5 جولائی:معاہدے کے باوجود مارشل لاء کا نفاذ؟

Sajid Hussain Malik, Nai Baat Newspaper, e-paper, Pakistan

اکثر یہ کہا جا تا ہے کہ 4جولائی 1977ء کو اس وقت کے وزیرِ اعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم اور ان کے مخالف حزبِ اختلاف کی 9جماعتوں کے اتحاد "پاکستان قومی اتحاد" (PNA)کے راہنماؤں کے درمیان مذاکرات کے نتیجے میں معاہدہ طے پا گیا تھا لیکن اس کے باوجود اس وقت کے آرمی چیف جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم نے اسی رات (4اور 5 جولائی 1977 کی درمیانی رات) ملک میں مارشل لاء کا نفاذ کرکے اس معاہدے کو سبوتاژ کر دیا تھا۔ میرے ذہن کے نہاں خانے میں آج سے تقریباً 44، 45 سال قبل کے موسم بہار اور بعد میں گرمیوں کے موسم میں جناب ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خلاف پاکستان قومی اتحاد کی چلائی جانے والی ملک گیر  احتجاجی تحریک کے بہت سارے حالات و واقعات بھولی بسری یادوں کی طرح ہی نہیں بلکہ تازہ واقعات جیسے ابھی بیتے ہوں کی صورت میں موجود ہیں۔ یہ کہنا شاید مبنی بر حقیقت نہیں ہوگا کہ وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو مرحوم اور پاکستان قومی اتحاد کے راہنماؤں کے درمیان معاہدہ طے پا گیا تھا اس کے باوجود آرمی چیف جنرل محمد ضیاء الحق نے ملک میں مارشل لاء نافذ کر دیا تھا۔ حالات و واقعات کو اپنے صحیح تناظر میں دیکھنے کے لیے ہمیں اُس وقت کی معروضی صورتحال اور جناب ذوالفقار علی بھٹو کے انداز حکمرانی کو سامنے رکھنا ہوگا۔ 
اس میں کوئی شک نہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کے دسمبر 1971 ء کے اواخر میں پہلے صدرِ مملکت اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر(سویلین) اور بعد میں اگست  1973 ء میں آئین کے نفاذ کے بعد بطور وزیرِ اعظم مسند اقتدار پر براجمان رہنے کے دوران اپوزیشن جماعتوں، اپوزیشن رہنماؤں اور دائیں بازو کے معروف اخبارات و جرائد اور اُن سے متعلقہ اخبار نویسوں سے اُن کے کبھی اچھے تعلقات نہیں رہے۔ ان میں سے اکثر کو انہوں نے ڈیفنس رولز آف پاکستان کی کسی نہ کسی دفعہ کے تحت جیلوں میں ڈالے رکھا۔ اگر یہ کہا جائے کہ ذوالفقار علی بھٹو کا دورِ حکومت جمہوری کے بجائے ایک طرح کی فسطائیت کا دور تھا تو کچھ ایسا غلط نہیں ہو گا۔ اس سیاق و سباق میں وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے جنوری 1977 ء میں ملک میں قبل از وقت انتخابات کا اعلان کیا اور انتخابات کے لئے 7 مارچ 1977 ء (قومی اسمبلی کے انتخابات) اور 10 مارچ (صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات) کی تاریخیں مقرر کیں تو یہ اپوزیشن جماعتوں سمیت عوام کے لیے ایک طرح اچنبھے کی بات تھی۔ اپوزیشن جماعتوں کے لیے انتخابات میں پیپلز پارٹی کا مقابلہ کرنا ایک اہم مسئلہ تھا جو اس طرح حل ہوا کہ اپوزیشن جماعتوں نے پاکستان قومی اتحاد (پی این اے) کے نام سے ایک مضبوط سیاسی ڈھانچہ قائم کر لیا۔ اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد کو زبردست پذیرائی ملی۔ پاکستان قومی اتحاد کے انتخابی جلسے بلا شبہ حاضری کے لحاظ سے انتہائی بھر پور اور رش کے ہی حامل نہیں ہوتے تھے بلکہ ان میں شریک عوام کا جوش و جذبہ بھی دیدنی ہوتا تھا۔
7مارچ 1977ء کو ملک میں عام انتخابات منعقد ہوئے جن میں پیپلز پارٹی کو قومی اسمبلی کی 155سیٹوں اور پاکستان قومی اتحاد کو ملک بھر سے قومی اسمبلی کی صرف 35سیٹوں پر کامیابی حاصل ہوئی۔ پاکستان قومی اتحاد نے ان انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور حکمران جماعت پیپلز پارٹی پر ٹھوس شواہد کے ساتھ الزام لگایا کہ اُس نے انتخابات میں بد ترین دھاندلی کا ارتکاب کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی 10مارچ کو ملک بھر میں ہونے والے صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے بائیکاٹ کے اعلان کے ساتھ ہی 14مارچ سے جناب ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خلاف بھر پور احتجاجی 
