ہماری وفاقی کابینہ

 ہماری وفاقی کابینہ

ملک اور ملکی سیاست ہمیشہ کی طرح،نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں، موسمیاتی تبدیلیوں اور سیلاب نے رہی سہی کسر پوری کر دی،کثیر جماعتی اتحاد بمقابلہ کپتان میچ جاری ہے، ایمپائر کی انگلی کس کے لئے اٹھے اس کا تو ابھی پتہ نہیں مگر تماشائیوں کی بھر پور حمایت کپتان کو مل رہی ہے۔ دوسری طرف ڈانواں ڈول اور قرض کی بیساکھیوں پر کھڑی قومی معیشت پر اب بھی دیوالیہ پن کی دو دھاری تلوار لٹک رہی ہے، نئے وزیر خزانہ اسحاق ڈار ڈالر کو نیچے لانے میں مصروف ہیں،ان کا کہنا ہے کہ وہ جلد ڈالر کو دو سو سے نیچے لانے میں کامیاب ہو جائیں گے مگر بد نصیبی یا احساس کی کمی،ملک و قوم کے حال و مستقبل سے لا تعلقی کا عالم یہ ہے کہ 41ہزار ارب ڈالر کے مقروض ملک کی کابینہ کے ارکان کی مجموعی تعداد 74ہے،چند روز قبل مجھے ایک دوست نے وفاقی کابینہ کے اعداد و شمار بھیجے،جو آپ بھی جانتے ہوں گے۔ صورتحال یہ ہے کہ 13جماعتی حکومت کے پاس وزراء کیلئے محکمے کم پڑ گئے ہیں،ہمارے ایک دوست وفاقی وزیر جاوید لطیف اب بھی کسی قلمدان سے محروم ہیں جبکہ 28 معاونین میں سے 23 کو علم ہی نہیں کہ انہیں کس شعبہ میں حکومت کی معاونت کرنا ہے،بھاری بھرکم کابینہ میں 35 وفاقی وزیر، 7 وزراء مملکت،4 مشیر اور28 معاونین خصوصی شامل ہیں، 52 ارکان کابینہ کو تنخواہ، گھر، گاڑی اورسفری سہولیات سمیت لاکھوں روپے کی مراعات حاصل ہیں مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ 28 میں سے 23 معاونین خصوصی بغیر کسی قلمدان کے صرف عہدے اور مراعات کے مزے لے رہے ہیں،عہدہ دینے اور لینے والوں کو بھی معلوم نہیں کہ انہوں نے کرنا کیا ہے؟
 بات یہاں نہیں رکتی، وزیر اعظم کے معاونین میں آئے روز اضافہ ہورہا ہے، کوئی پتہ نہیں جب آپ یہ تحریر پڑھ رہے ہوں میرے بتائے ہوئے اعداد و شمار میں اضافہ ہو چکا ہو، 5 معاونین خصوصی کا سٹیٹس وفاقی وزیر اور 13 معاونین کا وزیر مملکت کے برابرہے، 4 مشیروں کو بھی وفاقی وزیر کے برابر عہدہ اور مراعات دی گئی ہیں،سیلری، الاؤنسز اینڈ پری ویلج ایکٹ 1975 کو دیکھا جائے تو ایک وفاقی وزیر کو 2 لاکھ جبکہ وزیر مملکت کو ایک لاکھ 80 ہزار تنخواہ ملتی ہے، اس کے علاوہ گھر یا گھریلو الاؤنس، گاڑی، مینٹی نینس، ریلوے، ائیر ٹکٹس، پرائیویٹ سیکرٹری، پرسنل اسسٹنٹ، سٹینو گرافر، قاصد اور نائب قاصد کی سہولت کے ساتھ فلیگ بھی لگتاہے،گھر اور لان کی دیکھ بھال کیلئے بھی لاکھوں کے فنڈز دستیاب ہوتے ہیں،وفاقی وزیر مہینے میں چار چھٹیاں کر سکتا ہے نہ کرنے کی صورت میں دو لاکھ روپے خصوصی الاؤنس دیا جاتا ہے،ماہانہ20ہزار ایڈہاک اور22ہزار یوٹیلیٹی الاؤنس دیا جاتا ہے،11ہزار روپے آلات اور مصارف الاؤنس کے الگ ہیں، سرکاری رہائش گاہ میسر نہ ہونے کی صورت میں ایک لاکھ تین ہزار کرایہ کی مد میں ادا کئے جاتے ہیں،گھر اپنا ہو پھر بھی کرایہ حکومت ادا کرتی ہے،اہل خانہ سمیت علاج کی سہولت بھی دی جاتی ہے،ملکی،غیر ملکی دوروں کی صورت میں مراعات سہولیات کیساتھ خصوصی الاؤنس دیا جاتا ہے۔
