پنجاب میں گورنر ر اج؟

پنجاب میں گورنر ر اج؟

چند دنوں  سے یہ افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ پنجاب میں گورنر راج لگ رہا ہے۔ یہ افواہیں ہیں یا پھر حقیقت اس کاماضی،موجودہ سیاسی صورت حال اورمستقبل کے لحاظ سے جائزہ لیتے ہیں۔ ماضی میں پی پی پی کی حکومت تھی اور پنجاب میں ن لیگ کی حکومت تھی تو پی پی پی نے ن لیگ کو کنٹرول کرنے کے لئے گورنر راج لگا دیا تھا لیکن عدالت نے اس کو ختم کر دیا تھا۔ اس وقت بھی یہ مسئلہ تھا کہ پنجاب کی بیوروکریسی کو کیسے کنٹرول کیا جائے تو اس کا حل اس وقت بھی گورنر راج ہی تھا۔ لیکن پی پی پی اس میں ناکام ہو گئی تھی۔ 
پی ٹی آئی کے دور حکومت میں سندھ میں کئی بار گورنر راج کی بات کی گئی لیکن وہاں لگ نہ سکا اس کی بہت سی وجوہات ہیں جسے ہم کسی اور وقت بیان کریں گے۔ اس سے پہلے بھی کئی بار پاکستان میں گورنر راج لگ چکا ہے اور سیاسی جماعتیں اس کو اپنے مفاد کے لئے استعمال کرتی ہیں۔ اس وقت پاکستان میں سیاسی صورت حال کچھ اچھی نہیں۔ جب سے عمران خان کو حکومت سے الگ کیا ہے اس نے ایک کے بعد ایک بیان بدلہ بھی ہے اور یوٹرن بھی لیا ہے۔ اس کے بیان بدلنے اور یوٹرن لینے کی عادت کوئی نئی نہیں۔ کبھی زبان پھسل جاتی ہے اور کبھی بات یاد نہیں رہتی۔ اب عمران خان نے لانگ مارچ کا اعلان کر دیا ہے لیکن تاریخ کا اعلان نہیں کیا۔ ماضی میں بھی عمران خان اور طاہر القادری مل کر لانگ مارچ کر چکے ہیں۔ 
میں اس 13اگست2014کوعمران خان کے  زمان پارک والے گھر میں ہی موجود تھی تو رات 11بجے کے قریب اندر کی بات سامنے آئی کہ اب امپائر عمران خان کے ساتھ نہیں رہے۔ میں نے بات کو اور جاننے کی کوشش کی تو پتہ چلا کہ بہت سے لوگ یہ بات کہہ رہے ہیں کہ اب لانگ مارچ نہ کیا جائے بلکہ مال روڑ پر جلسہ کر کے واپس لوگوں کو گھر جانے دیا جائے۔ لیکن عمران خان اور طاہر القادری لانگ مارچ کے حق میں تھے۔ جاوید ہاشمی نے عمران خان سے کہا کہ صرف جلسہ کرو اور لانگ مارچ کی تاریخ پھر دے دیتے ہیں لیکن عمران خان نہ مانا اور جاوید ہاشمی ناراض ہو کر واپس ملتان چلے گئے لیکن ان کو منانے کیلئے چند لوگوں کو کہا گیا۔ اس وقت پنجاب اور وفاق میں ن لیگ کی حکومت تھی انھوں نے ان کو اسلام آباد آنے سے نہیں روکا۔ اور دونوں اسلام آباد پہنچ گئے۔ 
اب صورتحال مختلف ہے وفاق میں ن لیگ کی حکومت ہے اور پنجاب میں ق لیگ کے پرویز الٰہی وزیراعلیٰ ہیں رانا ثناء اللہ یہ کہہ چکے ہیں کہ ہم ان کو اسلام آباد تو کیا لاہور سے ہی باہر نہیں آنے دیں گے۔ رانا صاحب نے یہ بات کہہ تو دی ہے لیکن اس پر عمل کرنا ناممکن سی بات ہو گی کیونکہ پنجاب پولیس وزیر اعلیٰ کا حکم مانے گی ناکہ وفاق کا۔ دوسری طرف عمران خان ابھی لانگ مارچ کا اعلان نہیں کریں گے اس کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں چند ایک یہ ہے کہ ملک میں مہنگائی بہت زیادہ ہے اور لوگ اپنا گھر چلائیں یا پھر لانگ مارچ پر جائیں، پارٹی کے اندر بھی بہت سے اختلافات ہیں اور بہت سے لوگ اس لانگ مارچ کے خلاف ہیں، عمران خان نے ہر ضلع سے لوگوں کی لسٹ مانگی ہے جو لانگ مارچ میں شرکت کریں گے وہ کام بھی ابھی تک پورا نہیں ہو سکا جس کی وجہ سے عمران خان کو اندازہ ہی نہیں کہ کتنے لوگ آسکتے ہیں۔تاریخ نادینے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ملک میں ابھی سیلاب کی تباہ کاریاں ہوئی ہیں اور اب سردی بھی شروع ہو چکی ہے۔ اسلام آباد کا موسم تو ویسے بھی ٹھنڈا ہوتا ہے۔ اس موسم میں عمران خان لانگ مارچ کا اعلان نہیں کریں گے۔ اب بات کرتے ہیں رانا صاحب کی ان کے پاس تین ہی راستے ہیں کہ اگر عمران خان لانگ مارچ کی تاریخ کا اعلان کر بھی دیتے ہیں تو پھر وہ تین راستے کون سے ہوں گے۔پہلے نمبر پر عمران خان کو گرفتار کر لیا جائے گاکیونکہ فارن فنڈنگ میں عمران خان کے خلاف مقدمہ درج ہو چکا ہے۔اگر وہ عمران خان کو گرفتار نہیں کرتے تو پھر اس لانگ مارچ کو روکنے کیلئے رانا صاحب کو فوج پنجاب میں لگانا پڑے گی کیونکہ وزیراعلیٰ کبھی پولیس کو پی ٹی آئی کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ تیسرا اور آخری حل وہ گورنر راج کا ہوگا۔ اگر ن لیگ گورنر راج لگا دیتی ہے تو پھر یہ جس طرح چاہیں گے پولیس کو پی ٹی آئی کے خلاف استعمال کر سکتے ہیں۔ اس طرح رانا صاحب پی ٹی آئی کو لاہور میں ہی روک سکتے ہیں۔
اس وقت دونوں جماعتیں ہی مشکل میں ہیں کوئی ابھی فیصلہ نہیں کر پا رہا کہ آگے ان لوگوں نے کیا کرنا ہے۔ لیکن ایک چیز تو واضح ہو چکی ہے کہ ن لیگ تب کوئی قدم اٹھائے گی جب عمران خان کوئی فیصلہ کر لیں گے اور اس وقت تک صرف بیان بازی ہی چلتی رہے گی۔

مصنف کے بارے میں