غافلین اور ذاکرین!!

غافلین اور ذاکرین!!

چیزیں ضدین سے پہچانی جاتی ہیں۔ وحدت کثرت سے پہچان لی جاتی ہے، ظلمت سے نور کی طرف قدم بڑھائے جا سکتے ہیں، معصیت سے مغفرت کی یاد دلائی جا سکتی ہے— فنا بقا کا احساس دلاتی ہے— اور بشریت کو اس نے اپنی پہچان کا ذریعہ بنا دیا ہے۔ احترام ِ آدمیت کرنے والے جانتے ہیں کہ آدم کا بنانے والا اِس اَمر سے راضی ہوتا ہے۔ اِنسان سے اُنس رکھنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ اِنسان کے خالق سے محبت کی طرف قدم بڑھانے کا طریقہ یہی ہے۔ جسے ہم دوئی سمجھتے ہیں، درحقیقت یہ وحدیت کی تفہیم کا ایک طریق ہے۔ مجاز اور حقیقت میں دوئی بھی اس طرح ختم ہو جاتی ہے کہ مجاز حقیقت کا راستہ دکھا دیتا ہے۔
قرآنی اصطلاح میں دیکھیں تو غافلین کا متضاد ذاکرین ہے، یعنی ذکر غفلت کو کافور کر دیتا ہے اور ذکر سے غفلت غافلین میں شامل کر دیتی ہے۔ جس سطح کا ذکر ہو گا اسی سطح کی غفلت دور ہو گی۔ ذکر یاد ہے— اور یاد روح کا سفر ہے۔ یاد اور ذکر بنیادی طور پر محبت کے شعبے ہیں۔ دل میں محبت کا جوہر موجود نہ ہو تو کیا یاد اور کیا ذکر— یہ سب افعال میکانکی ہو جاتے ہیں۔ کمپیوٹر اور طوطا میکانکی اعتبار سے شاید زیادہ ’’ذکر‘‘ کر لیتے ہوں گے۔ بات واضح ہوئی کہ ذکر اور یاد قالب سے زیادہ قلب کے اعمال ہیں۔ قلب کا منقلب ہونا اصل انقلاب ہے۔ قلب میں انقلاب برپا ہو گیا تو پورا وجود مشرف بہ ایمان ہو گیا۔ یہ تبدیلی قول اور قالب کی حد تک رہے تو آدمی صرف مشرف بہ اسلام ہوتا ہے۔ یاد اور ذکر کا درجہ جیسے جیسے قالب سے عروج کرتا ہوا قلب کے اطباق تک پہنچتا ہے، کلمہ گو کا درجہِ ایمان بلند سے بلند تر ہوتا جاتا ہے۔ محبوب کی یاد کا سورج جونہی شعور کے افق پر طلوع ہوتا ہے، محب کا خاکی وجود ظلمت سے نکل کر نور میں داخل ہو جاتا ہے۔ یہاں نور، نورِ معرفت ہے، اور ظلمت، عدم معرفت— یعنی پہچان کا تعلق بھی یاد اور ذکر سے عبارت ہے۔
عجب راز ہے، پہچان چہرے کی ہوتی ہے۔ چہرہ ہی یاد اور ذکر کا موجب بنتا ہے۔ ایک وقت تھا جب صرف چہرہ تھا، لیکن اسے کوئی پہچاننے والا نہ تھا، اسے چاہت ہوئی کہ وہ پہچانا جائے، یہ چاہت آئینے کی تخلیق کا باعث ہوئی، سرِ آئینہ عکس مبعوث ہوا۔ عکس پیدا نہیں ہوتا— بس ہوتا ہے، اور اس کا ہونے میں کوئی وقت نہیں لگتا ہے، یعنی وقت کی پیدائش سے پہلے عکس نمودار ہو سکتا ہے۔ خالق نے اپنے عکس کو دیکھا اور عکس نے بھی اپنے خالق کو دیکھا۔ مخلوق کی 
رسائی صرف عکس کی رعنائی تک ہے۔ ویبقیٰ وجہہ ربک ذوالجلالِ والاکرام۔
جیسے پہلے ذکر ہوا کہ یاد روح کا سفر ہے۔ روح وحدت میں ہے۔ کثرت سے شعورِ وحدت میں پہنچنے کے لیے یاد کی سواری درکار ہے۔ وحدت کے قلزم سے نکلا ہوا بے نام و نشان قطرہ، کثرت اور کثافت میں گم ہو گیا ہے، اس کے خانہ یادداشت سے نسیان کی دھول صاف کرنے کے لیے ذکر سے زیادہ مجرب کوئی نسخہ نہیں۔ قطرے کی یاد جونہی اپنے مرکز و منبع کی طرف منعطف ہوتی ہے، اس کا سفر سوئے قلزم شروع ہو جاتا ہے۔ قطرے اور قلزم کی وحدتِ ثانیہ ہی مدعائے سفر ٹھہرتا ہے۔ یہی اس کی نشاط اور نشاۃ ِ ثانیہ ہے!!
