چودھری پرویز الٰہی کا 'Absolutely Not'

چودھری پرویز الٰہی کا 'Absolutely Not'

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے امریکہ بہادر کو کیا 'Absolutely Not' کہنا تھا خود وزیر اعلیٰ پنجاب نے خان صاحب کو Absolutely Not' ' کہہ کر چلتا کردیا۔یقینا عمران خان اور انکی کچن کیبنٹ  پرویز الٰہی کے اس صاف دیدہ رویے پر حیران و ششدر ہونے کے ساتھ سخت سیخ پا بھی ہونگے۔ یعنی 
باغباں نے آگ دی جب آشیانے کومیرے
جن پر تکیہ تھا وہ پتے ہوادینے لگے 
عمران خان نے وزیر اعظم شہباز شریف، وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ اور میجر جنرل فیصل کے خلاف کیا مقدمہ درج کرانا تھا وہ تو خود اپنا نام ایف آئی آرکے خانہ ِ مدعی میں بھی درج نہ کراسکے۔یعنی نہ صرف مقدمہ ریاست کی جانب سے درج کیا گیا بلکہ اس میں وہ تینوں نام بھی شامل نہ کیے گئے جن کے حوالے سے عمران خان بضد تھے کہ انہیں ہر صورت ایف آئی آر میں شامل کیا جائے۔
اب سوچنے والی بات یہ ہے کہ جو لیڈر پنجاب میں اپنی حکومت ہونے کے باوجود اپنا مقدمہ درج نہیں کرا سکا وہ عوام کے مسائل کیسے حل کرسکے گا۔ ویسے اس صورت حال کے پیچھے کوئی بھی ہو، بظاہر اس کا سارا کریڈٹ چوہدری پرویز الٰہی کو جاتا ہے۔پرویز الٰہی بڑی مہارت سے وکٹ کے دونوں جانب کھیل رہے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی ثابت کردیا ہے کہ وہ ضرورت پڑنے پر کسی کو بھی سر آنکھوں پر اُٹھا سکتے ہیں۔ وقت پڑنے پر انہوں نے مقتدر حلقوں کو یہ پوری طرح باور کرا دیا ہے کہ وہ ان کے وفادار تھے، ہیں اور رہیں گے۔ خواہش بس اتنی سی ہے کہ 
ان حلقوں کی نظر ِکرم ان پر بدستور رہنی چاہئے۔ قبل ازیں انہوں نے چند سیٹوں کے ساتھ عمران خان کو وفا شعاری کی وہ 'فلم' دکھائی کہ خان صاحب جو کبھی چوہدری پرویز الٰہی کو پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو قرار دیتے ہوئے نہیں تھکتے تھے،وہ خود انکی زلف کے اسیر ہو گئے۔ لیکن کیا کریں۔ اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چُگ گئیں کھیت۔
واقفان ِحال بتاتے ہیں کہ پہلی تلخ کلامی پنجاب کابینہ کے اجلاس میں ہوئی جب تمام وزراء کی جانب سے بولا گیا آپ FIR کیوں درج نہیں ہونے دے رہے تو پرویز الٰہی بولے' یار تم سب کو کیا ہو گیا ہے میں کیسے ایک سرونگ میجر جنرل کہ خلاف FIR کاٹنے کا حکم دے سکتا ہوں۔ دیکھو! سب حوصلے سے میری بات سنو، حملہ آور کو ہم پکڑ چکے ہیں، اسکی پوری فیملی کو اٹھا لیا ہے۔ جس نے اسلحہ بیچا، انکو بھی پکڑ چکے ہیں۔ اس پرکچھ وزراء کا موقف تھا کہ ٹھیک ہے اگر FIR نہیں کاٹنی تو پھر فوراً JIT تشکیل دیں۔ اس مطالبہ پر پرویز الٰہی نے جواب دیا کہ ایسا بھی ممکن نہیں۔ جب تک FIR درج نہ ہو تب تک JIT بھی نہیں بن سکتی، پہلے FIR درج ہو گی۔ پھر اسکے بعد کسی کا نام سامنے آتا ہے تو وہ ضمنی میں شامل کر لیا جائے گا۔  اس کے بعد عمران خان نے اپنے بھانجے زبیر نیازی کو بلایا اور سابقہ گورنرپنجاب اور موجودہ مشیر داخلہ عمر سرفراز چیمہ کو فون کیا اور بولے زبیر تمھارے شہر وزیرآباد آ رہا ہے اسکے ساتھ تھانے جاو اور فوراً FIR درج کرواؤ اور ساتھ زبیر نیازی کو 2 صفحوں کی درخواست بھی دی جس میں میجر جنرل فیصل نصیر''وزیراعظم اور وزیرداخلہ کا نام موجود تھا۔ جب زبیر نیازی کا بس نہ چلا توانہوں نے مشیر داخلہ عمر سرفراز چیمہ کو فون کیا لیکن انہوں نے فون ہی نہیں اٹھایا۔ زبیر نیازی نے اس پر برہم ہوکر عمران خان کو فون کر کے شکایت کی۔ عمران خان نے عمر سرفراز چیمہ سے رابطہ کر کے کہا کہ زبیر نیازی کی کال پک کرو وہ تمھارے شہر میں کھجل ہو رہا ہے۔ لگ بھگ تین گھنٹوں کے بعد عمر سرفراز چیمہ نے کال اٹھا ئی تو زبیر نیازی نے ان کو ڈانٹنا شروع کر دیا یہ کیسی ہماری حکومت ہے اور آپ کیسے مشیر داخلہ ہو جو ایک FIR نہیں کٹوا سکتے اور مجھے یہاں ذلیل ہونا پڑ رہا۔ فوراً استعفیٰ دو اور گھر جاؤ۔ عمر سرفراز چیمہ سب کچھ سنتے رہے اور بولے مجھے بس 5 منٹ دیں میں کچھ کرتا ہوں۔ زبیر نیازی نے 5 منٹ بعدجب عمر سرفراز چیمہ کو فون کیا تو وہ اپنا موبائل بند کر چکے تھے اور زبیر نیازی 5 گھنٹے پولیس سٹیشن میں خوار ہونے کے بعد ناکام واپس لوٹ۔ ایف آئی آر کے اندراج سے قبل چوہدری پرویز الٰہی نے عمران خان کوجو کسی بھی صورت میں پیچھے ہٹنے کو تیار نہ تھے،  اپنی مرضی کا ایس ایچ و تعینات کرکے ایف آئی آر درج کرنے کی آفر کی۔ایسے میں عمران خان کو جان لینا چاہیے کہ ان پر حملے کے بعد تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی نے چار گولیوں کے زخموں کو جانچنے کی کوشش کی تو پھر کیا بنے گا۔دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی بھی ہوسکتا ہے۔
واقفان حال بتاتے ہیں کہ بعض طاقتوروں اداروں میں اقتدار کی رسہ کشی ملک کی گلیوں اور چوراہوں پرپراکسی وار کی شکل میں لڑی جارہی ہے۔ آئندہ ایک ہفتہ انتہائی اہم ہے۔ ایک اہم تعیناتی سے قبل ملک کو ایک خاص انداز میں جلاؤ گھیراؤ کے ذریعے انتشار و ابتری کی جانب لیجایا جاسکتا ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ گورنر پنجاب بلیغ الرحمان نے واضح کردیا ہے کہ اگرصوبہ میں غیر معمولی حالات ہوئے تو گورنر راج کے آپشن پر بھی غور ہو سکتا ہے۔ 

مصنف کے بارے میں