پروفیسر تاج محمد سارے ملک میں واحد نظام تعلیم چاہتے تھے

پروفیسر تاج محمد سارے ملک میں واحد نظام تعلیم چاہتے تھے

پنجاب یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر اور عظیم دانشورپروفیسر تاج محمد خیال بڑے درویش صفت ، محب وطن اور ماہر تعلیم تھے وہ بہت سے تعلیمی اداروں کے سربراہ رہے۔ پروفیسر محمد خیال نہایت عمدہ اخلاق‘ اعتدال پسند اور سچے مسلمان تھے‘ جنھوں نے تحریک پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ پروفیسر تاج  انگریزی کے پروفیسر اور اردو کے بہت اچھے شاعر تھے۔ خیال صاحب سے مجھے بار ہا ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ وہ عاجزی اور انکساری کے پتلے تھے۔ مزید برآں علامہ محمد اقبالؒ اور قائداعظم محمد علی جناحؒ سے گہری عقیدت رکھتے تھے۔
1960 میںپروفیسر تاج محمد خیال صاحب قومی نصاب کمیٹی کے چیئرمین تھے تو انہوں نے حکومت سے سفارش کی تھی کہ ’’لااکراہ فی الدین‘‘ کے قرآنی فلسفہ کی بنیاد پر ملک کے سارے صوبوں میں یکساں نظام تعلیم تیار ہونا چاہیے جو طلباء و طالبات کو انتہا پسندی، دہشت گردی اور طبقاتی خرابیوں سے دور رکھ سکے۔ ایسا نظام تعلیم جس کے ذریعے نوجوانوں میںمحنت اور جانفشانی سے کام کرنے کی لگن پیدا ہو، ریاست کا نظام سنبھالنے کیلئے نوجوان ایک منظم اور مربوط طاقت بن کر ابھریں اور اسلامی اصولوں کے مطابق پاکستان کو اسلامی ریاست بنانے کا فریضہ انجام دے سکیں۔ 
اس وقت پشاور یونیورسٹی کے انسٹیٹیوٹ آف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ میں ایسوسی ایشن فار اکیڈیمک کوالٹی کے زیراہتمام ’’قومی یکجہتی میں تعلیم کا کردار‘‘ کے موضوع پر سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے مختلف یونیورسٹیوں کے اساتذہ نے کہا تھا ’’کہ پاکستان کے تعلیمی اداروں میں اس وقت  9سے زیادہ نصاب پڑھائے جا رہے ہیں۔ بنیادی طور پر یہ تمام نصاب ’’طبقاتی نظام تعلیم‘‘ کا حصہ ہیں۔ جس سے وسیع تر قومی اتحاد اور یکجہتی تو کجا معمولی سطح کا باہمی اتحاد و اتفاق بھی پیدا نہیں ہو سکتا۔ 
 جنرل ایوب مرحوم ملک میں امریکی نظام تعلیم رائج کرنے کے خواہش مند تھے۔ مگر ماہرین تعلیم کا کہنا تھا کہ دو سوسال کی غلامی میں ہمارے بزرگوں نے طبقاتی نظام تعلیم قبول نہیں کیا۔ اس لئے تمام ماہرین تعلیم کا خیال تھا کہ پاکستان کے تمام صوبوں میں پرائمری سکولوں سے لے کر مدارس، ہائی سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کی سطح تک یکساں نظام تعلیم رائج کیا جائے جو نہ تو طبقاتی ہو اور نہ ہی فرقہ واریت کو فروغ دے۔ بلکہ مستقبل میں ملک کی تمام ضروریات پوری کرنے والا ہو۔ تعلیمی ماہرین نے جب یہ سفارشات ایوب خان کو پیش کیں تو انہوں نے ماہرین کو ڈانٹتے ہوئے کہا کہ تم سب ’’افلاطون‘‘ بننے کی کوشش نہ کرو۔ اور حکم دیا کہ امریکیوں کا تجویز کردہ نظام تعلیم رائج کیا جائے۔
