسرچ کی غیر جانبدار تحقیق کے نتیجے میں مسترد قرار پاتے ہیں۔ زیادہ تر کمپنیاں ایوب ریسرچ کے جرم پلازم کو بھی للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتی ہیں اور اس کے حصول کی متمنی رہتی ہیں۔
آخر میں ایوب زرعی تحقیقاتی ادارہ فیصل آباد کے تمام زرعی سائنسدانوں کی وزیر اعظم اور تمام مقتدر حکام بالا سے خصوصی اپیل ہے کہ ان کا نقطہئ نظر سنا جائے۔ زرعی ٹرانسفارمیشن کے نام پر ان اداروں کی خود مختاری(نجکاری)کو فوری روکا جائے۔ کہیں ایسا نہ ہو زمینی حقائق سمجھے بغیر اچھی خاصی پھلتی پھولتی زراعت میں کوئی ایسا پیوند لگا دیا جائے جو پیسے اور وقت کے زیاں کے ساتھ ساتھ ملکی زراعت کا بھی بیڑا غرق کر دے۔ اور خدانخواستہ وہ ملک متزلزل ہو کر رہ جائے جسے جنگیں اور دہشت گردی جیسے ناسور بھی نہ ہلا سکے۔ پاکستان کی سالمیت زراعت سے وابستہ ہے کیونکہ زراعت مستحکم ہے تو پاکستان بھی مستحکم ہے۔
اللہ پاک پاکستان کا حامی و ناصر ہو۔