سائفر کیس: عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی ضمانت منظور

سائفر کیس: عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی ضمانت منظور
سورس: file

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی عمران خان اور وائس چیئر مین شاہ محمود قریشی کی ضمانت منظور کر لی۔ 

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ بانی پی ٹی آئی پر جرم ثابت نہیں ہوا وہ معصوم ہیں۔ اس وقت بانی پی ٹی آئی کی نہیں بلکہ عوام کے حقوق کا معاملہ ہے۔ جو جیل میں قید ہے وہ پاکستان کی ایک بڑی جماعت کی نمائندگی کرتا، 8 فروری 2024 کو انتخابات ہیں۔ 

انہوں نے مزید کہا کہ انتخابات میں حصہ لینا ہی ضمانت کیلئے اچھی بنیاد ہے۔ 

سپریم کورٹ نے 10، 10 لاکھ روپوں کے مچلکوں کے عوض بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں ضمانتیں منظور کیں۔ 

سائفر کیس میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی درخواست ضمانت پر قائم مقام چیف جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت  کی، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ بینچ کا حصہ تھے۔ 

دوران سماعت جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سائفر کوڈز کی صورت میں آتا ہے، وزارت خارجہ کبھی بھی کوڈز پر مبنی سائفر وزیراعظم کو نہیں دیتا، وزارت خارجہ وزیراعظم کو سائفر کا ترجمہ یا اس پر بریفنگ دیتی ہے۔ وکیل پی ٹی آئی سلمان صفدر نے کہا کہ سائفر کوڈز ہر ماہ تبدیل ہوتے ہیں، سائفر کا انگریزی ترجمہ متعلقہ لوگوں تک پہنچایا جاتا ہے۔

سلمان صفدر نے کہا کہ سائفر کو ڈی کلاسیفائی کرنے کے بعد ہی سپریم کورٹ کو بھیجا گیا تھا، سائفر کے خفیہ کوڈز کبھی سابق وزیراعظم کے پاس تھے ہی نہیں، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ وزارت خارجہ سائفر سے متعلق حکومت کو آگاہ کرتی ہے تاکہ خارجہ پالیسی میں مدد مل سکے، آفیشل سیکریٹ ایکٹ کا مقصد ہی یہی ہے کہ حساس معلومات باہر کسی کو نہ جا سکیں۔ 

 
وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ امریکا میں پاکستانی سفیر اسد مجید نے سائفر حساس ترین دستاویز کے طور پر بھیجا تھا، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا اس بات پر تو آپ متفق ہیں کہ حساس معلومات شیئر نہیں ہو سکتیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ پراسیکویشن کا کیا کہنا ہے کہ سائفر کس کیساتھ شیئر کیا گیا؟ سلمان صفدر نے کہا کہ سائفر کسی کے ساتھ کبھی شیئر نہیں کیا گیا۔

پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا  کہ سابق وزیراعظم کے خلاف سزائے موت یا عمرقید کی دفعات عائد ہی نہیں ہوتیں۔ قائم مقام چیف جسٹس پاکستان نے کہا سائفر کسی سے شیئر نہیں کیا لیکن اسے آن ائیر تو کیا ہی گیا ہے۔ سلمان صفدر نے عدالت کو بتایا کہ وزارت خارجہ سے سائفر اعظم خان کو بطور پرنسپل سیکرٹری موصول ہوا تھا، جس میٹنگ میں سائفر سازش منصوبہ بندی کا الزام ہے وہ 28 مارچ 2022 کو ہوئی، چالان کے مطابق جس جلسے میں سائفر لہرانے کا الزام ہے وہ27 مارچ 2022 کو ہوا تھا۔

جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ اصل سائفر تو وزارت خارجہ میں ہے، وہ باہر گیا ہے تو یہ دفترخارجہ کا جرم ہے، سائفر کو عوام میں زیربحث نہیں لایا جا سکتا۔ وکیل سلمان صفدر نے بتایا شاہ محمود قریشی نے تقریرمیں کہا وزیراعظم کو سازش کا بتا دیا ہے، حلف کا پابند ہوں، اس بیان کے بعد شاہ محمود قریشی 125 دن سے جیل میں ہیں۔

پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدر نے سپریم کورٹ میں پریڈ گراونڈ میں 27 مارچ 2022 کے جلسے میں اس وقت کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی تقریر بھی پڑھ کر سنائی۔ قائم مقام چیف جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا وزیر خارجہ خود سمجھدار تھے،  سمجھتے تھے  کہ کیا بولنا ہے کیا نہیں۔

قائم مقام چیف جسٹس نے کہا کہ  وزیر خارجہ نے کہا کہ بتا نہیں سکتا اور بانی پی ٹی آئی کو پھنسا دیا  کہ آپ جانیں اور وہ جانیں، شاہ محمود خود بچ گئے اور بانی پی ٹی آئی کوکہا کہ سائفر پڑھ دو۔

سلمان صفدر نے کہا بانی پی ٹی آئی نے بھی پبلک سے کچھ شئیر نہیں کیا تھا، اگر سائفر پبلک ہو ہی چکا ہے تو پھر سائفر ٹرائل ان کیمرا کیوں چاہیے پراسیکیوشن کو؟ جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کس بنیاد پر پراسیکیوشن سمجھتی ہے کہ ملزمان کو زیرحراست رکھنا ضروری ہے؟ 

جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا ایک طرف آپ کہتے ہیں مقدمہ ان کیمرا چلے گا لیکن گواہان کے بیان پڑھنا شروع ہوگئے ہیں، جس پر پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے کہا بھارت میں سائفر لہرانے پر بہت واویلا ہوا۔ جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کل بلوچ فیملیزکیساتھ جو ہوا اس پر کیا کچھ واویلا نہیں ہوا ہوگا؟ جس پر پراسیکیوٹر رضوان عباسی کا کہنا تھا دوطرفہ تعلقات متاثرہونے سے دشمن کو فائدہ ہوگا۔


جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا پاک امریکا تعلقات خراب ہونے سے کسی اور ملک کا فائدہ ہوا، اس کی تفتیش کیسے ہوئی؟ تعلقات خراب کرنے کا تو ایف آئی آر میں ذکر ہی نہیں ہے۔ جسٹس اطہرمن اللہ نےاستفسار کیا کہ وزرائے اعظم کو وقت سے پہلے باہر نکالنے سے ملک کی جگ ہنسائی نہیں ہوتی؟ کیا وزرائے اعظم کو وقت سے پہلے ہٹانے پربھی آفیشل سیکریٹ ایکٹ لگے گا؟

پراسیکیوٹر راجہ رضوان عباسی نے کہا سائفر سے انڈیا سمیت دنیا میں جگ ہنسائی ہوئی، عدالت آرٹیکل 184/3 کے تحت فوجداری مقدمے کو نہیں دیکھ سکتی، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ سپریم کورٹ ضابطہ فوجداری کی بنیاد پربنیادی حقوق نا دیکھ سکے؟ 

وکیل شاہ خاور نے کہا عدالت کا اختیار ہے کہ بنیادی حقوق دیکھے، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا اسد مجید کے بیان میں کہیں نہیں لکھاکہ کسی دوسرے ملک کو فائدہ پہنچا ہے، عدالت سائفرپبلک کرنے کو درست قرارنہیں دے رہی لیکن بات قانون کی ہے، سزائے موت کی دفعات عائد کرنے کی بنیاد کیا ہے وہ واضح کریں، ابھی تک کسی گواہ کے بیان سے ثابت نہیں ہو رہا کہ کسی غیرملکی طاقت کو فائدہ ہوا ہے۔

بعد ازاں سپریم کورٹ نے دلائل سننے کے بعد بانی پی ٹی آئی اور وائس چیئر مین شاہ محمود قریشی کی ضمانت منطور کر لی۔ 


 واضح رہے کہ عمران خان ابھی دو مزید کیسز،  توشہ خانہ کیس اور 190 ملین پاؤنڈ ز کیس میں گرفتار ہیں۔