نواز شریف اور زرداری کی ملاقات ، نگران وزیر اعظم کا نام فائنل ،آئندہ اقتدار کی تقسیم کا فارمولا بھی طے

نواز شریف اور زرداری کی ملاقات ، نگران وزیر اعظم کا نام فائنل ،آئندہ اقتدار کی تقسیم کا فارمولا بھی طے
سورس: File

دبئی : متحدہ عرب امارات میں مسلم لیگ(ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کے درمیان ہونے والی ملاقاتوں کے نتیجے میں نگراں سیٹ اپ کے ناموں اور اگلے انتخابات میں دونوں جماعتوں کے جیتنے کی صورت میں اقتدار کی تقسیم کا فارمولا طے پاگیا۔

انگریزی اخبار ڈان میں شائع سینئر صحافی ذوالقرنین کی رپورٹ کے مطابق مسلم لیگ(ن) کے قائد نواز شریف اور پیپلز پارٹی کے رہنما آصف علی زرداری سمیت دونوں جماعتوں کے سرکردہ رہنماؤں نے دیگر چیزوں کے علاوہ اگلے عام انتخابات کی تاریخ کا فیصلہ کرنے کے لیے ایک ہفتے کے دوران ایک سے زائد مرتبہ ملاقات کی۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ  ملاقاتوں میں وزیر اعظم شہباز شریف، وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری، مسلم لیگ (ن) کی سینئر نائب صدر مریم نواز شریف اور وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے بھی شرکت کی۔

اس دوران نواز شریف کی پاکستان واپسی پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا کیونکہ وزیر قانون نے انہیں پارلیمنٹ سے تاحیات نااہلی کو کالعدم قرار دینے کے بل کی روشنی میں اپنے عدالتی مقدمات کی صورتحال کے بارے میں بریفنگ دی۔

ایسی قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ اگر نواز شریف کی سزاؤں میں نرمی کے حوالے سے سب کچھ طے پا گیا تو نواز شریف 14 اگست کو واپس آ سکتے ہیں۔

ملاقاتوں کے بعد آصف زرداری، وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر قانون پاکستان واپس چلے گئے جبکہ بلاول بھٹو زرداری ٹوکیو کے لیے روانہ ہو گئے، لندن سے آنے والے نواز شریف کا سیاسی اور کاروباری ملاقاتوں کے سلسلے میں متحدہ عرب امارات میں مزید ایک ہفتہ قیام کا امکان ہے۔

ملاقاتوں میں جن باتوں پر تبادلہ خیال کیا گیا ان میں اگلے عام انتخابات کی تاریخ واحد مسئلہ نظر آیا جہاں دونوں جماعتوں کی رائے مختلف تھی۔

مسلم لیگ(ن) اس بارے میں ملے جلے اشارے دے رہی ہے کہ انتخابات اکتوبر میں ہوں گے یا نہیں لیکن پیپلز پارٹی نے واضح طور پر کہا ہے کہ وہ مقررہ وقت پر انتخابات چاہتی ہے۔

پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما اور وزیر اعظم کے معاون خصوصی قمر زمان کائرہ نے بتایا کہ پی پی پی کا بیانیہ یہ ہے کہ اگست میں موجودہ حکومت کی مدت پوری ہونے کے بعد اکتوبر میں انتخابات کرائے جائیں۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کی جانب سے اس حوالے سے واضح بیان دینے کے بعد انتخابات کی تاریخ پر کوئی ابہام نہیں رہا۔

مصنف کے بارے میں