سپریم کورٹ میں بھی بحران

سپریم کورٹ میں بھی بحران

معاملہ صرف پنجاب اور کے پی کے اسمبلیوں کے انتخابات کرانے کا نہیں بلکہ عدالتی اختیارات کے استعمال اور حدود کے متعلق بھی انتہائی اہم اور سنجیدہ سوالات اٹھ چکے ہیں ۔ کتنا اچھا ہوتا کہ فل کورٹ بنا کر تمام نکات کا جائزہ لینے کے بعد فیصلے جاری کئے جاتے ۔ ایسا ہوتا تو نہ صرف عدلیہ کو خود پر لگے داغ دھونے کا موقع ملتا بلکہ ملک کی قانونی و آئینی سمت بھی سیدھی ہو جاتی ۔ سب جانتے ہیں پراجیکٹ عمران صرف جنرلوں تک محدود نہیں تھا بلکہ جج بھی اس میں برابر کے حصہ دار تھے ۔ پچھلے چند سالوں سے ہونے والی عدالتی انہونیاں کیوں اور کیسے کی جارہی تھیں یہ سب کے علم میں تھا ۔ 9 اپریل 2022 کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے حکومت گرانے کا جو عمل شروع ہوا وہ محض اختلافات کے سبب نہیں تھا بلکہ ریاستی اداروں کو یقین ہو چکا تھا کہ عمران خان کو حکومت میں رکھ کر نظام چلانا ممکن نہیں رہا ۔ اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ شہباز شریف کی حکومت قائم ہونے کے بعد ادارے اسے اسی طرح سپورٹ کرتے جس طرح عمران خان کو کرتے رہے تھے تو شاید مسائل کا کچھ نہ کچھ حل نکل آتالیکن ہوا اس کے بالکل برعکس ۔ جنرل باجوہ نے پرویز الٰہی کو پی ٹی آئی میں بھجوا کر یقینی بنایا کہ ملک پر حکومت کی گرفت نہ ہوسکے ۔ اسی ماحول میں عدالتوں نے عمران خان کو ایسے ایسے ریلیف دئیے کہ ہر کوئی دنگ رہ گیا ۔ وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت اپنے قیام کے فوری بعد اس وقت ہی اپنی رٹ کھو بیٹھی تھی جب جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کی شکایت پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے فل بینچ بنا کر حکم جاری کیا کہ چونکہ آپ پر کرپشن کے مقدمات ہیں اس لیے آپ ایف آئی اے میں فلاں فلاں افسر وں کو تبدیل نہیں کرسکتے ۔ اس کارروائی سے بالکل واضح ہوگیا تھا کہ حکومت کو چلنے نہیں دیا جائے گا ۔ اس کے بعد سے آج تک آنے والے کئی فیصلوں نے حکومت کو نہ صرف دیوار سے لگایا بلکہ اسکی ساکھ کی بھی دھجیاں بکھیر دیں ۔ دوسری جانب پی ٹی آئی کو ملنے والی کھلی چھوٹ اس کے حامیوں کا حوصلہ اس حد تک بڑھا دیا کہ بڑے سے بڑے، طاقتور سے طاقتور ریاستی عہدیداروں کو نام لے کردھمکانے لگے ۔ جعلی بیانئیے بنائے ۔ میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے خوب پھیلایا ۔ اگر کبھی حکومت نے ان سرگرمیوں کو قومی سلامتی کے منافی قرار دے کر پابندیاں لگانے کی کوشش کی تو عدالتوں نے منٹوں میں اڑا کر رکھ دیا ۔ سیاسی بصیرت کا تقاضاتو یہی تھا کہ ابتدا میں پیش آنے والے واقعات کے بعد حکومتی اتحاد میں شامل سیاسی جماعتیں اپنا مقدمہ عوام کی عدالت میں لے جاتیں اور اپنی حیثیت کے مطابق اپنے اصل حریفوں کے کردار کی بھی نشاندہی کرتیں ۔ اس وقت حالات ایسے تھے کہ تھوڑی جراَت دکھائی جاتی تو مالکان ملک و ملت کو کسی حد تک منایا جاسکتا تھا کہ سیاسی جماعتوں کے لیے جائز گنجائش پیدا کیے بغیر ملکی نظام چلانا ممکن نہیں ۔ افسوس اس تمام عرصے میں ہر صورت کرسی سے چمٹے رہنے کی حرص نے نہ صرف

