بڑی پیش رفت کے دعوے

بڑی پیش رفت کے دعوے

کسی دورمیں بھی امریکہ کی مشرقِ وسطیٰ میں دلچسپی کم نہیں ہوئی جس کی دوبڑی وجوہات ہیں اول تیل کی دولت سے مالا مال اِس خطے کو کنٹرول دوم اسرائیل کی مضبوطی اورسلامتی یقینی بنانا ہے کیونکہ اسرائیل جتنا مضبوط ہو گا زیادہ بہتر طریقے سے امریکی مفادات کا تحفظ ہو گااور یہاں کی کمزور ریاستوں پر خطرہ منڈلاتارہے گا اِن ریاستوں کا اپنے دفاع کے لیے امریکہ کی طرف دیکھنے پر مجبور ہونے سے ہی عربوں کے تیل کی دولت امریکی دسترس میں رہ سکتی ہے گزشتہ چند دہائیوں سے ایرانی خطرے کو اِس طرح بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیاہے جس کی بنا پر اسرائیل سے زیادہ سعودی عرب اور امارات اب ایران کواپنے لیے بڑا خطرہ تصور کرنے لگے ہیں خطے میں ایران کے انتہا پسند ملیشیا گروپوں سے کئی عرب ممالک خائف ہیں لیکن اِن گروپوں سے امریکہ کو براہ راست کوئی خطرہ نہیں البتہ میزائل ،مسلح ڈرون ودیگر ہتھیاروں کی تیاری اور ایران کی جوہری پیش رفت باعثِ تشویش سمجھتا ہے مگریہ کوئی ڈرامائی تبدیلی نہیں دنیا کے تمام ممالک ہی اپنے دفاع کو مضبوط بنانے پر وسائل کا بڑا حصہ خرچ کرنے میں مصروف ہیں پھر کیا وجہ ہے کہ خطے کی یہ تبدیلی امریکی دلچسپی بڑھارہی ہے ؟دراصل خطے میں اسرائیل کو کمتر خطرہ ثابت کرنا اور اُسے عرب ممالک کے خیرخواہ ملک کے طور پر پیش کرناہے حالانکہ روس اور چین بھرپورامریکی توجہ کے متقاضی ہیں پھر بھی اسرائیل کا دفاع اور سلامتی اُس کی اولیں ترجیحات میں شامل ہے اسی بناپر ایسے کوئی اشارے نہیں ملتے کہ اُس کی مشرقِ وسطیٰ میں دلچسپی کم ہورہی ہے بلکہ ریپبلکن ہوں یا ڈیموکریٹ صدور ،سب کی اِس خطے میں گہری دلچسپی کی وجہ تیل کی دولت اور اسرائیل ہیں۔
صدر بائیڈن نے اسرائیلی دورے کا آغاز کر دیا ہے اِس دوران غزہ جانے کا بھی اِرادہ رکھتے ہیں اور مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے نگران اسرائیلی وزیراعظم یائر لاپیڈ اور فلسطینی صدر محمود عباس سے مذاکرات کریں گے لیکن نئی یہودی بستیاں بسانے کے منصوبوں کی تائیدکے باوجود کیا وہ دونوں فریقوں کے لیے قابل قبول حل تلاش کر لیں گے ایسا ہونے کے کوئی آثار نہیں پھربھی اسرائیل کے متعلق گہری دلچسپی اور گرمجوشی دکھا رہے ہیں کیا یہ غیر اہم صورتحال ہے کہ طے شدہ نو ہینڈ شیک کووڈ پالیسی کو یکسر بھلا دیا جائے حالانکہ اسرائیل اُترنے پر ابتدا میں انہوں نے مصافحے یا معانقے سے پرہیزکیا نگران وزیرِ اعظم یائرلاپیڈنے ہاتھ بڑھایا تو جواب میں ہاتھ ملانے کے بجائے مٹھی ٹکراکر حیران کر دیا اور صدر آئزک ہرزوگ سے بھی کم وبیش ایسا ہی سلوک کیا لیکن دوسابق وزرائے اعظم بنجمن یاہواور نفتالی بینٹ سے ملاقاتوں کے دوران وہ سب کچھ بھلا کر