معیشت میں درستی کے اشاریے

معیشت میں درستی کے اشاریے

کیا خوب ریورس گیئر لگا ڈالر کو کہ اب اوپن مارکیٹ میں دو سو بارہ روپے کے گرد گھوم رہا ہے۔ جبکہ آئندہ آنے والے دنوں میں مزید نیچے آنے کے امکانات روشن ہیں۔ یعنی پاکستان کی معیشت میں بہتری کے امکانات پیدا ہونے کے اشارے سامنے آ رہے ہیں اور یہ بھی نظر آ رہا ہے کہ وزیراعظم میاں شہباز شریف کی معاشی ٹیم متحرک انداز میں کام کر رہی ہے اور اس کے اہداف واضح ہیں اور سمت بھی درست ہے۔ یوں اگر ملک میں سیاسی استحکام پیدا ہو گیا اور عالمی مالیاتی اداروں کی عملی مدد اور دوست ملکوں کا تعاون ملنے میں کامیابی ہوئی تو صورتحال خاصی بہتر ہو جائے گی۔ وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کی سربراہی میں گزشتہ روز کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کا بھی اہم اجلاس ہوا ہے۔ اس اجلاس میں گندم کی درآمد کے حوالے سے ہونے والی پیش رفت کا جائزہ لیا گیا۔ اجلاس میں وزارت نیشنل فوڈ سکیورٹی اینڈ ریسرچ نے روس سے جی ٹو جی کی بنیاد پر گندم کی فراہمی کی سمری پیش کی جس میں بتایا گیا کہ 28 مئی 2022 کو گندم کی درآمد کے لیے وفاقی کابینہ نے ای سی سی کے فیصلے کی توثیق کی تھی۔ اس کے بعد ٹی سی پی نے جی ٹو جی کی بنیاد پر روس سے گندم کی درآمد کا عمل شروع کیا۔ 8 جون  2022 کو ایم او یو پر دستخط ہوئے، ابتدائی طور پر روسی حکومت نے گندم کی قیمت 410 ڈالر فی میٹرک ٹن پیش کی، درآمدی گندم کی قیمت کے معاملے پر روسی سفارتخانے کے ساتھ بات چیت کے لیے وزیراعظم کے مشیر برائے امور خارجہ طارق فاطمی کی سربراہی میں  ایک کمیٹی تشکیل دی گئی، دریں اثنا، روسی وفد نے وزیر تجارت سے ملاقات کی اور گندم کی قیمت میں 405 ڈالر فی میٹرک ٹن تک کمی کی پیشکش کی۔ بعد میں قیمت مزید کم کر کے 400 ڈالر فی میٹرک ٹن کر دی گئی، وزارت تجارت کی تجویز پر وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق نے روس کی سرکاری کمپنی کی جانب سے 399.50 ڈالر فی میٹرک ٹن کی قیمت پر ایک لاکھ بیس ہزار میٹرک ٹن گندم کی خریداری کے لیے جی ٹو جی کی بنیاد پر کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کی منظوری کے لیے سمری پیش کر دی ہے، ای سی سی کے اجلاس میں دیکھا گیا کہ عالمی منڈی میں گندم کی قیمت میں کمی کا رجحان ہے جو آنے والے دنوں میں مزید کم ہو سکتا ہے اس لیے یہ فیصلہ کیا گیا کہ روسی فریق کو 390 امریکی ڈالر کی قیمت کی پیشکش کی جا سکتی ہے اور اگر وہ پیشکش قبول نہیں کرتے تو ٹینڈر منسوخ کیا جا سکتا ہے۔ معیشت سے متعلق اچھی اطلاعات کی وجہ سے کرنسی مارکیٹ میں روپے کی پوزیشن مستحکم ہوئی ہے۔ کرنسی مارکیٹ ذرائع کے حوالے سے میڈیا کا کہنا ہے آنے والے دنوں میں آئی ایم ایف سے قرض پروگرام کی باضابطہ منظوری اور قسط کے اجرا کے بعد اور دوست ممالک اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں کی جانب سے مالیاتی سپورٹ کے دروازے کھلنے سے ڈالر کی قدر 200 روپے سے بھی نیچے آنے کے امکانات ہیں اور انہی خدشات کے پیش نظر ایکسپورٹرز بھی اپنی زرمبادلہ کی برآمدی آمدنی کو مارکیٹ میں بھنانے کو ترجیح دے رہے ہیں۔
ادھر ایک اور اچھی خبر یہ ہے کہ سعودی عرب کے بعد یو اے ای نے بھی پاکستانی کمپنیوں میں پورٹ فولیو انویسٹمنٹ کرنے پر آمادگی ظاہر کی۔ میڈیا نے وزارت خزانہ کے ذرائع کا حوالہ دے کر بتایا ہے کہ ابتدئی طور پر یو اے ای پاکستان کے اقتصادی و مالیاتی اور انویسٹمنٹ سیکٹر کی مختلف کمپنیوں میں ایک ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا۔ دوسرے مرحلے میں مزید سرمایہ کاری ہو گی، اس اقدام سے ملکی سٹاک مارکیٹ میں بہتری اور شرح مبادلہ میں استحکام آئے گا، اس کے ساتھ ساتھ ملک میں اقتصادی سرگرمیوں میں تیزی اور روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ پاکستان اور ڈنمارک کے درمیان بھی فریم ورک معاہدے کے مسودے کی تیاری کے لیے آئندہ ہفتے اہم اجلاس منعقد کرنے پر اتفاق ہو گیا ہے۔ اس معاہدے کے تحت ڈنمارک پندرہ سال کی مدت کے لیے پاکستان کو 35 فیصد رعایت پر بلا سود قرضہ فراہم کرے گا۔ اس حوالے سے پاکستان میں ڈنمارک کی سفیر لیز روزن ہولم نے گزشتہ روز وفاقی وزیر برائے اقتصادی امور سردار ایاز صادق سے ملاقات کی ہے۔ علاوہ ازیں وزیر اقتصادی امور ایاز صادق اور ایشیائی ترقیاتی بینک کے کنٹری ڈائریکٹر کے درمیان ملاقات بھی ہوئی۔ وفاقی وزیر نے توانائی، ٹرانسپورٹ، زراعت اور قدرتی وسائل، مالیاتی پالیسی سازی، سمیت دیگر شعبوں میں ایشیائی ترقیاتی بینک کی کوششوں اور تعاون کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ ایشیائی ترقیاتی بینک زرعی اجناس میں ویلیو ایڈڈ اور مضبوط کولڈ چین انڈسٹری جیسے دیگر شعبوں میں بھی پاکستان کو تعاون فراہم کرے۔ یہ بھی اچھی پیش رفت ہے کیونکہ ڈنمارک یورپ کا اہم ملک ہے، اگر وہ پاکستان کے ساتھ کوئی معاہدہ کرتا ہے تو اس کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ ادھر سٹیٹ بینک آف پاکستان کے قائم مقام گورنر ڈاکٹر مرتضی سید نے کہا ہے کہ کیونکہ اس وقت افراط زر کی شرح 25 کے قریب ہے اور اس بات کے خدشات ہیں کہ شرح سود میں مزید اضافہ ہو گا لیکن حکومت پاکستان محض افراط زر کے تناسب سے شرح سود کا جواز پیش کرنے کے لیے معاشی سست روی کی طرف نہیں جائے گی یعنی فی الحال شرح سود میں مزید اضافہ نہیں ہو گا۔ وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ ہم نے یہ تخمینہ لگایا ہے کہ 3 ہزار روپے فی دکان سے انکم اور سیلزٹیکس عائد کیا جائے لیکن اس معاملے میں کچھ غلطی ہوئی کیونکہ ان دکانوں میں چھوٹے دکاندار بھی شامل کر لیے گئے تھے، پاکستان سٹاک ایکسچینج میں گونگ بجا کر کاروبار کے آغاز کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم نے درآمدات کو کم کیا جس ڈالر کی قیمت کم اور روپے کی قیمت میں اضافہ ہوا، چین سے قرض رول اوور ہو گئے ہیں دیگر ممالک سے بھی قرضے رول اوور ہو رہے ہیں۔ شعبہ زراعت اور برآمدات حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہیں، جلد ہی برآمدی شعبے کے لیے ترغیبی سکیم متعارف کرا دی جائے گی، رواں سال بجٹ خسارے پر قابو پانے کی حکمت عملی وضح کی گئی ہے کیونکہ پچھلے چار سال میں بجٹ خسارے کی اوسطاً مالیت 3500 ارب روپے رہی ہے، ملک کا ٹیکس برائے جی ڈی پی تناسب 9.2 فیصد ہے جسے بہتر بنانا ہے۔ بینکوں کے ایڈوانس ٹو ڈیپازٹ تناسب پر سپیشل ٹیکس سسٹم کو درست کر رہے ہیں اور یہ سپیشل ٹیکس پچھلے سال سے لاگو نہیں ہو گا، وزیر خزانہ نے کہا کہ آئندہ تین ماہ تک درآمدات میں اضافہ نہیں ہونے دیا جائے گا اور گاڑیوں سمیت دیگر غیر ضروری اشیا کی درآمدات پر پابندی عائد کی گئی ہے، پچھلے سال ملک میں 80 ارب ڈالر کی درآمدات اور 40 ارب ڈالر سے زائد کا تجارتی خسارہ ہوا، کوئی بھی ملک اتنے بڑے جاری کھاتوں کے خسارے کے ساتھ نہیں چل سکتا۔ بہرحال اس کے باوجود معیشت کے حوالے سے اچھی خبروں کا آنا مستقبل میں بہتری کی نوید ضرور کہی جا سکتی ہے۔ پاکستان بتدریج عالمی تنہائی سے باہر نکلتا نظر آ رہا ہے۔ امریکی انتظامیہ کے رویے میں بھی مثبت پہلو نمایاں نظر آ رہے ہیں جب کہ عوامی جمہوریہ چین بھی پُراعتماد نظر آتا ہے۔ اسی طرح یورپی یونین کے ممالک بھی لچک کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ ادھر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے بھی معاشی حوالے سے اچھے اشارے آ رہے ہیں۔ آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات بھی طے پا چکے ہیں اور جیسے ہی معاہدے پر دستخط ہوئے پاکستان کی معیشت میں مزید بہتری آئے گی اور روپے کی قدر مزید مستحکم ہوتی چلی جائے گی۔ پاکستان کو اس وقت سب سے زیادہ ضرورت مستحکم سیاسی حکومت کی ضرورت ہے۔ ملکی معیشت کو ترقی کے ٹریک پر لانے کے لیے سیاسی استحکام انتہائی ضروری چیز ہے۔ پاکستان کی سیاسی قیادت اور ریاست کے اہم سٹیک ہولڈرز پر یہ ذمے داری عائد ہو گی ہے کہ وہ معیشت کو ترجیح دیں اور سیاست کو مستحکم ہونے دیا جائے۔