 وزیر اعظم شہباز شریف کی کابینہ اور سابق وزیر اعظم عمران خان کی کابینہ کا موازنہ کیا جائے تو 10 اپریل 2022 کو عمران خان کابینہ کا حجم 56 تھا جس میں 29 وفاقی اور 4 وزراء مملکت، 6 مشیر اور 17 معاونین خصوصی شامل تھے جبکہ آئین کے آرٹیکل 92 کے تحت وفاقی کابینہ میں وفاقی وزراء اور وزرائے مملکت کی تعداد قومی اسمبلی اور سینیٹ پر مشتمل پارلیمنٹ کے کل ارکان کے 11 فیصد سے زیادہ نہیں ہونی چاہئے اس حساب سے وفاقی کابینہ کا حجم49سے زیادہ نہیں بنتا،زیادہ دلچسپ یہ کہ چند ایک کے سوا کوئی وزیر مشیر اپنے محکمہ کے قواعد و ضوابط حدود و اختیار سے آگاہ نہیں،جس کے نتیجے میں فیصلوں کا کامل اختیار وزیر اعظم کے پاس ہے،کابینہ ارکان صرف واہ واہ کیلئے رکھے گئے ہیں، ملک معاشی بحران کی دلدل میں دھنستا جا رہا ہے،مخلوط حکومت کی بڑی کابینہ اور معاونین کی کثیر تعداد پر اتحادی تو خوش ہیں مگر یہ تعداد اس بات کی متقاضی ہے کہ بڑی کابینہ کے بڑے فیصلے عوام کی فلاح و بہبود کے لئے ہوں۔
 18ویں آئینی ترمیم نے کابینہ کے حجم کی ایک حد مقرر کی ہے،چنانچہ کابینہ کے ارکان کی کل تعداد اس سے زیادہ ہونے کا مطلب حکومت خود آئین شکنی کر رہی ہے،دوسری جمہوریتوں سے موازنہ کر کے اندازہ لگا یا جا سکتا ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔ ہندوستان کی موجودہ کابینہ 77 ارکان پر مشتمل ہے جس میں 26 وزیر ہیں جبکہ 51 وزرائے مملکت ہیں۔ یہ کابینہ ہندوستانی پارلیمنٹ کی کل رکنیت کا تقریباً 9.6 فیصد ہے جس میں لوک سبھا (ایوانِ زیریں) کے 552 اور راجیہ سبھا (ایوانِ بالا) کے 250 ارکان کو ملا کر کل 802 ارکان ہیں۔موجودہ برطانوی کابینہ میں 21 ارکان ہیں، اس کے ہاؤس آف کامنز (ایوانِ زیریں) کی کل رکنیت 650 ارکان ہے۔
 ہماری وفاقی حکومت میں اس وقت 34 وزارتیں ہیں،ہر وزارت کا وزیر ہوتو کابینہ کا حجم34سے زیادہ نہیں ہونا چاہئے، ماضی میں کچھ وزارتیں اس لیے بھی بنائی گئیں تاکہ زیادہ سے زیادہ ارکانِ پارلیمنٹ کو وزیر یا وزیرِ مملکت بنایا جا سکے،وزارتوں کی فہرست پر ایک سرسری نظر سے اندازہ ہوتا ہے کہ وزارتوں کی تعداد گھٹا کر 20 کے قریب کی جاسکتی ہے جو کہ 1973ء کے آئین کے نفاذ سے قبل روائت تھی،مثال کے طور وزارتِ ڈاک خانہ جات ماضی میں وزارتِ مواصلات کا حصہ رہی ہے اسے دوبارہ اس میں ضم کیا جاسکتا ہے، وزارتِ انسانی حقوق وزارتِ قانون، انصاف اور پارلیمانی امور کا حصہ رہی ہے اسے دوبارہ اس کا حصہ بنایا جاسکتا ہے۔،جب وزیرِ توانائی موجود ہے تو وزیرِ پیٹرولیم کی کیا ضرورت ہے؟ وزارتِ انسدادِ منشیات کو واپس وزارتِ داخلہ کے ماتحت کردینا چاہئے، وزارتِ دفاعی پیداوار کو وزارتِ دفاع کا حصہ بنایا جانا چاہئے، صوبوں کو اختیارات کی منتقلی کے بعد صحت، تعلیم، غذائی تحفظ اور سائنس اینڈ ٹیکنالوجی جیسے قلمدانوں کو ایک وزارت کے ماتحت کیا جاسکتا ہے،وزارتِ پارلیمانی امور وزارتِ قانون کا حصہ رہی ہے یہ واپس وہاں جاسکتی ہے، وزارتوں کے انضمام اور قلمدانوں میں کمی سے اخراجات کو گھٹایا جا سکتا ہے ایک ایسے وقت میں جب معاشی بحران کا خطرہ سر پر مندلا رہا ہے ذرائع آمدن کو بڑھانا سیدھا حل ہے مگر یہ موجودہ کابینہ اور حکومت کے بس میں نہیں تو کم از کم اخراجات میں کمی لا کر مشکلات کم کی جا سکتی ہے۔
 ہماری وفاقی کابینہ میں زیادہ تر افراد وہ ہیں جن کے خلاف مختلف ادوار میں مقدمات درج کئے گئے اور ان دنوں وہ ضمانتوں پر ہیں، انہیں تو زیادہ محتاط رہنا چاہیے تاکہ عوام کا اعتماد ان پر پیدا ہو سکے۔ کروڑوں پاکستانی سیلاب کے بعد چھت سے محروم،خوراک نہ پانی،دوا نہ علاج،فصلیں بہہ گئیں گھر منہدم ہو گئے ڈھور ڈنگر بھی نہ رہے،ان کی بحالی ایک چیلنج ہے مگر کسی بھی سطح پر وفاق میں اس حوالے سے سنجیدگی دکھائی دے رہی ہے نہ ایسی منصوبہ بندی جو منطقی اور نتیجہ خیز ہو،اس پر اتنی بھاری کابینہ ملک اور قوم کیساتھ ملکی معیشت پر ظلم نہیں تو کیا ہے۔ 

مصنف کے بارے میں