کرسی بچاؤ مہم

کرسی بچاؤ مہم

پاکستان کے قومی مسائل بری طرح نظر انداز ہو رہے ہیں۔حکومتیں اپنے اقتدار کو بچانے میں مصروف رہتی ہیں، اپوزیشن اقتدار کو حاصل کرنے میں ہمہ وقت سر گرداں دکھائی دیتی ہے جس کی وجہ سے اپوزیشن بھی مسائل کی جانب توجہ نہیں دے رہی ہوتی۔ میڈیا بھی حالات حاضرہ پر ہی تجزیے اور تبصرے دے رہا ہوتا ہے کیونکہ عوام بھی اسے سننا چاہ رہے ہوتے ہیں مگر اس وقت پاکستان جن اہم کرائسز سے دوچار ہے اُن پہ حکومتی سطح پہ اور نہ ہی اپوزیشن جماعتیں ڈسکس کرتی دکھائی دے رہی ہیں اور نہ ہی اُن پہ توجہ دی جا رہی ہے۔اگر ہم موجودہ صورتحال کا گہرائی سے موازنہ کریں تو یہ سب جماعتیں کرسی بچاؤ مہم میں مصروف ہیں۔ غریب دو وقت کی روٹی کو ترس رہا ہے۔ مہنگائی آسمانوں کو چھو رہی ہے ہر بار آئی ایم ایف کے آگے ہاتھ پھیلا یا جا رہا ہوتا ہے کوئی آج تک ایسا حکومتی سطح پہ پلان کبھی عمل میں نہیں آیا کہ یہ بات سوچی جا سکے کہ اس بار ہم آخری بار آئی ایم ایف کے پاس گئے ہیں۔ رواں سال کے پہلے ماہ پاکستان میں مہنگائی کی شرح 27.8%ریکارڈ کی گئی ہے جو کہ ملک کی 70سال بلند ترین سطح پہ ہے۔اس وقت عوامی سطح پہ اگر نظر دوڑائیں تو ہر دو شخص کے بعد 5لوگ بے روزگار ہیں، اور یہ شرح تیزی سے دن بدن بڑھ رہی ہے۔ اب بجلی اور گیس کے نرخوں میں جو 18فیصد کی مد میں اضافہ ہوا ہے اُس سے ہماری انڈسٹری خصوصاً بری طرح متاثر ہوئی ہے کیونکہ اس وقت مینوفیکچرر اسقدر پریشان ہیں کہ ہر نئے دن کے ساتھ خام مال کی قیمتوں میں روزانہ کی بنیاد سے اضافہ ہو رہا ہے۔اس ایک پوائنٹ پراڈکٹ کی قیمتوں میں بھی روزانہ کی بنیاد میں اضافہ ہوتا ہے جسکی وجہ سے مارکیٹ ڈسٹرب ہوتی ہے مجبوراً فیکٹری مالکان کو پراڈکٹ کی قیمتوں کو ریوائز کرنا پڑتا ہے اُس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بہت سے آڈرز کینسل بھی ہوجاتے ہیں جب فیکٹری مالکان کے پاس مزید آڈرز نہیں ہونگے تو کیسے وہ فیکٹریز کو چلائیں گے اور لیبر کا بوجھ اُٹھا سکیں گے
مجبوراً اُنہیں بہت سی لیبر کو فارغ کرنا پڑتا ہے۔ اس وقت مہنگائی کے ساتھ ساتھ یہ ایک اہم پوائنٹ ہے جس پہ حکومتی سطح پہ کسی بھی قسم کی پلاننگ وضع نہیں ہو رہی ہے اب جو شخص بے روزگار ہوتا ہے اُس پر نہ جانے کتنے گھر کے افراد انحصار کر رہے ہوتے ہیں یہ سب کسی پلان کا حصہ نہیں حکومتی سطح پہ بھی اس بات پہ کوئی توجہ نہیں بس منا بھائی لگے رہو، سب کرسی بچاؤ مہم میں مصروف ہیں۔ اگر پاکستان کی جمہوری تاریخ کا جائزہ لیں تو ہماری ملکی معیشت اعدادو شمار کے لحاظ سے اتار چڑھاؤ کا شکار ہی رہی ہے۔ اس صورتحال اور بحران کی زیادہ تر ذمہ داری ماضی اور حال کے حکمرانوں اور انکی ناقص منصوبہ بندیوں پر عائد ہوتی ہے۔مگر ہمیں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ ماضی میں کبھی قدرتی وباؤں، کبھی زلزلوں اور کبھی بدترین سیلابوں نے بھی ڈسٹرب کیا اس کے بھی منفی نتائج ملکی معیشت پہ پڑے مگر زیادہ جو چیز اثر انداز ہوئی وہ ہمارے سیاسی حکمرانوں کے غیر ذمہ دارانہ رویوں نے صورتحال اس نہج تک لا کھڑی کی ہے۔ ایک اہم مسئلہ سیاستدانوں کی طرف سے ملکی خزانے کی لوٹ مار اور اپنے اثاثوں کی بیرون ملک منتقلی ہے۔ میرا اُن تمام سیاستدانوں سے سوال ہے کہ کیا اُن کا ملک پہ بھروسہ نہیں جہاں وہ بڑے شوق سے حکمرانی کرتے ہیں؟ مزید یہ بات اگر کہوں تو غلط نہ ہوگی کہ ماضی میں حکمرانوں نے ایسے فیصلے لیے جو شاید قابل فہم نہ تھے۔مہنگی توانائی کا حصول،مہنگے پروجیکٹ جن میں کول پاور پلانٹ،رینٹل پاور اور اب فرنس آئل سے تیار کی جاتی ہے جن قوموں نے اپنے ملک و قوم کی ترقی کا سوچنا ہوتا ہے وہ سستی بجلی بنانے کی جانب جاتی ہیں ہمارے ہاں ہمیشہ اُن پراجیکٹ کا انتخاب کیا گیاجو مہنگے اور جس میں ان کا کمیشن اچھا بنتا دکھائی دیا ہو کبھی کسی نے پن بجلی کی جانب توجہ نہیں دی۔ بے جا بیرونی قرضے اور پبلک سیکٹر کرپشن کی زد میں رہنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ گزشتہ سال ملکی زرمبادلہ کے ذخائر 3ارب ڈالر رہ گئے تھے۔ 18ارب ڈالر کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ اور 49ارب ڈ الر کا تجارتی خسارہ اپنی جگہ قائم ہے۔بہت زیادہ معاشی اعدادو شمار اور نمبرز میں الجھے بغیر اگر پاکستان کی معیشت کو سمجھا جائے تو ایک بات واضح ہوتی ہے ہمیں ہمیشہ سے بیلنس آف پیمنٹ کے مسائل کا ہی سامنا رہا۔رواں سال ملک میں بجٹ کا خسارہ تقریباً 4ارب روپے ہے،اگر سادہ لفظوں میں بیان کروں تو حکومتی اخراجات اور آمدن میں 4ارب روپے کا فرق ہے۔ جہاں ملک کو اتنے بیشمار چیلنجز کا سامنا ہے وہاں حکومت میں بیٹھے تمام لوگ آڈیو لیکس، ویڈیو لیکس اور عمران خان کو پکڑنے کی فکر میں لگے ہیں۔ان مسائل کو کس نے حل کرنا ہے سب بے خبر ہیں۔ دو روز پہلے جو لاہور کی سڑکیں میدان جنگ بنی ہوئی تھیں اس طرح کارکنان اور پولیس کے بیچ تصادم نہایت ہی شرمناک بات ہے آخر ہم بین الاقوامی سطح پہ کیا پیغام دے رہے ہیں۔ کہتے ہیں دُنیا مکافات عمل ہے اور تاریخ سب کچھ دہراتی ہے جیسا بوؤ گے ویسا کاٹو گے میں یہ بھی یاد دلانا چاہوں گی کس طرح سے ٹی ایل پی کے پر امن احتجاج کو خونی احتجاج میں بدلا گیا تھا تب عمران خان کی ہی حکومت تھی، اُس وقت بھی فرعونیت اپنے عروج پہ تھی،میں یہ بات اس لیے بیان کر رہی ہوں کہ جس کے پاس بھی اقتدار کی طاقت آتی ہے وہ اُس کا بے جا استعمال کرتا چلا آرہا ہے۔ آخر یہ جمہوریت کتنے بیٹوں کو نگلے گی،کتنی ماؤں کی گودیں ویران ہونگی۔اب اس بات کو یہیں پہ روک دیا جائے۔کارکن پی ٹی آئی کا شہید ہو،ٹی ایل پی کا،یا (ن)لیگ کا ہیں تو سب پاکستانی ہیں یہ کیسی جمہوریت ہے جس میں بولنے کی آزادی نہیں اور یوں ماؤں کے بیٹوں کو گاجر اور مولیوں کی طرح آخر کب تک کاٹا جائے گا اقتدار کے نشے میں فرعونیت کو ختم کیا جائے۔ اگر میں صحافت کی بات کروں تو جو صحافی سچ بولے گا اُس کو بھی بے رحمی سے یوں شہید کر دیا جاتا ہے ابھی ہم ارشد شریف کو نہیں بھولے۔ اب تو صحافت میں بھی اُسی صحافی کو سُنا اور پڑھا جاتا ہے جو کسی پارٹی کے حق میں لکھتا اور بولتا ہو ورنہ بہت سے قابل لوگ ہیں جن کو لوگ سننا تو کیا اُن کو چینل پہ بھی بیٹھنے کی اجازت نہیں دی جاتی اب اس دوہرے معیار کو ختم کرنا چاہیے جب تک ہمارے ملک میں دوہرا معیار یونہی قائم رہے گا تب تک ہم کسی بھی سطح پہ خود کو منوا نہیں سکیں گے۔