بہر حال یہاں بات ہو رہی تھی پروفیسر تاج محمد خیال کی جنہوں نے زندگی انتہائی سادگی کے ساتھ بسر کی۔ وہ تنگ چوڑی دار سفید پاجامہ‘ جناح کپ اور شیرونی میں ملبوس رہتے تھے۔ میں نے انھیں کبھی دوسرے لباس میں نہیں دیکھا۔ پروفیسر صاحب سے میری پہلی ملاقات زمیندار کالج گجرات میں ہوئی تھی۔ میں پہلی ملاقات میں ہی ان کی عقیدت میں گرفتار ہوگیا تھا بعد میں پچاس کی دہائی میںپروفیسر تاج محمد خیال گورنمنٹ کالج لائل پور میں پرنسپل رہے ان سے میری ملاقات غالباً مہر محمد صادق ایڈووکیٹ رکن پنجاب اسمبلی کے ساتھ ان کے گھر پر ہوئی۔ اس کے بعد لائل پور میں کالج کے اندر ان کی سرکاری رہائش گاہ تھی ، وہاںبھی کئی بار ملاقات رہی۔ کئی بار ان کے ساتھ کھانا تناول کرنے کا بھی اتفاق ہوا‘ نہایت شفیق اور محبت کرنے والے انسان تھے۔ 
کچھ عرصہ بعدپروفیسر تاج محمد خیال صاحب گورنمنٹ کالج لائل پور سے تبدیل ہوکرلاہور آئے اور انھوں نے ڈائریکٹر پبلک انٹرکشن پنجاب (محکمہ تعلیم کے ڈائریکٹر جنرل)کا عہدہ سنبھال لیا۔ ان دنوں سکولوں اور کالجوں کے ایک یہی ڈائریکٹر ہوا کرتے تھے۔ لاہور میں بھی مجھے پروفیسر صاحب سے ملاقات کا کئی بار موقع  ملا۔ایک بار ان کے دفتر میں ملاقات کے لیے گیا تو ان کے پی اے (PA)موجود نہیں تھے ایک اور صاحب وہاں بیٹھے تھے تو میں نے ان سے ملاقات کے لیے کہا تو وہ بضد ہوئے کہ آپ مجھے اپنا بزنس کارڈ دیں تاکہ میں پروفیسر صاحب کے پاس لے جاؤں۔ جب پی اے نے انھیں میرا کارڈ دیا تو وہ ننگے پائوں بہ نفس نفیس اپنے دفتر سے باہر تشریف لائے اور انھوں نے پی اے سے کہا کہ ریاض صاحب کو ہر وقت مجھ سے ملاقات کرنے کا استحقاق حاصل ہے۔
اس کے بعد پروفیسر صاحب نے ثانوی انٹر میڈیٹ بورڈ لاہور کی تعمیرکے لیے اراضی حاصل کرکے بورڈ کی عمارت تعمیر کرائی اور پھر لاہور بورڈ کے پہلے چیئرمین مقرر ہوئے۔
پروفیسر تاج صاحب بڑی صلاحیتوں کے مالک تھے اور ممتاز ماہر تعلیم تھے۔ جن کا تعلیمی سفر نہایت شاندارتھا اور حکومت پنجاب کے حکام ان کی اعلیٰ کارکردگی سے بہت مطمئن تھے اسی وجہ سے انھیں پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر مقرر کیا گیا۔ ان سے میری آخری ملاقات 1961ء میں ہوئی جب وہ وائس چانسلر بنے۔ تاج صاحب نے ا پنے تمام تعلیمی دور میں نادار‘ غریب اور مستحق طلبا کی ہمیشہ مالی اعانت جاری رکھی۔ تاج صاحب سادگی پسند تھے دونوں میاں بیوی اور ایک ان کا خانساماں تھا جو ان کا ڈرائیو بھی تھا۔ تاج صاحب نے اپنی زندگی میں کوئی انجمن ستائش باہمی نہیں بنائی حالانکہ وہ چوٹی کے شاعر تھے اور انگریزی کے پروفیسر تھے۔ نہایت عمدہ انگریزی لکھتے تھے وہ کم و بیش اپنی ماہوار آمدنی کی تین چوتھائی حصہ نادار طلبا کے تعلیمی اخراجات پر خرچ کرتے تھے۔ راقم الحروف چونکہ ان سے دیرنیہ تعلقات رکھتا تھا اس وجہ سے مجھے اس بات کا علم ہوا کیونکہ بعض اوقات کوئی طالب علم انھیں ملنے آتا تو وہ اسے سپرنٹنڈنٹ یا اپنے سٹاف سے ملنے کے لیے کہتے اور اپنے عملے کو انھوں نے بتا رکھا کہ جو بھی طالب علم میرے حوالے سے آپ کے پاس آئے تو اس کے تعلیمی اخراجات کے لیے میری تنخواہ سے اسے مطلوبہ رقم فراہم کردیں۔ اﷲ تعالیٰ انھیں غریق رحمت کرے۔
خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را

مصنف کے بارے میں