سیاسی عمل سے دور کردیا بلکہ آئی ایم ایف کو منانے کی لازمی ضرورت کو پورا کرنے کے ایسے اقدامات کرنا پڑے جن سے عوامی مقبولیت کو بھی زبردست دھچکا لگا ۔ آگے بڑھنے سے پہلے یہ وضاحت کرنا ضروری ہے کہ 9 اپریل کی شب کھلنے والی عدالتیں محض تحریک عدم اعتماد کا آئینی طریق کار مکمل کرانے کے لیے نہیں تھیں بلکہ اس کا بڑا مقصد اس امر کو یقینی بنانا تھا کہ وزیر اعظم جاتے جاتے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو برطرف نہ کردیں ۔ اس حوالے سے اسی رات اسلام آبادہائی کورٹ کھول کر ایک درخواست بھی دائر کردی گئی تھی ۔ 9 اپریل 2022 سے 28 نومبر 2022 کا عرصہ ملک پر بہت ہی بھاری گزرا ۔ آرمی چیف جنرل باجوہ ہر صورت توسیع لینے پر بضد تھے جبکہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کسی بھی قیمت پر نئے آرمی چیف بننا چاہتے تھے ۔ یقینی طور پر فوج کی ہائی کمان میں اس حوالے سے بے چینی تھی ۔ اللہ اللہ کرکے یہ عذاب ٹلا تو اپنے ان پیش رو افسران کی حرکتوں کے سبب پاک فوج کی نئی قیادت کے لیے طرح طرح کے چیلنج پیدا ہو چکے تھے ۔ اس پیچیدہ صورتحال سے نکلنے کے لیے تمام سٹیک ہولڈروں کو ہاتھ بٹانا چاہیے تھے لیکن حکومت ناکام اور عدلیہ غیر ضروری طور پر فعال ہو چکی ہے ۔ آئین ری راءٹ کرنے کے بعد ضروری ہوگیا تھا کہ حکومت اس حوالے سے وزارت قانون، سیاسی جماعتوں اور وکلا تنظیموں کے ذریعے قانونی طریق کار کے مطابق جواب دیتی مگر ایسا نہیں ہوا ۔ بینچ فکسنگ ہوتی رہی اور ایک ہی طرح کے فیصلے آتے رہے ۔ سابق سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر پھر تعینات کرنے کے عجیب و غریب فیصلے سے پہلے ہی ایک آڈیو لیک ہوگئی مگر اس کے باوجود بینچ بھی ویسے ہی بنا اور آرڈر بھی اس طرح کا آیا جس کی فرمائش آڈیو میں کی تھی ۔ اسی دوران جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے مبینہ اثاثوں کے بارے ایک ریفرنس بھی دائر ہوگیا مگر کوئی ایکشن نہیں لیا گیا ۔ پنجاب اور کے پی کے اسمبلیوں کی تحلیل اور نئے الیکشن کے بارے میں سو موٹو نوٹس نے اتنے سنگین سوالات پیدا کردئیے کہ خود ساتھی جج بھی بول اٹھے، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس یحییٰ آفریدی نے بنیادی نوعیت کے قانونی اعتراضات اٹھا دئیے ۔ سیاسی جماعتوں اور وکلا تنظیموں نے فل کورٹ بنانے کا جائز مطالبہ کیا تو چیف جسٹس نے اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے نو رکنی بینچ کو بھی پانچ رکنی بینچ میں تبدیل کردیا ۔ اس گھمبیر صورتحال میں لوگ توقع کررہے تھے کہ حکومت، ن لیگ، پیپلز پارٹی، جے یو آئی، اے این پی اور دیگر پارٹیاں الگ الگ پریس کانفرنسوں کے ذریعے قوم کو بھی اعتماد میں لیں گی کہ عدالتوں میں چل کیا رہا ہے اور عمران خان اورپی ٹی آئی کی عدالتی سہولت کاری کا گلہ بھی کریں گی لیکن اگلے ہی روز فاروق نائیک نے عدالت کے روبرو بیان دیا کہ پانچ رکنی بینچ پر کوئی اعتراض نہیں اس لیے فل کورٹ کی ضرورت نہیں ۔ یہ موقف پیپلز پارٹی، ن لیگ اور جے یو آئی نے مشترکہ طور پر اپنایا ۔ اب جب پانچ رکنی بینچ کا فیصلہ بینچ کی ساخت کے عین مطابق تین، دو سے آگیا ہے تو طرح طرح کی تاویلیں پیش کی جارہی ہیں ۔ ایسے میں سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسی نے سپریم کورٹ میں بینچ بنانے کے طریق کار پربھی اعتراضات اٹھا دئیے ہیں ۔ موجودہ حکومتی ڈھانچہ اتنا کمزور ہے کہ کسی بھی معاملے میں اب تک کسی طرح کی مزاحمت نہیں کرسکا ۔ حکومت نے چیف جسٹس کے کہنے پر سپریم کورٹ میں جونیئر جج بھرتی کئے ۔ یہاں تک کہ اپنی پسند کا اٹارنی جنرل بھی نہیں لگا سکی ۔ حکومت نے جہاں اپنی طاقت کھو کر سپریم کورٹ کو دے دی وہیں ایسا سیاسی خلا بھی پیدا کر دیا جسے عمران خان اپنی تیز و تند سیاست سے پورا کررہے ہیں ۔ وہ بھی کوئی قانون ماننے پر تیار نہیں ۔ لاہور ہائی کورٹ اور اسلام آباد کی عدالتوں میں کارکنوں کی یلغار کے ساتھ فاتحانہ ریلیف لے کر اس تاثر کو اور مضبوط کیا جارہا ہے کہ آنے والے دنوں میں وہی کامیاب ہوگا جو جتھوں کے ساتھ میدان میں آئے گا ۔ یہ ممکن نہیں کہ سارا ملک اور تمام ادارے جتھوں کے ذریعے یرغمال بنا لیے جائیں ۔ حکومت تو پٹ چکی دیکھنا اب یہ ہے کہ جواب کون دے گا;238; سپریم کورٹ کے تازہ فیصلوں سے بڑھنے والا بحران بتا رہا ہے نتاءج سامنے آنے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی ۔