رسم دنیا بھی ہے موقع بھی ہے دستور بھی ہے

رسم دنیا بھی ہے موقع بھی ہے دستور بھی ہے

ہمارا شمار ان پردیسیوں میں ہوتا ہے جنہیں لاہور میں سکونت پذیری کی بڑی بھاری قیمت اداکرناپڑتی ہے جو رہتے یہاں ہیں مگر ہوتے وہاں ہیں۔ ذرائع آمد و رفت کی تیز رفتار ترقی کے باوجود لاہور سے اپنے آبائی علاقوں کا سفر دن بدن دشوار ہوتا جا رہا ہے۔ راستے بند نہیں ہیں اور نہ ہی قافلوں پر ڈاکوؤں کے حملوں کا خطرہ ہے مگر بڑھتی ہوئی cost of travel نے فاصلے بڑھا دیئے ہیں۔ ہر اگلا سفر آپ کو پہلے سے زیادہ مہنگا پڑتا ہے۔ 
مگر عید ایسا موقع ہے کہ بے شک حکومت یہ اعلان بھی کر دے کہ لاہور سے فیصل آباد جانے کے لیے ویزا درکار ہو گا تو دایو ملنگان عشق پھر بھی باز نہیں آئیں گے۔ اس سے بڑی دیوانگی کیا ہے کہ آپ عید کی نماز لاہور میں اداکریں اور عید ملنے کی رسم کے لیے ڈیڑھ پونے دو سو کلو میٹردور ایک دور دراز گاؤں میں جا کر سکون کی تلاش کا کام از سر نو شروع کریں۔ ایک بہت بڑا انحراف یہ بھی ہے کہ اصل لاہور یے سمجھتے ہیں کہ ہم کہیں اور کے ہیں جبکہ ہمارا آبائی سماجی حلقہ بھی یہی لکھتا ہے کہ ہم ان کے ساتھ کے نہیں بلکہ کہیں اور کے ہیں گویا اس عشق لاحاصل میں ہم نہ ادھر کے رہے اور نہ ادھر کے۔ زندگی پھر بھی رواں دواں ہے۔ 
اس کے باوجود گاؤں میں بہت سے لوگ میرا انتظار کرتے ہیں جن کے ساتھ نہ خون کا رشتہ ہے اور نہ قرابت داری کا بلکہ یہ لا الہ الا اللہ کا رشتہ ہے۔ بیواؤں، یتیموں اور ناداروں پر مشتمل یہ لوگ میرے لوگ ہیں یہ ہمیں عید پر اس لیے یاد رکھتے ہیں کہ سالہا سال سے میرا یہ مسلک رہا ہے کہ درمے سخنے جیسے بھی ممکن ہو ان کی مدد کی جائے اور یہ جذبہ اللہ کی توفیق کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ میرے علاقے میں بڑے بڑے مالدار لوگ ہیں لیکن کسی کے لیے امید کی کرن بن کر جینا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے یہ نصیب کی بات ہے۔ 
اربنائزیشن کی وجہ سے گاؤں کی زمینیں بہت مہنگی ہو چکی ہیں جن کی فی ایکڑ قیمت کروڑوں میں ہے۔ اب گاؤں میں دو طرح کے لوگ ہیں بے زمین لوگ خط غربت سے بہت نیچے چلے گئے ہیں جبکہ زمینداروں کے لیے تو یوں ہے کہ جیسے ان کی زمین سے پٹرول کا کنواں دریافت ہو گیا ہے ان دونوں کے درمیان والی مڈل کلاس غائب ہو چکی ہے یہ میرے گاؤں کا نہیں پورے ملک کا مسئلہ ہے۔ 
ایک چیز بطور خاص نوٹ کی ہے کہ ہمارے گاؤں کی دکانوں کی inventory میں جو چیز بچوں میں عید کے دن سب سے زیادہ فروخت ہو رہی ہے وہ toy pistol تھے اس سے آپ ہمارے گاؤن کی اگلی نسل کے ذہنی رجحان کا اندازہ لگائیں اور اس پس منظر پر اگر مذہب کا تڑکا لگا دیا جائے تو طالبان بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔ یہ trend بڑاخطرناک ہے اور یہ لاقانونیت غربت سے شوقیہ بدمعاشی کی نشاندہی کرتی ہے۔ 
گاؤں سے قبرستان جانے والے راستے پر میرے قدموں کی آشنائی بہت پرانی ہے اور اس وقت حالت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ گاؤں کے زندہ لوگوں کو شاید میں ذاتی طور پر فرداً فرداً اتنا نہیں جانتا جتنا آسودگان خاک کے ساتھ پرانی وابستگی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں اپنا وقت ان دونوں طبقات میں تقسیم کرتاہوں۔ قبرستان میں ایک ایک قبر اور ایک ایک کتبہ جس پرنام ولدیت اور تاریخ وفات درج ہے وہ اپنی جگہ ایک الگ داستان ہے۔ جبکہ بے نام قبروں کی داستانیں زیادہ متاثر کن ہیں۔ یہ بڑی پیچیدہ نفسیات ہے۔ 
