لیڈر کی تلاش

لیڈر کی تلاش

اس حقیقت کا اعتراف کرنے میں کوئی ہرج نہیں ہے کہ دیگر شعبوں کی طرح میدان سیاست میں بھی ہمیں آج تک وہ رہنما نہیں مل سکا جو عوامی طاقت کے ذریعے  ’’سٹیٹس کو ‘‘کو پاش پاش کردے ۔ دوسرے بعض غلط بیانیوں کی طرح یہ جھوٹ بھی گھڑا گیا کہ پاکستان میں انقلاب نہیں آسکتا کیونکہ عام لوگ سڑکوں پر نکلنے کے لئے تیار نہیں ہوتے ۔ یہ بات حقائق کے منافی ہے۔ قیام پاکستان سے اب تک کئی مواقع آئے جب لوگ اپنے حقوق کے لئے باہر نکلے مگر پھر کسی درمیانی راستے کی بات چلی اور حالات جوں کے توں رہ گئے بلکہ پہلے سے بھی بدتر ہوگئے ۔ بہت زیادہ پیچھے جانے کی ضرورت نہیں ۔ ذوالفقار علی بھٹو ایک کرشماتی شخصیت کے مالک تھے ۔ جہاں جاتے لاکھوں لوگ جمع ہوجاتے ۔ لوگوں کی عقیدت کا یہ عالم تھا کہ ان کے اشارے کے منتظر رہتے تھے ۔ عدالتی قتل کی صورت میں ان کے ساتھ جو کچھ ہوا انہوں نے کبھی اس کا تصور بھی نہ کیا ہوگا۔1971 کی جنگ اور پاکستان ٹوٹنے کے بعد شملہ معاہدہ کے ذریعے 90 ہزار جنگی قیدیوں کی واپسی کا صرف ایک کارنامہ ہی اتنا بڑا تھا کہ وہ یہ سمجھنے میں حق بجانب تھے کہ کوئی ادارہ ان کے خلاف نہیں جائے گا ۔ ان کا یہ اندازہ درست ثابت نہ ہوسکا ۔ ہر وقت جھک کر ملنے والے آرمی چیف جنرل ضیا الحق نے نہ صرف حکومت کا تختہ الٹا بلکہ اپنی محسن شخصیت کو یہ کہہ کر پھانسی گھاٹ پر پہنچا دیا کہ ’’ قبر ایک ہے اور بندے دو ‘‘۔ ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت دلوانے کے اقدام کو عالمی اسٹیبلشمنٹ کی مکمل  حمایت حاصل تھی ۔ بھٹو صاحب حکومت میں ہوتے ہوئے اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ کچھ زیادتیاں بھی کر بیٹھے تھے سو جنرل ضیا الحق کو ایک ایسا ماحول بنانے کا موقع مل گیا کہ جس کے نتیجے میں لوگوں کی بڑی تعداد سڑکوں پر آکر احتجاج نہ کرسکی ۔ مبصرین آج یہ یہ سمجھتے ہیں کہ اپنے ساتھ اس قسم کے سلوک  کے حوالے کوئی منظر نامہ بھٹو کے سامنے ہوتا تو پارٹی کے ڈھانچے اور کارکنوں کو کچھ اور انداز میں منظم کرتے ۔  بینظیر بھٹو 1986 میں وطن واپس آئیں تو لاہور میں سروں کا سمندر موجود تھا ۔ مگر انہوں نے کوئی انقلابی راستہ اختیار کرنے کی بجائے اسی سسٹم میں رہ کر سیاست کرنے کو ترجیح دی۔ 2007 میں جنرل مشرف کے دور میں جب وہ طویل جلا وطنی کے بعد واپس آئیں تو کراچی میں بھی زبرست استقبال ہوا ۔ بہر حال انہوں نے مفاہمت کی سیاست کو ترجیح دی اور پھر اس کے نتیجے میں انہیںجان گنوانا پڑی ۔ نواز شریف کو بھی عوامی طاقت کے مظاہرے کے مواقع ملے ۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی بحالی کیلئے 2009 میں لانگ مارچ شروع کیا تو لاہور کی حدود کے اندر ہی شرکا کی تعداد شمار کرنا ممکن نہیں رہ گیا تھا ۔ گوجرانوالہ تک جاتے جاتے مطالبہ ہی مان لیا گیا ۔ اس وقت صرف وزیر آباد کے پل  پر 35 ہزار سے زیادہ لوگ انتظار میں بیٹھے تھے ۔ ذرا تصور کریں یہ قافلہ ایسے ہی چلتا رہتا تو اسلام آباد پہنچنے کے وقت کیا عالم ہوتا ۔ نواز شریف کے حوالے سے ہی دوسرا بڑا عوامی شو اس وقت ہوا جب 2018 کے انتخابات سے پہلے وہ اپنی بیمار اہلیہ کو بستر مرگ پر چھوڑ کر اپنی بیٹی مریم کے ہمراہ لاہور آئے ۔ اگرچہ میڈیا پر بے حد دبائو تھا پھر نوٹ کیا گیا کہ لوگوں کی بڑی تعداد سڑکوں پر آگئی ہے ۔اس روز ایک اعلیٰ پولیس افسر نے حیرانی اور پریشانی کے عالم میں بتایا کہ ہمیں ہرگز توقع نہیں تھی کہ اتنے بندے آجائیں گے۔صوبے بھر میں لگائے جانے والے ناکے دھرے رہ گئے ۔لاہور شہر میں کارکنوں کی دو مقامات پر رینجرز سے جھڑپیں بھی ہوئیں ایسا  1977 کی نظام مصطفیٰ تحریک کے بعد پہلی مرتبہ ہوا تھا ۔ آزاد مبصرین کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن کی قیادت چاہتی تو ہزاروں کی تعداد میں کارکن ایئر پورٹ پہنچ کر نئی تاریخ رقم کرسکتے تھی ۔مگر کسی خوف یا مصلحت کے سبب ایسا نہ ہو سکا ۔ یہ بات بھی درست ہے کہ اگر آپ بڑی تعداد میں لوگوں کو اکٹھا کرنے میں کامیاب ہو جائیں اور پھر عوامی دباو کے ذریعے مطالبات منوانا چاہیں تو اس کیلئے یقیناً خطرات مول لینے پڑتے ہیں ۔ کارکنوں کو سڑکوں پر لانے کے لئے پارٹیوں کو اپنے تنظیمی ڈھانچے اور تربیت کے حوالے سے کام کرنا پڑتا ہے ۔ ہمارے ہاں بڑی جماعتوں میں ایسا سلسلہ موجود ہی نہیں ۔ جے یو آئی ف ، جماعت اسلامی 
نے یہ عمل آج بھی برقرار رکھا ہوا ہے ۔ ایم کیو ایم بھی کم و بیش اسی انداز میں کام کرتی تھی مگر پھر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئی ۔ موجودہ دور میں جے یو آئی ف نے موثر سٹریٹ پاور کا مظاہرہ کیا ہے ۔2019 میں جے یو آئی کے آزادی مارچ نے نہ صرف ملکی بلکہ بین الاقومی حلقوں میں بھی کھلبلی مچا دی تھی ۔ شرکا کی اتنی بڑی تعداد اسلام آباد پہنچ گئی تھی کہ حکومت کاتو ڈرنا تو بنتا ہی تھا مگر خود دوسری اپوزیشن جماعتیں بھی گھبرا گئی تھیں کہ لاکھوں منظم کارکن تھوڑا سا آگے بڑھے تو حالات پر کسی کا کنٹرول نہیں رہے گا۔ اسٹیبلشمنٹ نے صورتحال بھانپ کر مولانا فضل الرحمن اور ان کے رفقا سے براہ راست بات چیت کی ۔ دیگر اپوزیشن پارٹیوں کو بھی انگیج کیا ۔ کچھ بیرونی ممالک کے سفیر بھی مدد کو آئے اس طرح معاملے کو ڈی فیوز کیا گیا ۔ مثالیں تو اور بھی کئی ہیں لیکن بنیادی بات یہی ہے کہ ہمارے ہاں اب تک کوئی بھی عوامی طاقت کے بل پر فیصلہ کن قدم نہیں اٹھانا چاہتا ۔ پھر عذر تراشتے ہوئے کہہ دیا جاتا ہے کہ کہ ہم کیا کریں لوگ گھروں سے نکلنے پر تیار نہیں ۔ ایسا ہرگز نہیں ۔عام آدمی کے مسائل کم ہونے کی بجائے پہلے سے کہیں بڑھ گئے ہیں ۔ غصے سے بھرے لوگ سڑکوں پر آنے کے لئے ہی نہیں ،احتجاج کے لئے آگے جانے پربھی تیار ہیں ۔ لیڈر شپ کے باربار کے یوٹرن اور کمزوریاں اور مصلحتیں دراصل وہ رکاوٹ ہیں جن کے سبب عوامی دبائو منظم شکل اختیار نہیں کرتا ۔ یقیناً مستقل قابض قوتیں کبھی یہ نہیں چاہتیں کہ کوئی بڑی احتجاجی تحریک منظم ہو ۔ سٹیک ہولڈروں نے بھی کچھ پیمانے رکھے ہوئے ہیں جب بات ایک حد سے زیادہ گزرنے لگے تو کوئی ’’ قربانی ‘‘ دے کر عوام کے جلال کو ٹھنڈا کردیا جاتا ہے ۔ایسی قربانیوں کی بھی پوری تاریخ ہے ۔ یہ واضح رہے کہ عالمی اسٹیبلشمنٹ بڑی سٹیک ہولڈر ہے۔ اسی لئے حالات بگڑنے پر فیلڈ مارشل ایوب کو بھی جانا پڑا جنرل یحییٰ بھی گئے ورنہ ارادہ  تو تاحیات حکومت کرنے کا تھا ۔ جنرل ضیا کا طیارہ پھٹ گیا لیکن اگر وہ زندہ بچ جاتے تو باقی ماندہ اقتدار کے لئے انہیں بے حد دھماکہ خیز حالات کا سامنا کرنا پڑتا ۔ جنرل مشرف کی تازہ مثال تو سب کے سامنے ہے ۔ ان دنوں لوگ پھر پوچھ رہے ہیں کیا پھر کوئی تبدیلی آنے والی ہے تو اس کے لئے ہمیں ’’ پراگرس کارڈ ‘‘ کا مختصر جائزہ لینا ہوگا ۔ ملک معاشی گرداب میں پھنس چکا ، خارجہ محاذ پر ایسی ناکامیوں کا سامنا ہے کہ جن کی ماضی میں مثال نہیں ۔حتیٰ کہ افغانستان کی طالبان حکومت کے ساتھ بھی تعلقات نارمل نہیں رہ گئے ۔ امن و امان کی صورتحال خراب ہورہی ہے۔ بے روزگاری کا عفریت زندگیاں نگل رہا ہے ۔ ہسپتالوں سے تعلیمی اداروں ، عدالتوں سے سرکاری محکموں تک ہر جگہ زوال ہی زوال ہے۔ بعض ناقدین کی یہ بات مان بھی لی جائے کہ یہ سب جان بوجھ کر کیا جارہا ہے تو یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ اب پانی ناک ناک تک آ چکا ۔ ہائبرڈ نظام کے تحت ریاست کے چار ستونوں میں سے ایک ساری عدلیہ کو ’’ محب وطن ‘‘ بنانا مقصود تھا مگر تمام تر کوششوں کے باوجود ایسا نہ ہو سکا۔ تمام تر ہتھکنڈوں کے باوجود جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو جھکایا جاسکا نہ ہٹایا جاسکا ۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی ثاقب ٹولے کا نشانہ ضرور بنے مگر اب بڑے وکیل کے طور پر میدان عمل میں ہیں ۔ ہائبرڈ نظام چلانے کے لئے ’’ناپسندیدہ ‘‘ سیاسی جماعتوں کو توڑ کر ہمیشہ کے لئے تحلیل کیا جانا تھا مگر میدان سیاست اور میدان مزاحمت میں مسلم لیگ ن ، پیپلز پارٹی ، جے یو آئی ، جماعت اسلامی اور قوم پرست جماعتیں اپنے وجود کا بھرپور مظاہرہ کررہی ہیں۔ اسی طرح میڈیا کو سو فیصد مثبت خبریں دینے پر مجبور کرنے کا علانیہ ٹارگٹ بھی دھرا رہ گیا ۔ سب سے بڑے میڈیا گروپ کے مالک کو جھوٹے کیس میں اندر کیا گیا ۔ مالکان پر کئی طرح کے دبائو آئے ، آزاد صحافیوں کو جبری بے روزگاری سمیت طرح طرح کی آزمائشوں سے دوچار ہونا پڑا مگر صرف ’’ مثبت خبروں ‘‘ کا بیانیہ اپنی موت آپ مر رہا ہے۔ بدنام زمانہ آرڈیننس پیکا پر حکومت کے لئے پسپائی کے سوا کوئی اور چارہ نہیں ۔ملک میں جاری اضطراب ہر گزرتے دن کے ساتھ شدید ہوتا جارہا ہے ۔ یہ کھلی حقیقت ہے کہ اداروں کو براہ راست تنقید کا سامنا ہے ۔ لوگوں کے  ذاتی معاملات سے لے کر کاروبار مملکت تک کے حوالے سے حکومت سے کہیں زیادہ تنقید کا سامنا اسے مسلط کرنے والوں پر پڑ رہا ہے ۔سو اگر سیاسی حساب کتاب کو مد نظر رکھا جائے تو اس نتیجے پر پہنچنا ہرگز مشکل نہیں کہ پی ٹی آئی کی حکومت اثاثہ نہیں بلکہ بوجھ بن چکی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کا یوں اچانک متحرک ہو جانا بے معنی نہیں ۔ حکومت کی اتحادی جماعتوں کے تیور بھی بدل چکے ہیں ۔ وزیر اعظم اور وزرا کی باڈی لینگوئج میں گھبراہٹ نمایاں ہے ۔ شیخ رشید مشورہ دینے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ وزیر اعظم عمران خان ، جہانگیر ترین سے رابطہ کریں ۔ وزیر دفاع پرویز خٹک اپوزیشن جماعتوں پر ہارس ٹریڈنگ کا الزام عائد کررہے ہیں۔ پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر کراچی سے منتخب ہونے والے عامر لیاقت حسین کھل کر کہہ رہے کہ ان کے لیڈر الطاف حسین ہیں اور انکی پارٹی ایم کیو ایم ہے ۔ ان کے ایسے دعووں کے باوجود پی ٹی آئی میں کسی کو معمولی بازپرس کرنے کی بھی جرات نہیں ہورہی ۔ ان سطور کے تحریر کئے جانے تک ق لیگ نے واضح کردیا ہے کہ اسے قومی اسمبلی کے گیارہ ارکان کی حمایت حاصل ہے جس میں پانچ ان کے اپنے اور چھ حکومتی پارٹی کے ہیں ۔ جہانگیر ترین گروپ پہلے ہی سے الگ لائن لے رہا ہے ۔ایسا محسوس ہورہا ہے کہ سیٹی بجتے ہی کنگز پارٹی تاش کے پتوں کی طرح بکھر جائے ۔ تحریک عدم اعتماد پیش کئے جانے سے پہلے ہی حکومت کو اس حد کر گھائل کردیا گیا ہے کہ اب کوئی معجزہ ہی پی ٹی آئی حکومت کی باقی ماندہ مدت پوری کرا سکتا ہے ۔ آنے والے دنوں میں کیا سیٹ اپ بننے والا ہے اس کے خد و خال واضح ہونے میں زیادہ وقت باقی نہیں رہ گیا ۔ ایک چیز پر اب بھی سوالیہ نشان ہے کہ کسی تبدیلی کی صورت میں عوام کو کیا ملے گا۔اگر یہ نظام ایسے ہی چلنا ہے تو پھر عام لوگوں کو ریلیف ملنے کا دور تک امکان نہیں ۔ مارشل لا ، نیم جمہوری حکومتوں اور ہائبرڈ نظام سمیت تمام تجربے بری طرح پٹ چکے ۔اب دعا کی جانی چاہئے کہ آگے جو کچھ ہو ملک و قوم کے لئے اچھا ہی ہو۔ اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو کسی سیاسی لیڈر کو یہ حق  نہیں پہنچے گا کہ عوام پر ساتھ نہ دینے کی تہمت دھرے ۔

مصنف کے بارے میں