اسلام آباد کے عام شہری

اسلام آباد کے عام شہری

آئیے ہم اپنی ترقی اور ٹیکنالوجی کا جائزہ لیتے ہیں۔ اسلام آباد دارالحکومت ہے جہاں اپنے ہوں یا پرائے سب بڑے بیٹھتے ہیں اس لیے اسے انٹرنیشنل سٹی کہا جاتا ہے۔ اس رتبے کے باعث اسلام آباد کو ملک کا سب سے جدید، ترقی یافتہ اور ٹیکنالوجی سے بھرپور شہر ہونا لازم ٹھہرا۔ ہم اپنی ملکی ترقی اور ٹیکنالوجی کو جانچنے کے لیے اسلام آباد کو ہی رول ماڈل بنا لیتے ہیں۔ سب سے پہلے اسلام آباد کے عام شہریوں کے لیے مواصلاتی سہولتوں کا ذکر کریں تو فون سروس کا نمبر پہلا آتا ہے۔ موبائل فون جن پر باہر والوں نے خوب سرمایہ کاری کی، یہاں کی رعایا اور بادشاہوں دونوں کی یکساں کمزوری بن چکے ہیں لیکن اِن موبائل فونزکی سروس اسلام آباد اور اس کے گردونواح میں ایسی ہی ہے جیسے چاند کی سطح جو دور سے خوبصورت اور قریب سے مردہ۔ موبائل فون کی ان نادانیوں کا ذکر یہ کمپنیاں اپنے اشتہارات میں ایک دوسرے کو تمسخر کا نشانہ بنا کر بھی کرتی رہتی ہیں۔ یعنی پاکستان کے انٹرنیشنل سٹی میں موبائل فون کی سروس بھی 100فیصد صحیح نہیں ہے۔ لینڈ لائن ٹیلیفون کا ذکر کریں تو پتا چلتا ہے کہ ٹیلی کمیونیکیشن کی یہ کمپنی آپٹیکل فائبر کے نیٹ ورک کا دعویٰ کرتی ہے لیکن اکثر جگہوں پر آپٹیکل فائبر ایک حد تک جاتی ہے جہاں سے آگے عام پرانی تار ڈال دی جاتی ہے۔ ٹیلیفون تار کا یہ غیرسائنسی جوڑ ہمارے گزارا کرنے اور کام چلانے کے روایتی مزاج کی عکاسی کرتا ہے۔ فون کی آواز میں شور کی آواز شامل ہونا لازمی جزو ہے یعنی ابھی تک اسلام آباد جیسے انٹرنیشنل سٹی میں بھی ٹیلیفون سروس موسم اور محکمے کے کارندوں کی مرہونِ منت ہے۔ ٹی وی کیبل کا بھی معائنہ کر لیجئے۔ بہت سی چھوٹی بڑی کمپنیاں اسلام آباد اور اس کے آس پاس ٹی وی کیبل بچھائے بیٹھی ہیں لیکن زیادہ تر صارفین کو اِن سے شکایت ہی رہتی ہے۔ کیبل کمپنی کے نمائندے مہینے کے مہینے بل وصول کرنے تو آجاتے ہیں لیکن شاید ہی کوئی دن ایسا گزرتا ہو کہ نشریات تعطل کے بغیر دیکھی جاسکتی ہوں۔ یہ کمپنیاں 80 سے زائد چینلز دکھانے کا دعویٰ کرتی ہیں لیکن شروع کے 10، 15 کے بعد ہی ان کا دَم اکھڑنے لگتا ہے۔یعنی انٹرنیشنل سٹی اسلام آباد میں ابھی تک ٹی وی کیبل کی سروس ہر صارف تک 100فیصد درست طریقے سے نہیں پہنچ رہی۔ صاف پا نی کو لیجئے۔ اسلام آباد سے دور رہنے والے یہی سمجھتے ہوں گے کہ پانی کا مسئلہ پاکستان کے دوسرے شہروں کا ہے اسلام آباد کا نہیں ہوسکتا لیکن انہیں نہیں پتا کہ CDA اسلام آباد کے ہر سیکٹر میں صاف پانی پہنچانے میں بے بس ہوچکی ہے۔ لوگ زمین میں بور کرکے پانی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں یا سرکاری اور
