چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے آخری فیصلے کے بعد تمام نیب کیسز کا ریکارڈ احتساب عدالت میں پیش

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے آخری فیصلے کے بعد تمام نیب کیسز کا ریکارڈ احتساب عدالت میں پیش

 اسلام آباد: سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے آخری فیصلے کے بعد نیب کیسز بحال ہونے کے بعد اہم پیش رفت سامنے آئی ہے اور اسلام آباد کی احتساب عدالت میں تمام کیسز کا ریکارڈ پیش کردیا گیا۔ 

رجسٹرار آفس نے کیسز کی فہرست احتساب عدالت کو بھجوا دی۔ جج محمد بشیر نے کہا کہ آج تو ٹرک بھر کر نیب کے کیسز کا ریکارڈ آرہا ہے۔

احتساب عدالت نمبر دو اور تین کے اسٹاف کو واپس ڈیوٹی پر بلا لیا گیا جسے دیگرعدالتوں میں تعینات کردیا گیا تھا۔ احتساب عدالت نمبر دو اور تین کے ججز بھی تعینات کئے جائینگے۔ اس وقت صرف احتساب عدالت نمبر ایک میں جج محمد بشیر خدمات  انجام دے رہے ہیں۔

عدالت نے نیب پراسیکیوٹر سے کہا کہ پرائیویٹ اور پبلک آفس ہولڈرز ، سرکاری ملازمین کے کیسز کی نوعیت سے متعلق آگاہ کریں، آپ نے بتانا ہے کہ کون سا کیس سن سکتے ہیں اور کون سا ہمارے دائرہ اختیار میں نہیں آتا ؟

نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر عباسی نے جواب دیا کہ ہم تو تمام کیسز کا ریکارڈ عدالت میں پیش کریں گے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد یقینی بنانا ہے۔ احتساب عدالت نے رجسٹرار احتساب عدالت کو ریکارڈ کا جائزہ لینے کی ہدایت کردی۔

علاوہ ازیں راولپنڈی کی احتساب عدالتوں میں بھی 22 کرپشن ریفرنس بحال کرنیکی درخواست دائر کردی گئی۔ پراسیکیوٹر نیب نے درخواست میں کہا کہ سپریم کورٹ نے نیب قوانین ترامیم کالعدم قرار دے دیں لہذا 22 کرپشن کیسز ری اوپن کئے جائیں، چاروں احتساب عدالتوں کے کیسز بحال کیے جائیں۔

کیسز میں سابق سیکرٹری قانون، ایم این اے لال بند کیس، مضاربہ لوٹ مار،ہاؤسنگ سوسائٹیز کرپشن کیس بھی شامل ہیں۔ پراسیکیوٹر نیب کا کہنا ہے کہ جو کیسز دیگر سول عدالتوں میں ٹرانسفر کئے گئے وہ بھی واپس منگوائے جارہے ہیں، کیس بحال ہونے پر ملزمان کی ضمانتیں منسوخ اور واپس اڈیالہ جیل جائیں گے۔

دوسری جانب پشاور میں بھی احتساب عدالتوں میں 160 کے لگ بھگ ریفرنس واپس ہوگئے اور نیب نے پشاور میں قائم 8 احتساب عدالتوں ریفرنس واپس ارسال کردیے۔

نیب خیبر پختونخوا نے احتساب عدالتوں کے رجسٹرار کو مراسلہ لکھ کر کہا کہ ریفرنسز کی عدالتوں میں واپسی سپریم کورٹ کے 15 ستمبر کے فیصلے کے تحت ہو رہی ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے پر سات دن کے اندر عمل درآمد کا کہا گیا۔

مصنف کے بارے میں