جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صدارتی ریفرنس نظرثانی کیس,سپریم کورٹ میں جذباتی ماحول

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صدارتی ریفرنس نظرثانی کیس,سپریم کورٹ میں جذباتی ماحول
کیپشن: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صدارتی ریفرنس نظرثانی کیس میں جذباتی ماحول
سورس: file

اسلام آباد: پاکستان کی سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صدارتی ریفرنس نظر ثانی کیس میں جذباتی ماحول دیکھنےکو ملا ۔جہاں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور اُنکی اہلیہ بار بار دلائل کے دوران جذباتی ہوتے رہے وہیں بنچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے بھی جذباتی ہو کر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور اہلیہ سے نجی ملاقاتوں کا تذکرہ بھی کر دیا۔

سپریم کورٹ میں جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں د س رکنی بنچ کے سامنے سرینا عیسیٰ دلائل کے دوران بار بار جذباتی ہوتی رہیں۔ایک مرتبہ تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی آواز اُس وقت بھر آئی جب انھوں نے غیر معمولی بلند آواز میں کہا پاکستان بنانے والوں میں میرے والد شامل تھےاگر میں جھوٹا ہوں تو اللہ مجھے غرق کرے،میں جج کی کرسی کیلئے نہیں لڑ رہا، عاصم سلیم باجوہ کی بارہ کمپنیاں ہیں لیکن اس سے کوئی نہیں پوچھ رہا؟

جسٹس عمر عطا بندیال نےجسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا میں روزانہ اللہ سے دعا کرتا ہوں اللہ مجھ سے کسی کی دوستی یا دشمنی میں غلط فیصلہ نہ کرائے۔اللہ مجھے درست فیصلہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آپ جذباتی ہو سکتے ہیں تو کیا ہم جذباتی نہیں ہوسکتے،آپ نے ہمیں اتنی باتیں سنائی ہیں ۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا میں نے آپ کو باتیں نہیں سنائیں بلکہ حکومت کو سنائی ہیں میں معافی چاہتا ہوں۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا سیاسی باتیں کمرہ عدالت سے باہر جاکر کریں۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جواب دیا میں سیاست دان نہیں ہوں جو باہر جاکر بیان بازی کروں، اگر کوئی سوال پوچھنا ہے تو پوچھ لیں۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا میری آپ سے باہر ایک ملاقات ہوئی، اس ملاقات میں میں نے آپ سے کیا کہا تھا لیکن میں وہ بات نہیں بتاؤں گا ۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کمرہ عدالت سے باہر کی باتیں یہاں نہ کریں۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا بیگم صاحبہ سے پوچھیں میری ان سے ایک ملاقات ہوئی، اس ملاقات میں میں نے بیگم صاحبہ سے کیا کہا۔

سپریم کورٹ نے مستقبل کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے تین سوال پوچھ لیے۔پہلا سوال یہ پوچھا گیا ہے کہ کیا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اپنی اہلیہ کے بنک اکاؤنٹ سے مکمل لاتعلق ہیں؟دوسرے سوال میں پوچھا گیا بیرون ملک جائیدادیں خریدنے کیلئے جو رقم باہر بھیجی گئی کیا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا اس سے کوئی قانونی تعلق نہیں؟ سپریم کورٹ نے تیسرے سوال میں پوچھا کیا جائیداد کی خریداری کیلئے جو اخراجات کیے گئے انکا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے کوئی تعلق ہے؟ ۔

قبل ازیں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ سرینہ عیسیٰ نے دلائل میں کہامیرے بنک اور ٹیکس ریکارڈ کا جائزہ میرا شوہر تک نہیں لے سکتا،ایف بی آر کی رپورٹ میری اجازت کے بغیر سپریم کورٹ بھی نہیں دیکھ سکتی،میری اجازت کے بغیر میرا ٹیکس ریکارڈ سپریم جوڈیشل کونسل بھی نہیں دیکھ سکتی۔

انہوں نے کہا کہ ٹیکس ریکارڈ میرا اور ایف بی آر کا باہمی معاملہ ہے،آدھے سچ پر مبنی رپورٹ کا کچھ حصہ میڈیا کو لیک کیا گیا،فواد چوہدری اور شہزاد اکبر جیسے لوگ ایک لائن پکڑ کر ڈھنڈھورا پیٹیں گے۔گزشتہ دو برس کے دوران ہزاروں بار مرچکی ہوں،میرے خاوند ایف بی آر کے سامنے ہیں نہ میں سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے ہوں۔سپریم کورٹ سے اپنا حکم واپس لینے کی استدعا کرتی ہوں۔

جسٹس منیب اختر نے کہا یہ ممکن نہیں کہ ججز دستاویزت کا جائزہ سائل کی مرضی پر لیں گزشتہ روز آپ نے اور جسٹس قاضی فائز عیسی نے ایف بی آر کی رپورٹ مانگی تھی۔جسٹس مقبول باقر نے کہا مسز عیسی آپ سے درخواست ہے کہ کم سے کم وقت میں دلائل مکمل کریں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہاصرف یہ بتا دیں کہ سپریم کورٹ کے 20 جون 2020 کے فیصلے میں کیا غلطی تھی۔سرینا عیسیٰ نے کہا کل بنچ نے ایف بی آر کی سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیجی گئی خفیہ رپورٹ ہمیں دینے کی ہدایت کی۔ آرڈر کے باوجود خفیہ رپورٹ ہمیں موصول نہیں ہوئی۔

سرینا عیسیٰ نے کہا کہ میرے ٹیکس معاملات ذاتی ہیں، میرے شوہر سے بھی خفیہ ہیں، میرے ذاتی ٹیکس معاملات پر مبنی ایف بی آر کی رپورٹ تمام ججز نے پڑھی، ایف بی آر کی میرے خفیہ ٹیکس معاملات کی رپورٹ میرے علم میں لائے بغیر جمع کرانا غیر قانونی ہے۔ دو سال سے میری زندگی ٹاک شوز میں زیر بحث ہے۔

انہوں نے کہا کہ  ایک اخبار نے ایف بی آر رپورٹ کے آدھے سچ شائع کیے جو ان کو غیر قانونی طور پر دیے گئے۔میرے شوہر کو ایف بی آر نے طلب نہیں کیا نا مجھے سپریم جوڈیشل کونسل نے بلایا۔ایف بی آر چیئرمین کا رپورٹ پیش کرنا غیر قانونی ہے۔

جسٹس منیب اخترنے ریمارکس دیے کہ کسی فریق کو درخواست کرنے پرعدالت میں جمع کرائی گئی خفیہ رپورٹ نہیں دی جا سکتی۔سرینا عیسیٰ نے کہا میں نے رپورٹ کے لیے درخواست نہیں کی عدالت نے خود دینے کا حکم دیا۔ سپریم کورٹ کا میرے خلاف معاملہ ایف بی آر بھیجنے کا حکم درست نہیں تھا،میں نے 18 جون 2020 کو اپنی ٹیکس اور پیسے ٹرانسفر کرنے کی تمام تفصیلات عدالت کو دی ہیں۔