سراج الحق کے نام

سراج الحق کے نام

میں جانتا ہوں جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سراج الحق ایک اچھے آدمی ہیں، وہ نہ مالی کرپٹ ہیں اور نہ ہی اخلاقی، مجھے یہ بھی یقین ہے کہ وہ پاکستان میں اسلامی اقدار کے تحفظ کے لئے نیک دلی سے کردارادا کرنا چاہتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ خواجہ سراؤں سے متعلق چار سال پرانے قانون پر اپنی پارٹی کے لوگوں کوجمع کر کے مال روڈ پر لے گئے، وہاں پر انہوں نے دھمکی دی کہ اگر یہ قانون واپس نہ لیا گیا تو وہ اسلام آباد کی طرف مارچ کریں گے۔ یہ درست ہے کہ پاکستان کو اس وقت شدید قسم کے مالی اور سیاسی بحرانوں کا سامنا ہے مگر سراج الحق صاحب شاید درست سوچ رہے ہوں کہ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ ٹرانس جینڈرز کو چار برس پہلے ملنے والے حقوق ہیں جن کا ،ان کے مطابق، مس یوز کرتے ہوئے مرد مردوں سے اور عورتیں عورتوں سے شادیاں کر رہی ہیں۔
میں اب ان کے اور ان کے فالورز کے ساتھ عقل، منطق ، حقائق اور اعداد وشمار پر مبنی کسی بحث میں جانا ہی نہیں چاہتا۔ میں نہیں پوچھنا چاہتا کہ کیا آپ یا آپ کے کسی ساتھی نے نادرا میں جا کے جنس کی تبدیلی کی بغیر کسی میڈیکل ہسٹری اور دستاویزات کے کوئی کوشش کی یا وہ سب کے سب اسی شخص کی طرح ٹرانس جینڈرز کے پیچھے بھاگ رہے ہیں جس طرح ایک شخص کو کسی نے کہا کہ تمہارا کان کتا لے گیا ہے اور وہ کان ٹٹولے بغیر ہی کتے کی تلاش میں لٹھ لے کر بھاگ نکلا تھا۔ میں ان سے کوئی خبر تک نہیں مانگتا کہ اب تک کتنے مردوں نے مردوں کے ساتھ اور کتنی عورتوں نے عورتوں کے ساتھ شادی کی اور اس وقت کہاں رہائش پذیر ہیں کیونکہ ہمارا معاشرہ تو اس کی ہرگز اجازت نہیں دے گاکہ ہمارے ہر محلے میں بہت سارے سراج الحق موجود ہیں جو الحمد للہ ایسی بے شرمی اور بے حیائی برداشت ہی نہیں کرسکتے۔ میں اس بحث میں بھی نہیں جاؤں گا کہ جب یہ قانون ڈیل ہی ٹرانس جینڈرز کو کرتا ہے تو پھر اس کا عام شہریوں پرا طلاق کیسے ہوسکتا ہے اور بہت سارے پڑھے لکھے سمجھدار ٹرانس جینڈرز کے مطابق، اس قانون کے تحت کسی مرد کے عورت یا کسی عورت کے مرد بننے کی گنجائش ہی نہیں، یہ تو صرف ان بے چاروں کے لئے ہے جن کی پیدائش کے وقت ظاہری علامات دیکھ کر ایک جنس جنم پرچی یا سکول وغیرہ میں لکھوا دی گئی اور بعد میں پتا چلا کہ ان کے ہارمونز میں گڑبڑ ہے لہٰذا ایک ایسا قانون ضروری تھا جو نادرا میں رجسٹریشن سے روزگار تک کے حصول میں ان کا معاون ہوتا، ان کو اس معاشرے میں تحفظ دیتا جو معاشرہ انہیں سوائے محرومی اور ذلت کے کچھ نہیںدیتا۔
میں نے بہت سارے خواجہ سراؤں سے بات کی، وہ پاکستان میں پیدا ہونے کے بعد پورے کے پورے مسلمان ہیں۔ وہ مسجدوں میں جانا اور نمازیں پڑھنا چاہتے ہیں مگر اسلام پسند ، نیک اور اچھے لوگ انہیں اپنے قریب دیکھنا نہیں چاہتے حالانکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار کی چابیاں اللہ کی اسی مخلوق کے پاس بیان کی جاتی ہیں۔ میں خواجہ سراؤں کے کردار کی گواہی نہیں دینا چاہتا مگر یہ اعتراف ضرور کرنا چاہتا ہوں کہ وہ آج جوکچھ بھی ہیں وہ صرف ہمارے معاشرے کی وجہ سے ہیں، اس کے مظالم کی وجہ سے ہیں۔ خواجہ سرا کہتے ہیں وہ جنس تبدیل کروانے والوں پر لعنت بھیجتے ہیں اور وہ بھی ہم جنس پرستی میں ایل جی بی ٹی جیسی تحریک کو سپورٹ نہیں کرنا چاہتے۔ میں اور جناب سراج الحق بھی یہی چاہتے ہیں کہ مغرب جس برائی کا شکار ہو رہا ہے وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی جغرافیائی حدود میں نہ آئے۔ ہم نے پاکستان اسی لئے بنایا تھا کہ یہاں پر اسلام کے قوانین کو نافذ کیا جاسکے، اسے اسلام کی ایک شاندار تجربہ گاہ بنایا جا سکے مگر میرے ساتھ محترم سراج الحق ضرور اتفاق کریں گے کہ خواجہ سراؤں کے حقوق کے تحفظ کے قانون کی تیسری شق کی وجہ سے ایک کنفیوژن پیدا ہو رہی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ اس کاسیلف ایزیومڈجینڈر کی بنیاد پر لوگ ہم جنس پرستی کر سکتے ہیں، ایل جی بی ٹی جیسی گندی تحریک یہاں بھی آ سکتی ہے تو میری ان سے ایک مؤدبانہ گزارش ہے کہ ٹرانس جینڈرز ایکٹ میں نہ تو مردوں کی مردوں سے شادیوں کا ذکر ہے اور نہ ہی عورتوں کی عورتوں سے شادیوںکا، اس میں ایل بی جی ٹی یعنی لیزبین، بائی سیکسوئل، گے اور ٹرانس جینڈرز کے وہ جنسی حقوق تو کیا نام تک درج نہیں جن کی وجہ سے ہمارے اسلام پسند اپنے ایمان کو شدید خطرے میں دیکھ رہے ہیں تو پھر کیوں نہ ہم اس قانون کو اس کے حال پر چھوڑ دیں جیسے ہم نے ٹرانس جینڈرز کو مانگنے اورناچنے کے لئے چھوڑا ہوا ہے، ان کی تعلیم ، صحت، عزت اور روزگار سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔ 
گذارش ہے کہ سراج الحق اور ان کے بہت ہی متحرک سینیٹر مشتاق صاحب ایک نیا بل کیوں نہیں متعارف کرواتے جس میں باقاعدہ پر اس پیرا گراف میں بیان کی گئی تمام برائیوں اور بیماریوں کا نام لے کے شافی علاج ہو۔ اس میں لکھا ہوا کہ پاکستان میں کوئی بندہ یا بندی ہم جنس پرستی نہیں کرسکتی، کوئی بندہ یا بندی اپنی ہی جنس کے بندے یا بندی کے ساتھ شادی نہیں کرسکتی، کوئی بندہ یا بندی ایل جی بی ٹی کے حق میں نہ تو بات کرسکتی ہے اور نہ ہی پروپیگنڈہ، نہ سوشل میڈیا پیج بنا سکتی ہے اور نہ ہی عملی طور پر کوئی تنظیم بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کے وہ نہ ہاسٹلوں میں جاری اس گندی روایت کو روکنے کے لئے اقدامات تجویز کریں اور اسے قابل دست اندازی پولیس جرم قرار دیں اور چونکہ وہ ہم جنس پرستی اور جنسی مظالم کے اتنے سخت خلاف ہیں کہ ٹرانس جینڈرز کے حقوق کے بل میں ان کا نام تک نہ ہونے کے باوجود اسے نکال لیتے ہیں، جیسے ایک عورت کسی کے گھر گئی تو وہاں کوئی دیہاتی مزدور دھوتی کرتا پہنے گھر کو رنگ کر رہا تھا، وہ سیڑھی پر چڑھا ہوا تھا، ہاتھ میں برش اور رنگ کی بالٹی تھی اور اپنے دھیان میں کام پر لگا ہوا تھاکہ اس عورت نے شور مچانا شروع کر دیا کہ یہ موا مردود فحاشی پھیلا رہا ہے ۔ گھر والے اکٹھے ہوگئے،اس محنت کش کی طرف دیکھا تو کچھ غلط نظر نہ آیا۔ اس عورت سے پوچھا کہ تمہیں فحاشی ، عریانی اور برائی کہاں سے نظر آئی تو وہ چیخ کر بولی، جہاں تم سب کھڑے ہو وہاں سے کب نظر آئے گی، گھوم کے ادھر آؤ، اس سیڑھی کے نیچے کھڑے ہو جس پر یہ کھڑا ہے،پورا سر اٹھا کے اوپر کی طرف دیکھو تو پھر پتا چلے گا کہ کتنی واہیاتی پھیلا ئی جار ہی ہے۔
سو محترم سراج الحق صاحب، آپ کو جو کچھ نظر آ رہا ہے ہے وہ مجھے نظر نہیں آ رہامگر میں نے شروع میں لکھا کہ میں آپ کی نیت اور ارادے پر سیاسی فائدے کے حصول کا گندا شک نہیں کرتا لہٰذا چاہتا ہوں کہ آپ ایک مکمل نیا بل لائیں اور اس میں وہ سب کچھ لکھیں جو خواجہ سراوں کے بل میں نہیں لکھاتاکہ اس پر پابندی لگے، ایسا کرنے والوں کو سزا ملے چاہے وہ خواجہ سرا ہوں، کوئی گمراہ لبرلز ہوں، کسی ہاسٹل میں گند کر رہے ہوں یا کسی مدرسے میں آپ کے ہی غریب، معصوم اور پیارے بچوں کو اپنی جنسی درندگی کا نشانہ بنا رہے ہوں۔ میں چاہوں گا کہ آپ ایک مکمل، واضح، جامع اورسزاؤں سے بھرا مسودہ قانون لا کے ایل بی جی ٹی جیسی گندی تحریک کا جڑ سے خاتمہ کر دیں، ایسے گندے کام کرنے والوں کے لئے عبرت ناک سزائیں تجویز کروا دیں جن گندے کاموں کا خواجہ سراؤں کے حقوق کے بل میں ذکر تک نہیں ہے۔