پرائیویٹ ٹینکروں سے پانی خریدتے ہیں۔ یعنی انٹرنیشنل سٹی اسلام آباد میں جدید منصوبہ بندی کے باوجود بھی گھرگھر صاف پانی کی سرکاری سپلائی ممکن نہیں ہوسکی۔ صحت کی بات کریں تو صرف 2 بڑے سرکاری ہسپتال ہیں جن میں سے ایک پولی کلینک اور دوسرا پمز کہلاتا ہے۔ ان ہسپتالوں میں بیمار فرد کی صحت یابی تو خدا کے ہاتھ میں ہے مگر صحتمند فرد کا یہاں آکر بیمار ہوجانا شائد بہت حد تک ممکن ہے۔ دونوں ہسپتال بے ہنگم رش، بدانتظامی، ڈاکٹروں کی لاپروائی اور گندگی کا شکار ہیں۔ اسکے علاوہ اسلام آباد کو بساتے ہوئے ایک غیرملکی درخت جسے جنگلی شہتوت کہا جاتا ہے لگایا گیا تاکہ یہاں کا ماحول سرسبز ہوسکے۔لیکن یہ سب کچھ بغیر تحقیق کے کیا گیا کیونکہ اُس شہتوت سے نکلنے والا پولن لوگوں کی سانس کی نالیوں میں جاکر پولن الرجی کردیتا ہے جس سے کئی اموات واقع ہوچکی ہیں۔یہاں کے اکثر لوگ موسمِ بہار میں اس کی وجہ سے شدید تکلیف میں مبتلا ہوتے ہیں اور اپنی زندگیاں بچاتے پھرتے ہیں۔ شہر کی انتظامیہ برس ہا برس
گزرنے کے بعد بھی ان درختوں کو مکمل ختم کرنے میں ناکام رہی ہے حالانکہ یہ کوئی اتنا بڑا ٹاسک نہیں تھا۔ اسلام آباد کے شہریوں کی مذکورہ صحت کی صورتحال دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ یہاں رہنے والوں کو حکومتی ادارے صحت کی سہولتیں بھی مکمل طور پر مہیا نہیں کرسکے۔ اب تھوڑی سی صورتحال بجلی کی بھی دیکھ لیتے ہیں۔ ملک کے دوسرے حصوں خاص طور پر پنجاب سے خبریں آتی ہیں کہ لوڈشیڈنگ کا کوئی حساب نہیں اور بجلی کئی کئی گھنٹے غائب رہتی ہے۔ اُن لوگوں کا خیال ہوگا کہ اسلام آباد والے لوڈشیڈنگ سے واقف نہیں ہیں جبکہ یہاں بھی غیراعلانیہ لوڈشیڈنگ ہوتی ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ دارالحکومت اسلام آباد میں رہنے والے عام شہری بھی کئی مرتبہ پورے 24گھنٹے بجلی حاصل نہیں کرسکتے۔ اوپر کی گئی پوری گفتگو کا مقصد یہ تھا کہ ملک کا کیپیٹل جہاں ملکی اور غیرملکی اہم شخصیات بیٹھتی ہیں، بین الاقوامی دفاتر موجود ہیں اور یہ شہر انتہائی منصوبہ بندی کے ساتھ آباد کیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود بھی یہاں کے رہنے والے عام لوگ مواصلات، صاف پانی، صحت اور بجلی جیسی بنیادی سہولتوں سے بہت حد تک محروم ہیں۔ اگر حکومت اپنے انٹرنیشنل سٹی میں بنیادی سہولتیں نہیں دے سکتی تو اِس سے اُس کی ترقی اور ٹیکنالوجی پر کنٹرول کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ دوسری طرف یہی حکمران بڑی بڑی انٹرنیشنل طاقتوں کے آگے ایسے بولتے ہیں جیسے انہیں جلاکر بھسم کر دیں گے جبکہ روپیہ پیسہ، خوراک، دوائی، مشینوں کے پرزے اور یہاں تک کہ اپنی حکمرانیوں کے کنٹریکٹ بھی انہی سے حاصل کرتے ہیں۔ کیا اِن کی یہ دورنگی خود ناسمجھ بننے کے لیے ہوتی ہے یا عوام کو ناسمجھ سمجھتے ہوئے ہوتی ہے؟ گزشتہ 75 برس میں تو ایسا ہی ہوتا آیا ہے کہ جب بھی ہمارے، انٹرنیشنل والوں کے آگے منہ زوری کرتے دکھائی دیتے ہیں تو اصل میں کچھ معاملات اُن سے طے کررہے ہوتے ہیں۔ حکمرانوں کا یہ چلن اب تک تو تھا آئندہ کی خبر نہیں۔ علی اکبر ناطق کی ایک نظم ہے:
دید بانوں سے کہو آج نہ شب بھر سوئیں
آج کی رات تماشے کی خبر ہے ہرسُو
خاک اُڑتی ہوئی لگتی ہے اُفق کے
ایک سناٹا فصیلوں کے دلوں میں اُترا
سائے پھیلے ہیں کئی دن سے مضافاتوں میں
دیدبانوں سے کہو آج نہ شب بھر سوئیں
ایک منحوس پرندہ کہ سزا سے بھاگا
لے گیا جانب ِہیکل وہ سنہری فتنے
اب کرو اہلِ یمن کوئی بقا کا چارہ
راستے سوئے سبا دوڑے چلے آتے ہیں