تحریک شروع کرنے کا اعلان کر دیا۔ اس احتجاجی تحریک نے بتدریج کیسے زور پکڑا، کیسے اس نے ملک میں نظام اسلام کی نفاذ کی شکل اختیار کی، کیسے آئے روز احتجاجی جلسے، جلوس، ہڑتالیں اور خون ریز ہنگامے زور پکڑتے رہے، کیسے سرکاری اور نجی املاک کا نقصان ہوتا رہا، کیسے پولیس اور بھٹو کی قائم کردہ فیڈرل سیکیورٹی فورس (FSF)کی طرف سے مظاہرین پر لاٹھی چارج اور گولیاں برسانا اور اس کے نتیجے میں قیمتی جانوں کا ضیاع معمول بنا رہا۔ 14مارچ 1977سے جولائی 1977 کے اوائل تک یہ سلسلہ ایسا ہی چلتا رہا۔ اس دوران میں جب حالات بے قابو ہو گئے اور امن و امان کی صورت خرابی کی آخری حدوں کو چھونے لگی تو وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی ایما پر لاہور، کراچی اور حیدرآباد میں مارشل لاء کا نفاذ عمل میں لایا گیا تاہم فوجی کمانڈروں نے مارشل لاء کے نفاذ اور سخت کرفیو کے باوجود مظاہرین پر گولی چلانے سے انکار کر دیا۔ یقینا یہ صورتحال عسکری قیادت یعنی آرمی چیف اور ان کے رفقاء کور کمانڈرز کے لیے سخت تشویش کا باعث تھی۔ آرمی چیف جنرل ضیاء الحق اور ان کے رفقاء بار بار وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو پرضرور دے رہے تھے کہ وہ ملک و قوم کی سلامتی اور امن و امان کو انتہائی خطرے سے دو چار کرنے والی تشویش ناک اور آئے روز بگڑتی صورتحال سے باہر نکالنے کے لیے کوئی پُر امن راستہ نکالیں۔ اس پر وزیرِ اعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو اور قومی اتحاد کے راہنماؤں کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا جو 4جولائی 1977ء کے دن تک جاری ضرور رہا۔ لیکن یہ کہنا شاید غلط نہ ہو کہ یہ سلسلہ وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے غیر سنجیدہ اور متکبرانہ رویے اور اپوزیشن راہنماؤں کی شرائط کو پائے حقارت سے ٹھکرانے اور قومی اتحاد کے بعض راہنماؤں جن میں ایئر مارشل اصغر خان مرحوم اور مولانا احمد شاہ نورانی پیش پیش تھے کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے حقیقی معنوں میں نتیجہ خیز ثابت نہ ہو سکا۔ ایسے میں یہ کہنا صحیح نہیں ہوگا کہ وزیرِ اعظم  ذوالفقار علی بھٹو مرحوم  اور پاکستان قومی اتحاد کے راہنماؤں کے درمیان 4جولائی 1977ء  معاہدہ طے پا گیا تھا اور اس کے باوجود آرمی چیف جنرل محمد ضیاء الحق نے مارشل لاء لگا دیا۔ 
اس  حوالے سے ہمیں ایک مستند گواہی  انتہائی قابل احترام سینئر صحافی اور معتبر کالم نگار جناب رؤف طاہر مرحوم کے پچھلے سال انہی دنوں میں ایک قومی محاصر میں "ضیاء الحق نے کہا، نہیں سر، ایسا نہیں  ہو سکتا"کے عنوان سے چھپنے والے کالم میں ملتی ہے۔ محترم رؤف طاہر مرحوم اب اس دنیا میں موجود نہیں ہیں لیکن سچی بات ہے وہ میرے لیے ایسے پسندیدہ سنجیدہ خو اور معتبر کالم نگار تھے جن کی تحریریں زبان و بیان کا خوبصورت مرقع اور معلومات و حقائق کا  قیمتی خزینہ ہوتی تھیں۔ محترم رؤف طاہر نے اپنے اس کالم   اس مغالطے کو دور کرنے کی کوشش کی ہے کہ 4 جولائی 1977 ء کو وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو اور پاکستان قومی اتحاد (پی، این، اے) کے رہنماؤں کے درمیان معاہدہ طے پا گیا تھا لیکن اس کے باوجود آرمی چیف جنرل محمد ضیاء الحق نے اسی رات (4 اور 5 جولائی 1977 ء کی درمیانی رات) مارشل لاء نافذ کر دیا۔ محترم رؤف طاہر نے اس ضمن میں جنرل فیض علی چشتی جو 5 جولائی کے مارشل لاء کے نفاذ کے وقت کمانڈر 10 کور ہونے کی حیثیت سے مارشل لاء کے نفاذ کے حوالے سے مرکزی کردار تھے سے 2006 ء میں لئے گئے اپنے ایک مفصل انٹر ویو کا حوالہ دے کر بعض حقائق پر روشنی ڈالی ہے۔ انہوں نے لکھا کہ 5 جولائی کی رات کو وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو اور پاکستان قومی اتحاد (پی،این اے) کے رہنماؤں مولانا مفتی محمود مرحوم، نوابزادہ نصر اللہ خان مرحوم، پروفیسر غفور احمد مرحوم وغیرہ کو حفاظتی تحویل میں لے لیا گیا تھا اور بعد میں معزول وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کو گورنمنٹ ہاؤس کشمیر پوائنٹ مری اور قومی اتحاد کے رہنماؤں کو پنجاب ہاؤس پنڈی پوائنٹ مری میں منتقل کر دیا گیا۔ 10 جولائی 1977 ء کو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل محمد ضیاء الحق نے مری میں معزول وزیرِ اعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم اور پاکستان قومی اتحاد کے رہنماؤں سے الگ الگ ملاقاتیں کیں اور بڑے مؤدبانہ انداز میں یہ بات زیرِ بحث لائی کہ 90 دنوں کے اندر انتخابات کا انعقاد کر کے فوج واپس بیرکوں میں چلی جائیگی۔ جناب رؤف طاہر نے جنرل محمد ضیا ء الحق مرحوم کی معزول وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو اور قومی اتحاد کے رہنماؤں سے ان ملاقاتوں کا حوالہ دے کر لکھا ہے کہ اگر 4 اور 5 جولائی کی درمیانی رات وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو اور پاکستان قومی اتحاد کے رہنماؤں کے درمیان معاہدہ طے پا گیا تھا تو پھر معزول وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو اور پاکستان قومی اتحاد کے رہنماؤں کو چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیاء الحق سے ملاقاتوں کے دوران ضرور پوچھنا یا کہنا چاہیے تھا کہ ہمارے درمیان معاہدہ طے پا گیا تھا۔ تو پھر آپ نے مارشل لاء کا نفاذ کیوں کیا؟ جناب رؤف طاہر نے واضح الفاظ میں لکھا ہے کہ معاہدہ طے پانے کی بات مارشل لاء کے نفاذ کے چار سال بعد 1981 ء میں ایم آر ڈی (تحریک بحالی جمہوریت) کے قیام کے موقع پر پہلی بار نوابزادہ نصر اللہ خان نے کی اور پھر غلط العام کے طور پر یہ مشہور ہو گیا کہ آرمی چیف جنرل محمد ضیاء الحق نے زیادتی کی اور 5 جولائی 1977 ء کو رات کو حکومت اور پی این اے کے رہنماؤں کے درمیان معاہدہ طے پا جانے کے باوجود مارشل لاء کا نفاذ کر دیا۔ جناب رؤف طاہر نے جنرل چشتی کے انٹرویو کا حوالہ دے کر لکھا ہے کہ وہ (جنرل چشتی کمانڈر 10 کور) 4 اور 5 جولائی کی درمیانی رات جنرل عارف کے ہمراہ جی ایچ کیو میں جنرل ضیاء الحق کے ہمراہ موجود تھے کہ آرمی چیف جنرل ضیاء الحق کو وزیرِ اعطم ذوالفقار علی بھٹو کا یہ پیغام ملتا ہے۔"These bastards are not coming on the correct path"  یہ بھٹو صاحب جنرل ضیاء الحق کو کہہ رہے تھے۔ اگر معاہدہ ہو گیا ہوتا تو پھر بھٹو صاحب کو اپنے آرمی چیف کو اس طرح کا پیغام بھیجنے کی کیا ضرورت تھی۔
جناب رؤف طاہر کا یہ حوالہ ایسا ہے جسے رد نہیں کیا جا سکتا۔ انجامِ کار  4 اور 5 جولائی کی رات گزر رہی تھی کہ جی ایچ کیو میں ”آپریشن فیئر پلے“کا آغاز ہو چکا تھا۔ فوجی دستوں نے وزیرِ اعظم ہاؤس کو مکمل طور پر اپنے حصار میں لے لیا۔ وزیرِ اعظم کے ملٹری سیکریٹری میجر جنرل امتیاز نے فوجی دستوں کے کمانڈر سے سختی سے باز پُرس کرنے کی کوشش کی تو جنرل امتیاز کو آرمی چیف جنرل ضیاء الحق کا فون آگیا کہ امتیاز شرارت مت کرو فی الفور میرے پاس جی ایچ کیو میں آ جاؤ۔ کچھ دیر بعد وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کا آرمی جنرل ضیاء الحق کو فون آیا کہ ضیاء یہ سب کچھ کیا ہے تو جنرل ضیاء الحق نے جواب دیا سر یہ سب میرے حکم سے ہو رہا ہے۔ 5 جولائی کی صبح 6 بجے  ریڈیو پاکستان کے نیوز بلیٹن میں اور خبروں کے آخر میں یہ چھوٹی سی خبر نشر ہوئی کہ ملک میں مارشل لاء کا نفاذ کر دیا گیا ہے اور وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو اور ان کے حکومتی ساتھیوں سمیت پاکستان قومی اتحاد کے راہنماؤں کو حفاظتی تحویل میں لے لیا گیا ہے۔  چیف مارشل لا ء ایڈمنسٹریٹر اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل ضیاء الحق شام کو قوم سے خطاب کریں گے۔