اگر فکر کی توجہ کثرت کی طرف ہو جائے تو ذکر مفقود ہو جاتا ہے، یاد فراموش ہو جاتی ہے اور انسان غافلین میں شمار ہونے لگتا ہے۔ خیال کا رُخ وحدت کی طرف ہو جائے تو ہر دم یاد اور ذکر سے منور ہو جاتا ہے۔ اسی لیے خیال پر توجہ دینے کا حکم ہے، خیال کی نگہبانی کرنے کا بار بار ذکر کیا جاتا ہے۔ خیال کی دولت پر سب دولتیں قربان کی جاتی ہیں۔ دولت کثرت کی علامت ہے، کثرت میں گم ہونے والا یاد گم کر بیٹھتا ہے۔ انسان خود سے غافل ہو گیا تو سمجھیں خدا سے غافل ہو گیا۔ یاد کے مسافر کے لیے ’’جو دم غافل سو دم کافر‘‘ کی وعید ہے۔ ہماری عبادت ذکر سے عبارت ہے۔ نماز کی غایت بھی ذکر بتائی گئی ہے۔ حکم ہے، میرے ذکر کے لیے نماز قائم کرو۔ ’’اقم الصّلوٰۃ لذکری‘‘
گویا ذکر ہی وہ ذریعہ ہے جو مسافرِ حق کو واصلِ حق کرتا ہے۔ ذکر اور فکر ہمنوا ہو جائیں تو سفر آسان ہو جاتا ہے۔ جہاں ذکر خاموش ہو، وہاں فکر طاری ہو جاتا ہے اور جہاں فکر دم توڑ دے، وہاں ذکر جاری ہو جاتا ہے۔ درحقیقت فکر ایک خاموش ذکر ہے، اور ذکر کی حقیقت فکرِ جلی کی سی ہے۔ جیسے جیسے ہمارا فکر بلند ہوتا ہے، ذکر کی ضرورت بڑھتی چلی جاتی ہے۔ ذکر، فکر کو بے ربط نہیں ہونے دیتا، اور فکر، ذکر کو میکانکی نہیں ہونے دیتا۔ جیسے جیسے شعور بلند ہوتا ہے، ذکر کا معیار بڑھتا جاتا ہے۔ ایک صاحب ِ فکر کی زبان سے نکلا ہوا کلمہ شکر ’’الحمد للہ‘‘ کبھی بھی جاہل کے پڑھے ہوئے کے برابر نہیں ہوتا۔ تعریف کو حمد میں بدلنے والا عمل انگیز فکر ہے۔ تعریف بیان کرنے کے لیے تعارف کا ہونا ضروری ہے۔ حمد وہ تعریف ہے جس میں معرفت شاملِ حال ہے۔
معصیت غفلت کا نتیجہ ہے۔ ذاکر جب اپنے ذکر سے غافل ہوتا ہے تو اسے معصیت آن دبوچتی ہے۔ معصیت کی مصیبت میں گرفتارِ بلا یاد اور ذکر بھول چکا ہوتا ہے۔ جب تک وہ توبہ کا یوٹرن نہ لے لے، اسے واپس اپنے ذکر تک رسائی نہیں ملتی۔ معصیت کے گڑھے سے نکلنے کی کمند ذکر ہے۔ شر کے شیطانی چکر vicious circle سے نکلنے کا راستہ ذکر ہے۔ اگر اپنے لمحاتِ فرصت کو ذکر سے منور کرنے کی سعی نہ کی جائے تو فرصت کے سارے اوقات ضائع ہو جاتے ہیں۔ ذکر — حفاظتی حصار ہے، شیطانی قوتیں اس حصار میں داخل نہیں ہو سکتیں۔ جب ذاکر اپنے ذکر سے غافل ہوتا ہے تو یہ حصار ٹوٹ جاتا ہے۔
