آئینی ترمیم کے بغیر فوجی عدالتوں میں ٹرائل نہیں ہوسکتا: عابد زبیری، لیاقت حسین کیس میں آئینی ترمیم کے بغیر ٹرائل ہوا: جسٹس اعجاز، فل کورٹ بنانے کی درخواست پھر مسترد

آئینی ترمیم کے بغیر فوجی عدالتوں میں ٹرائل نہیں ہوسکتا: عابد زبیری، لیاقت حسین کیس میں آئینی ترمیم کے بغیر ٹرائل ہوا: جسٹس اعجاز، فل کورٹ بنانے کی درخواست پھر مسترد
سورس: File

اسلام آباد: چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ فوجی حکام تحقیقات کرسکتے ہیں لیکن سویلینز کا ٹرائل نہیں کرسکتے ۔ چیف جسٹس نے وفاقی حکومت کی فل کورٹ بنانے کی درخواست ایک مرتبہ پھر مسترد کردی ہے۔ 

سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں سے متعلق خصوصی عدالتوں کیخلاف درخواستوں پر سماعت  جاری ہے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں چھ رکنی لارجر بینچ  سماعت کر رہا ہے۔لارجر بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر شامل ہیں۔جسٹس یحیی آفریدی، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی،جسٹس عائشہ ملک بینچ کا حصہ ہیں۔ 

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر عابد زبیری کے دلائل مکمل ہوگئے ہیں۔ اٹارنی جنرل عثمان منصور اعوان دلائل دے رہے ہیں۔  وفاقی حکومت نے گزشتہ روز تحریری جواب جمع کروایا۔وفاقی حکومت نے ایک بار پھر فل کورٹ بنانے کی استدعا کی ہے۔

عابد زبیری نے  اپنے دلائل میں کہا کہ میں نے اپنا جواب عدالت میں جمع کرا دیا ہے ۔پانچ نکات پر عدالت کی معاونت کروں گا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی رائے آنا اچھا ہوگا۔ 

عابد زبیری نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 83اے پر دلائل کا آغاز کروں گا۔1999کے فیصلے میں سپریم کورٹ کہہ چکی ہے کہ سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل نہیں ہوسکتا۔آرٹیکل 83Aکے تحت سویلینز کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں نہیں ہوسکتا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ  لیاقت حسین کیس میں آئینی ترمیم کے بغیر ہی ٹرائل کیا گیا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ  فوج سے اندرونی تعلق ہو گا تو کیا پھر بھی آئینی ترمیم کی ضرورت ہے؟ کیا آپ اپنے موقف کو خلاصہ میں بیان کرسکتے ہیں۔ اگر ملزمان کا تعلق ثابت ہوجائے تو پھر کیا ہوگا  ؟

عابد زبیری نے کہا کہ گزارش یہ ہے کہ موجودہ صورتحال میں یہ ٹرائل آئینی ترمیم سے ہی ممکن ہے۔نو مئی پر کچھ لوگوں پر آفیشل سیکرٹ ایکٹ لاگو ہوا کچھ پر نہیں ۔ اگر آپ نے خصوصی ٹرائل کرنا ہے تو آئینی ترمیم سے خصوصی عدالت بنانا ہی ہو گی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ خصوصی عدالت سے مراد آپ کی وہ عدالت ہے جو ہائیکورٹ کے ماتحت ہو۔

عابد زبیر ی کا مزید کہنا تھاکہ فوجی عدالتوں میں ٹرائل چلانے والے جوڈیشل نہیں۔ایگزیکٹیو ممبران ہوتے ہیں۔ ٹرائل کے بعد ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں جوڈیشل ری ویو ملنا چاہیے۔ اکسیویں آئینی ترمیم ایک خاص مدت کے لیے تھی۔ اکیسویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواستوں پر فیصلے میں عدالت نے جوڈیشل ریویو کی بات کی تھی۔ 

عابد زبیری  کا مزید کہنا تھا کہ بنیادی نقطہ یہ ہے کہ جو الزامات ہیں ان سے ملزمان کا تعلق کیسے جوڑا جائے گا۔اس معاملے پر عدالتوں کے فیصلے موجود ہیں ۔عدالتیں کہہ چکیں ملزمان کا براہِ راست تعلق ہو تو ہی فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہو سکتا ہے۔سوال ہے کہ کیا آئینی ترمیم کے بغیر سویلینز کا فوجی عدالتوں ٹرائل ہوسکتا ہے؟

جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ اپنا موقف واضح کریں کہ کیا ملزمان کا تعلق جوڑنا ٹرائل کےلیے کافی ہوگا؟کیا آئینی ترمیم کے بغیر سویلینز کا ٹرائل ہو ہی نہیں سکتا؟ سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل آئینی ترمیم کے بغیر نہیں ہوسکتا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں ملزمان کا تعلق ٹرائل کےلئے پہلی ضرورت ہے؟آپ کے مطابق تعلق جوڑنے اور آئینی ترمیم کے بعد ہی سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوسکتا ہے ۔ 

عابد زبیری نے مزید کہا کہ آرٹیکل 175/9 کے تحت سویلنز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کےلئے ترمیم ضروری ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر ملزمان کا اندرون تعلق ثابت ہوجائےتو کیا ہوگا۔عابد زبیری نے جواب دیا کہ    ہمیں معلوم نہیں کہ ملزمان کے فوجی عدالتوں میں مقدمات چلانے کا پیمانہ کیا ہے ۔فوجی عدالتوں میں مقدمات سننے والے جوڈیشل کی بجائےایگزیکٹو ممبران ہوتے ہیں ۔21ویں اور 23ویں ترامیم خاص مدت کےلئےتھیں ۔

مصنف کے بارے میں