اسلام آباد : چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ نیب نے اسلام آباد ہائیکورٹ سے عمران خان کو گرفتار کرکے توہین عدالت کی۔ ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ سپریم کورٹ نے عمران خان کو ایک گھنٹے میں پیش کرنے کا حکم دے دیا ہے جس کے بعد پولیس ٹیم انہیں لے کر سپریم کورٹ پہنچ گئی ہے۔ چیف جسٹس نے عمران خان کو روسٹر م پر بلایا اور ان کی گرفتاری غیر قانونی قرار دے دی۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ آپ کی گرفتاری غیر قانونی ہے۔ آپ کو دیکھ کر خوشی ہو رہی ہے۔ ہم آپ کو سننا چاہتے ہیں ہمیں کچھ بتائیں۔ عدالت نے عمران خان کو دوبارہ اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کرنے کی ہدایت کردی۔ ہائیکورٹ جو فیصلہ کرے وہ آپ کو ماننا ہوگا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کل کیس کی سماعت کرے ۔ آپ کل ہائیکورٹ میں پیش ہوں ۔عدالت نے انہیں فوری رہا کرنے کا حکم دے دیا ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہماری خواہش ہے کہ آپ پرتشدد مظاہروں کی مذمت کریں۔ عدالت کو کچھ خدشات ہیں۔آپ کو پرتشدد مظاہروں کا علم ہوا ہوگا۔ یہ شاید سیاسی عمل کا حصہ ہے لیکن امن بحال کرنا ہوگا۔ امن بحال ہوگا تو آئینی مشینری کام کرسکے گی۔
عمران خان نے چیف جسٹس کو بتایا کہ مجھے ڈنڈے مارے گئےایسا تو کسی کرمنل کے ساتھ بھی نہیں ہوتا۔مجھے ہائیکورٹ سے اغوا کیا گیا۔ پرتشدد واقعات کے بارے میں مجھے کچھ علم نہیں ۔ابھی تک نہیں پتا کیا ہوا نہ مجھے بتایا گیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اب سارا عمل واپس ہوگا۔ جہاں سے آپ بائیومیٹرک کر ارہے تھے۔ عمران خان کو پولیس گیسٹ ہاؤس میں رکھیں اور 10 افراد کو ان سے ملنے دیں اس پر عمران خان نے چیف جسٹس کو کہا کہ مجھے بنی گالا جانے دیں۔
قبل ازیں عمران خان کی گرفتاری کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست کی سماعت ہوئی ۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی ۔
چیف جسٹس نے دوران سماعت ریمارکس دیے کہ نیب نے عدالت کی توہین کی ہے۔ اگر 80 سے 100 لوگ آئیں گے تو عدالت کا کیا ہوگاَ؟ کسی کو ہائیکورٹ، سپریم کورٹ یا احتساب عدالت سے گرفتار نہیں کیا جا سکتا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ہائیکورٹ کے تقدس کے معاملہ بھی سپریم کورٹ دیکھی گی ۔ ہر شہری کو انصاف تک رسائی کا حق حاصل ہے۔ نیب نے قانون کیوں ہاتھ میں لیاِ؟ اگر ا یسے گرفتاریاں ہوئی تو کوئی مستقبل میں عدالت پر اعتبار نہیں کرے گا۔
چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے کہ نیب وارنٹ کی قانونی حیثیت نہیں اس کی تعمیل کا جا ئزہ لیں گے ۔ عمران خان کی گرفتاری سے عدالت کا وقار مجروح کیا گیا۔ عمران خان کی گرفتاری کے بعد جوہوا اسے رکنا چاہیئے تھا۔ میانوالی ضلعی عدلیہ پر حملہ ہوا۔ معلوم کریں میانوالی ضلعی عدلیہ پر حملہ کس نے کیا؟
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سیاسی حالات کی وجہ سے جو کچھ ملک میں ہورہا ہے وہ افسوس ناک ہے۔جب ایک شخص نے عدالت میں سرنڈر کردیا تو اسے کوئی گرفتار نہیں کر سکتا۔نیب کئی سال سے مختلف افراد کے ساتھ یہ ہی حرکتیں کررہا ہے۔سیاسی قیادت کی عدالت پیشی پر اچھے رویہ کی توقع کر تےہیں۔
چیف جسٹس نے عمران خان کو ساڑھے چار بجے تک پیش کرنے کا حکم دیا۔ اور کہا کہ کارکنوں کو عدالت آنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ عمران خان کے علاوہ کسی غیر متعلقہ شخص کو اندر آنے کی اجازت نہیں ۔ جو لوگ کمرہ عدالت میں موجود ہیں ان کے علاوہ اندر کوئی نہیں آسکتا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عمران خان پیش ہو کراپنے فالورز سے کہیں گے کہ کسی نجی یا سرکاری املاک کو نقصان نہ پہنچایا جائے۔