کون کس کو شکست دے گا، کچھ معلوم نہیں؟

کون کس کو شکست دے گا، کچھ معلوم نہیں؟

حزب اختلاف موجودہ حکومت سے چھٹکارا پانے کے لیے تحریک عدم اعتماد لا رہی ہے۔ اس حوالے سے اس نے اپنی تیاری مکمل کر لی ہے اور وہ پُر امید نظر آتی ہے۔ دوسری طرف حکومت کا کہنا ہے کہ وہ حزب اختلاف کی سرگرمی سے کچھ مضمحل ضرور ہے مگر اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ وہ گھر چلی جائے گی، وہ اپنی مقررہ مدت پوری کرے گی۔
قارئین کرام ابھی کوئی پیش گوئی کرنا ممکن نہیں کیونکہ یہ ایک کھیل ہے جس سے متعلق حتمی طور سے کچھ نہیں کہا جا سکتا ہاں البتہ ٹامک ٹوئیاں ماری جا سکتی ہیں۔ قیاس آرائی کی جا سکتی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے کہ حزب اختلاف اقتدار میں آنا چاہتی ہیں اور حکومت اقتدار میں رہنا چاہتی ہے۔ اس کا جواب یہ ہو گا کہ ہر کسی کے ذاتی مفادات ہیں جس کے لیے اختیارات کے قلمدان کا اس کے ہاتھ میں ہونا ضروری ہے لہٰذا یہ کشمکش اسی لیے ہو رہی ہے۔ مگر یہ کس قدر دکھ کی بات ہے کہ حکمران طبقات نے عوام کوکبھی اہم نہیں جانا۔ اہم جانا ہوتا تو انہیں عالمی مالیاتی اداروں کی سخت شرائط کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ ان پر ٹیکسوں کا بھاری بوجھ نہ ڈالا جاتا اور ہر بچہ جو آج لاکھوں کا مقروض ہے وہ نہ ہوتا لہٰذا یہ بات انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہی ہے کہ ہمارے حکمران وہ نہیں ہوتے جو دکھائی دیتے ہیں۔ انہیں عوامی مفاد سے نہیں اپنے اقتدار سے غرض ہوتی ہے، اس کے حصول کے لیے وہ مغرب اور عالمی مالیاتی اداروں پر زیادہ انحصار کرتے ہیں اسی لیے یہاں حکومتیں ادھر بنتی ہیں تو ادھر گر جاتی ہے۔ بہرحال حزب اختلاف پوری طاقت کے ساتھ عمران خان کے پیچھے پڑ چکی ہے وہ یہ موقف اختیار کر رہی ہے کہ اس ملک کو اس نے کنگال کر دیا ہے اور قرضوں کے شکنجے میں جکڑ دیا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حالات خراب سے خراب تر ہوتے جا رہے ہیں، پہلے اس طرح کی افراتفری نہیں تھی جو آج ہے۔ مگر معذرت کے ساتھ ہماری حزب اختلاف یہ بتائے کہ اس کے پاس عوام کو درپیش صورتحال سے نجات دلانے کا کوئی منصوبہ کوئی پالیسیاں ہیں۔ ہمیں نہیں لگتا کہ وہ عمران خان کو فارغ کرنے کے اگلے دن یا چند روز کے بعد ان بدترین حالات کو خوشگوار ترین بنانے میں کامیاب ہو جائے گی۔ اگر ایسا نہیں کر سکتی تو پھر 
اس حکومت کو گھر بھجوانے کا فائدہ؟ لہٰذا عرض ہے کہ ذمہ داران اس پہلو پر بھی غور کریں کہ کیوں نہ ان تمام سیاسی جماعتوں کو گول میز پر بٹھا کر مل جل کر کام کرنے کے لیے راضی کیا جائے۔ حکومت نے بھی مذاکرات کی پیشکش کر دی ہے۔ اس کم فہم کا مشورہ ہے کہ حزب اختلاف کو چاہیے کہ وہ حکومت کو اپنا وقت پورا کرنے دے تاکہ لوگ اچھی طرح اس سے مایوس ہو جائیں اور اس کی بُری کارکردگی کو سامنے رکھتے ہوئے عام انتخابات میں اسے (حزب اختلاف) ووٹ دے سکیں۔ مگر شاید اس کے سر پر عمران خان سوار ہیں کہ وہ جلد از جلد ان سے گلو خلاصی چاہتی ہے کیونکہ وزیراعظم کا لہجہ اور سوچ تبدیل نہیں ہو رہی۔ وہ مسلسل پہلے والی باتوں کو ہی دہرائے جا رہے ہیں کہ میں دیکھوں گا، یہ کر دوں گا، وہ کر دوں گا۔ وہ زیادہ سے زیادہ یہ کر سکتے ہیں کہ چند بڑے سیاستدانوں کو مختلف الزامات کے تحت جیل بھجوا سکتے ہیں۔ مگر عدالتیں بھی تو ہیں وہ آنکھیں تو بند نہیں کیے ہوں گی۔ ویسے انہوں نے پہلے کیا کر لیا، کوئی احتساب ہوا، کسی کو سزا دلوا سکے، کوئی ان سے ڈر کر گوشہ نشین ہوا، وہ کسی کا کچھ نہیں بگاڑ سکے لہٰذا چھوڑیں ان باتوں کو۔ صورتحال کو اپنے موافق بنانے کی کوشش کریں اگر وہ عدم اعتماد کی تحریک میں سرخرو ہوتے ہیں تو وہ حزب اختلاف کو اپنے پاس بلائیں غلط فہمیوں کو دور کریں، جہاں انہیں معذرت کرنا پڑے تو کریں۔ سب سے پہلے موجودہ وزیر اعلیٰ کو تبدیل کریں اور چودھری پرویز الٰہی کو وزارت اعلیٰ کی ذمہ داری سونپیں۔ وہ پنجاب میں ایک بڑی مثبت تبدیلی لانے کی اہلیت رکھتے ہیں اور ہر کسی کے لیے قابل قبول ہیں۔ اگرچہ یہ کام ان کے لیے مشکل ہو گا مگر انہیں کرنا پڑے گا۔ اگر وہ ناکام بھی رہتے ہیں تو انہیں سڑکوں پر نہیں آنا چاہیے، اپنی تنظیم کی طرف دیکھنا چاہئے اور ان فصلی بٹیروں کو اسی جانب بھیج دینا چاہیے جدھر سے وہ آئے تھے۔ از خود بھی کچھ جا رہے ہوں گے لہٰذا انہیں اپنے دیرینہ کارکنوں کو ساتھ ملا کر نئے دور کی سیاست کا آغاز کرنا ہو گا۔ یہ جو ڈراوے ہیں ان سے اجتناب برتیں، اس سے انہیں کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ کوئی انقلاب نہیں آنے والا اور نہ ہی حزب اختلاف خوفزدہ ہونے والی ہے۔ وہ ایک سنجیدہ فکر سیاستدان کے طور سے سیاست کریں اب تک وہ کچھ نہ کر سکے جو وہ چاہتے تھے اس پر انہیں غور و فکر کرنا ہو گا۔ حزب اختلاف کو بھی ہتھ ہولا رکھنا ہو گا کیونکہ عوام اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں۔ اگر وہ اقتدار میں آ کر عمران خان پر ہی فوکس کرتی ہے تو یہ بات عوام کو قبول نہ ہو گی، وہ سمجھیں گے کہ انہیں ایک بار پھر بے وقوف بنایا گیا ہے اوراس پر یہ جو الزام عائد کیا جانے لگا ہے کہ اسے مغرب کی آشیرباد حاصل ہے، سچ ہے۔ اگر وہ یہ تاثر زائل کرنے میں ناکام رہتی ہے تو عمران خان کوعوام کی ہمدردیاں ملنے میں دیر نہیں لگے گی، اگرچہ وہ مسائل زدہ ہیں۔ مگر اب ان کی بھی سوچ بدلنے لگی ہے۔ سوشل میڈیا پر ایسی پوسٹس اپ لوڈ ہو رہی ہیں جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ لوگ وطن عزیز کو صحیح معنوں میں آزاد اور خودمختار ملک دیکھنا چاہتے ہیں کہ یہاں جو بھی ہو اس میں ہم خود کفیل ہوں۔ ہمیں آگے بڑھنا ہے تو بیساکھیوں کو دور پھینکنا ہو گا، ڈکٹیشنوں سے رخ پھیرنا ہو گا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ عوام کی کبھی نہیں سنی گئی۔ وہ ووٹ بھی دیتے ہیں، ڈنڈے بھی کھاتے ہیں، جیلوں میں بھی جاتے ہیں، جلسوں اور جلوسوں کی رونق بھی بنتے ہیں مگر انہیں کسی نے بھی ان کے حقوق نہیں دیے۔ ان کی اکثریت کو ملحوظ رکھتے ہوئے ایوانوں میں نہیں لے جایا گیا، اسی لئے ہی شاید وہ محروم منزل ہیں۔ غربت، افلاس اور نا انصافی نے انہیں ذہنی مریض بنا دیا ہے۔ ان سے ان کی بنیادی ضروریات دور ہوتی جا رہی ہے۔ وہ ایک طبقے کو خوشحال ترین دیکھ رہے ہیں جس کے پاس زندگی کی تمام لوازمات موجود ہیں جن پر انہیں رشک آتا ہے۔ چند روز پہلے ہم فیض امن میلے میں گئے تو دیکھا کہ کچھ لوگ نئی نئی چمکیلی گاڑیوں میں آ رہے ہیں جن کے سرخ و سپید چہرے دمک رہے ہیں۔ ایسا لگ رہا تھا کہ وہ ابھی یورپ کے کسی ملک سے آئے ہیں، عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ غریب غریب تر اور امیر تر ہوتا جا رہا ہے مگر حکمران طبقہ یہ سب دیکھ کر بھی غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہا ہے، اسے اس خلیج کو ختم کرنا ہو گا اور اب جب حزب اختلاف عوام کے دکھ میں میدان عمل میں آئی ہے تو وہ کسی دائرے میں ہی محو سفر نہ رہے۔ روشن راستے پر چل کر دکھائے لوگ وہ نہیں رہے، ان کے دماغوں میں خیالات کی بھرمار ہے جو انہیں کسی نتیجے پر پہنچنے کی راہ دکھا رہے ہیں لہٰذا لازمی ہے کہ اقتدار کے ایوانوں میں انہیں لا کر بٹھایا جائے تب ہی تحریک عدم اعتماد کا مقصد پورا ہو سکے گا بصورت دیگر وہی نظام ہو گا اور وہی چہرے ہوں گے تو مشکلات کے بھنور میں گھرے عوام کو باہر نہیں نکال سکیں گے۔

مصنف کے بارے میں