مصافحہ کرنے لگے اِس کی وجہ یہ ہرگز نہیں کہ رواں برس نومبرمیں منعقد ہونے میں عام انتخابات کے بعد اِن میں سے کسی کے دوبارہ وزیرِ اعظم کا منصب سنبھالنے کے امکان کے پیشِ نظر انھوں نے ایسا کیا ہے بلکہ یہ اسرائیل سے اپنائیت کا اظہار ہے اور ہر امریکی انتظامیہ صیہونی ریاست سے خاص سلوک کرتی ہے جس میں دوستی سے زیادہ فیاضی،نوازش اور کچھ خاص ہونے کا تاثرہوتا ہے زیادہ دور نہ جائیں صرف 1985 کے بعد سے ہی فیاضی ،نوازش اور کچھ خاص ثابت کرنے کے لیے یہ کافی ہے کہ اسرائیل کو امریکہ نے سالانہ تین ارب ڈالر کی امداد دی ہے اسرائیل 
اِن برسوں کے دوران محتاط اندازے کے مطابق ایک کھرب چھیالیس ارب ڈالر کی امداد وصول کر چکا ہے یہ فیاضی اور نوازش فوجی امدادتک وسیع ہے 2019میں اسرائیل نے تین ارب اسی کروڑ ڈالر کی دفاعی امداد لی جبکہ آٹھ ارب ڈالر کے نرم شرائط پر امریکی قرضوں سے بھی استفادہ کرچکا ہے جس سے اِس امرکی بخوبی وضاحت ہوتی ہے کہ امریکہ کے لیے اسرائیل ایک ملک سے بڑھ کر ہے اسی لیے جو بھی جماعت اقتدار میں آئے اسرائیل کو حاصل خصوصی حیثیت کم یا ختم ہونے کے بجائے جوں کی توں رہتی ہے۔
امریکہ اِس وقت اسرائیل کو دشمن کے بجائے عرب ممالک کا ایسا دوست ثابت کرنے کی ایسی پالیسی پرعمل پیرا ہے کہ کسی بھی داخلی یا خارجی چیلنج کی صورت میں عرب ممالک مدد حاصل کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہ کریں اِس حوالے سے کافی پیش رفت ہو چکی ہے عرب ممالک اب اسرائیل کے بجائے ایران کودشمن ملک کے طور پر دیکھتے  ہیںیائر لاپیڈ اور بائیڈن کا ایران کو نیوکلیئر ہتھیاروں سے روکنے کے عہد نامے پر دستخط اسی سلسلے کی کڑی ہے جب 2016 میں جو بائیڈن نے بطور نائب صدر اسرائیل کا دورہ کیا تو صرف دومسلم ممالک اردن اور مصر کے اسرائیل سے سفارتی تعلقات تھے مگراب صورتحال بدل چکی ہے امریکہ کی طرف سے مسلسل سفارتی کوششوں اور اثررسوخ کی بنا پرآج حالات یہ ہیں کہ متحدہ عرب امارات ،مراکش اور بحرین سے بھی نہ صرف تعلقات معمول پر آچکے ہیں بلکہ کئی دفاعی ،تجارتی اور مشترکہ شراکت داری کے معاہدے بھی ہوگئے ہیں یہ خاصی غیر معمولی پیش رفت ہے اسرائیل کے بعد بائیڈن کے سعودی عرب جانے کے حوالے سے خطے میں بڑی پیش رفت کی قیاس آرائیاں جاری ہیں لیکن شایدسرِدست اسرائیل کو تسلیم کرنے کا سعودی عرب اعلان نہ کرسکے مگر دورے کے دوران ریاض کی طرف سے اسرائیلی نمائندے کو مدعو کرنے کا امکان بہرحال موجود ہے حالانکہ ایسی کسی تجویز کی سعودی قیادت تردید کرتی ہے مگر ایران کا خطرہ بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی بناپر اسرائیل اور سعودی عرب دوستی کے قریب آچکے ہیں اسرائیلی میڈیا میں کچھ عرصہ سے ایسی خبریں منظرِ عام پر آرہی ہیں کہ ماضی کے اِ ن دشمن ممالک میں بیک چینل مذاکرات جاری ہیں اسی بنا پر سعودی قیات کا لہجہ نرم محسوس ہو رہا ہے اِن خبروں پر یقین کرنے والے دلیل یہ دیتے ہیں کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے اور سفیروں کو تبادلہ کرنے سے سعودی قیادت چاہتی تو بحرین کو روک سکتی تھی لیکن اُس نے ایسا نہیں کیا سعودی عرب اور سرائیل دونوں ہی ایران سے جوہری معاہدہ بحال کرنے کی امریکی کوششوں کے خلاف ہیں ا یرانی خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے امریکی کوشش ہے کہ سعودی عرب اور اسرائیل اکٹھا  بٹھاکرکوئی مشترکہ لائحہ عمل بنانے پر رضامند کرایا جائے۔
فلسطین سے متعلق عرب ممالک کے دیرینہ موقف میںلچک بھی کوئی راز نہیں رہی فلسطینی ریاست کے قیام تک تعلقات قائم کرنے سے انکاری سعودی حکمرانوں کی سوچ میں تبدیلی اب ایک عیاں حقیقت ہے سعودیہ میں فلسطینی قیادت پر تنقید بھی ہونے لگی ہے تنقید کے دوران ناشکرے تک کہہ کر اپنی حکومت کو اسرائیل سے تعلقات معمول پر لانے کی تجاویز پیش کی جانے لگی ہیں سعودیہ نے پہلے ہی فضائی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت دے رکھی ہے اب اسرائیلی وزیر نے سعودیہ سے براہ راست پروازوں کی اجازت دینے کا مطالبہ کر دیا ہے تاکہ اسرائیلی مسلمان بھی مکہ کی زیارت کر سکیں لیکن یہ جو کسی بڑی پیش رفت کے دعوے کیے جارہے ہیں بادی النظر میں ابھی قبل ازوقت ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ سعودیہ کسی بھی اہم فیصلے سے قبل اہم مسلمان ممالک کوہر صورت اعتماد میں لینے کی کوشش کرے گا تاکہ اُس کی مسلم ممالک میں اہم حیثیت برقرار رہے دوم کسی بھی چیلنج کی صورت میں اسلامی ممالک کو ساتھ ملاکراوآئی سی سے متفقہ فیصلہ کرایا جاسکے لیکن عراق جہاں اسرائیل سے تعلقات کی بات کرنے کی صورت میں سزاکا قانون بن چکا ہے اور وہ ایران اور سعودیہ کے درمیان جاری جن مذاکرات میں سہولت کارہے کے متعلق ایرانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان ناصر کنعانی نے حوصلہ افزاکہہ کراِس حوالے سے پائی جانے والی تشویش کم کرنے کی کوشش کی ہے علاوہ ازیںپاکستان کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے کسی بھی فیصلے پر یہاں کے مذہبی طبقات ہیجان برپا کر سکتے ہیں الجزائر کی اسرائیل کے متعلق سخت گیر پالیسی میں کوئی کمی نہیں آئی اِس لیے بائیڈن کے حالیہ دورے کے دوران کسی بڑی پیش رفت کا مکان کم ہے البتہ مستقبل ایسا ممکن ہے کیونکہ  خطے کے کئی ایسے ممالک جن سے اسرائیل کے براہ راست تعلقات نہیں مگر امریکی سینٹرل کمانڈ میں وہ بھی اسرائیل کے ساتھ فوجی مشقوں میں شامل ہوتے ہیں اسی بناپرہم کہہ سکتے ہیں کہ کسی بڑی پیش رفت کا امکان زیادہ دور بھی نہیں۔

مصنف کے بارے میں