آج کے اس مصروف دور میں کسی کے پاس ٹائم ہے کہ وہ ہماری طرح بے سبب لوگوں سے ملتا پھرے اس کے باوجود ہم نے عید کو ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہوئے کچھ دوستوں کو بلاوجہ تنگ کیا اس میں ہمارا پہلا شکار فخر اعجاز لونا بنے جن کو ہم نے زبردستی 2 منٹ کے نوٹس پر شرف مہمان نوازی ان کے گلے ڈال دیا۔ لونا صاحب بڑے شیریں دہن ہیں وہ ساندل بار ایسوسی ایشن کے پلیٹ فارم سے لائل پورکی قدیم تہذیب زبان اور ثقافت کی تجدید اور ثقاتی ورثے کی حفاظت کے لیے کوشاں ہیں۔ سرکاری افسر ہیں مگر ان کے ساتھ ہماری وابستگی ان کی علمی و ادبی خدمات کی وجہ سے ہے۔ 
ہماری اگلی منزل فیصل آباد کے دل ڈی گراؤنڈ تھی جہاں ہمارے دوست منیر کھوکھر کی ٹریول ایجنسی ہے۔ یہ اپنے گاہکوں کو ہوائی جہازوں پر چڑھانے اور اتارنے کا کام کرتے ہیں لیکن آج پہلی دفعہ ہے کہ عید کی چھٹی میں بھی انہوں نے ایک ایسے شخص کے لیے دفتر کھول کر انتظار کیا جسے ہوائی جہاز کے ٹکٹ کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ یہ ملاقات ان کے گھر بھی ہو سکتی تھی مگر ہمارا بچپن منیر کے ساتھ اسی گراؤنڈ کی D-shape گلیوں میں گھومتے گزرا ہے تو ہم نے سوچا کہ عہد رفتہ کی یاد تازہ کی جائے۔ 
یہاں سے کچھ فاصلے پر ہمارے قابل احترام دوست ڈاکٹر عدنان اشفاق وڑائچ کا گھر ہے۔ ان کے ساتھ اپنے تعلق کو Define کرنا بڑا مشکل ہے۔ یہ بڑا فلمی جملہ ہے کہ پہلی ملاقات میں ایسا لگاجیسے برسوں سے ایک دوسرے کو جانتے ہوں۔ مگر ڈاکٹر عدنان کے معاملے میں یہ اس لیے 100 فیصد سچ ہے کہ جب ان سے پہلی ملاقات ہوئی تھی تو یہ خوشگوار حقیقت آشکار ہوئی کہ میرے مرحوم والد اور ان کے مرحوم والد ایک دوسرے کے بہت گہرے اور دیرینہ دوست ہوا کرتے تھے۔ ڈاکٹر عدنان ایک سرکاری بینک کے سینئر ایگزیکٹو ہیں۔ ان کے والد صاحب مرحوم چوہدری اشفاق وڑائچ اپنے وقت کے معروف وکیل تھے اور ہماری وڑائچ برادری اور conflict rosolution ان کے ڈیرے پر ہوا کرتی تھی۔ 
ڈاکٹر عدنان صاحب کے آبائی گھر کا Aristocratic ماحول ہمیں ان کے بزرگوں کی یاد دلاتاہے۔ وہ آج بھی ملازموں کے ہوتے ہوئے مہمان کے لیے گھر کاگیٹ خود کھولنے کو ترجیح دیتے ہیں اوران کی یہ مقناطیسیت ہمیں اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے۔ ڈاکٹر صاحب آج کل لائل پور کی پرانی تاریخی Archives اکٹھی کر رہے ہیں جس میں اس علاقہ کی انگریز حکومت کی لینڈ سیٹلمنٹ اور اس میں مقامی آباد کاروں کے contribution کو اجاگر کیاجا سکے جس سے تعلق تقسیم ہند سے قبل سے لے کر لائل پور کے نام سے نیا شہر آباد کرنے تک کی حالات و واقعات کو دستاویزی شکل دی جائے۔ 
گاہے گاہے باز خوان ایں قصۂ پارینہ را
کبھی کبھی پرانے قصے چھیڑ دیا کرو) 
بقول عزم شہزاد 
ہمارے لہجے میں یہ توازن بڑی صعوبت کے بعد آیا
کئی مزاجوں کے دشت دیکھے کئی رویوں کی خاک چھانی 

مصنف کے بارے میں