ذاکر اور مذکور کا تعلق بذریہ ذکر ہے۔ ذکر بھول جائے تو تعلق کے تقاضے بھول جاتے ہیں۔ تعلق کا تقاضا محض اطاعت ہی نہیں، بلکہ یاد، ذکر اور محبت بھی ہے۔ ذکر و فکر کا ہما جس کے سر پر بیٹھ جاتا ہے، وہ قلب پر نظریں جمائے اپنے سلطان کی یاد میں مراقب ہو جاتا ہے۔ مرشدِ خیال حضرت واصف علی واصفؒ کا ایک فکر انگیز شعر ہے:
اپنے مالک سے تعلق کی نئی راہیں بھی ڈھونڈ
صرف سجدوں ہی سے روشن اپنی پیشانی نہ کر
شریعت ذکر کو محفوظ کرنے کی ایک موثر ڈھال ہے۔ فقراء نے شریعت کو ایک قلعہ قرار دیا ہے۔ جب تک سپاہی قلعے کے اندر ہوتا ہے، اپنے کھلے دشمن کے تیر و تفنگ سے محفوظ ہوتا ہے۔ اپنے قلعے کا مورچہ چھوڑنے والا اغوا ہو جاتا ہے، یا پھر ہوا و ہوس کی اندھی گولی کا شکار ہو جاتا ہے۔ طریقت کا سارا راستہ شریعت کے اندر ہی طے ہو جاتا ہے۔ طریقت شریعت کا باطن ہی تو ہے۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ کا قول ہے ’’شریعت باالمحبت کا نام طریقت ہے‘‘ یعنی احکاماتِ خداوندی کو محبت اور شوق سے بجا لانے کا طریق طریقت ہے۔
شارعِ شریعت، محسن انسانیت، خاتم النبیینﷺ کل انسانیت کے لیے ظاہر و باطن کی شفا کا نسخہ لے کر آئے۔ مدینۃ العلمؐ میں ظاہری اور باطنی سب علوم موجود اور محفوظ ہیں۔ یہ طالب کی طلب ہے کہ وہ اپنے لیے کہاں تک طلب کرتا ہے۔ ظاہر کا خوگر لفظ کی حد تک محدود رہتا ہے، باطن کا ذوق و شوق رکھنے والا الفاظ کے پردے میں نہاں معانی تک پہنچتا ہے، اور باطن در باطن صفات کی وادی سے گزر کر جلوہ ِذات تک رسائی پاتا ہے۔ جہانِ معانی میں دُوئی کا پردہ اُٹھ جاتا ہے— یکسوئی اور یکتائی میں گم خود کو پا لیتا ہے— اور خود کو پانا ہی خدا کو پانا ثابت ہو جاتا ہے ’’ — من عرف نفسہ فقد عرف ربہ‘‘۔

مصنف کے بارے میں