روٹی اور معیشت کو گڈ مڈنہ کریں!!!

 روٹی اور معیشت کو گڈ مڈنہ کریں!!!

کچھ عرصہ قبل بھارتی اخبار ٹائمز آف انڈیا میں ایک اقتصادی ماہر کی تحریر نظر سے گزری۔ ایک جامع تحریر میں مختلف پہلووں سے پاکستان اور بھارت کی اقتصادیات کا تقابلی جائزہ لیا گیا، لیکن ایک پوائنٹ خصوصی توجہ کا طالب تھا۔
 موصوف نے اپنے کالم میں لکھا کہ پاکستان اور بھارت کی معیشت میں ایک بڑا فرق یہ ہے کہ بھارت کی ریاست امیر اور یہاں کے لوگ غریب ہیں۔ ( اگرچہ بھارت میں دنیا کے امیر ترین لوگ بھی بستے ہیں لیکن رائٹر صاحب عوام الناس کی بات کررہے تھے)۔جبکہ پاکستان میں لوگ امیر اور ریاست غریب ہے۔
وہ لکھتے ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ کئی سال سے پاکستان کی اکانومی ریورس گیئر میں ہی چل رہی ہے اور یہاں معاشی حالات تیزی سے خراب ہو رہے ہیں۔ ایک مثال دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ، چند سال پہلے تک صورتحال کچھ یوں تھی کہ بھارت میں ہزاروں لوگ غربت کا شکار ہو کر بھوک سے مر رہے تھے جبکہ پاکستان میں حالات اس قدر برے نہ تھے۔ وہاں کے غریب آدمی کو کم از کم دو وقت کی روٹی میسر تھی اور وہ بھوک سے نہیں مر رہا تھا۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ صورتحال میں کافی تبدیلی آ چکی ہے اوراس وقت پاکستان میں بھی غربت اپنے عروج پر ہے، اور نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ اب وہاں بھی لوگ بھوک کی وجہ سے مر رہے ہیں۔
 ملکوں کی اکانومی میں اتار چڑھائو تو خیر آتے جاتے رہتے ہیں لیکن میرے خیال میں کسی ملک کے حالات جس قدر مرضی زبوں حالی کا شکار ہو جائیں وہاں کی حکومت کو تین چیزوں پر ہر صورت میں بھرپور توجہ دینی چاہیے۔ 
1 )۔دفاع 
2 )۔کرپشن کنٹرول
(3۔روٹی
دفاع اور کرپشن کنٹرول پر تو ہمارے ملک کے سیاستدان اور دانشور اکثر بات کرتے رہتے ہیں لیکن جانے کیوں روٹی اور معیشت کو آپس میں گڈ مڈ کر دیتے ہیں۔شاید وہ خیال کرتے ہیں کہ روٹی بھی معیشت کا حصہ ہے۔ معیشت پر ہونے والی گفتگو یا اس سلسلہ میں پیش کیے جانے والے تجزیوں میں روٹی بھی شامل ہوتی ہے لیکن میرے خیال میں حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ مجھ جیسا عام آدمی معاملات کو جس زاویے سے دیکھ رہا ہے حکومتوں میں شامل بڑے بڑے دماغوں کو وہ نظر کیوں نہیں آتا؟کیوں اقتصادی بحران کا ملبہ سب سے پہلے غریب آدمی پر گرتا ہے؟ اور کیوں مراعات یافتہ طبقہ مزید مراعات لیتا چلا جا رہا ہے؟
اگر ریاست کو ماں کا درجہ دینے والی بات کو درست تسلیم کر لیا جائے تو پھر کیا یہ ماں کا فرض نہیں کہ، ’آپ نے گھبرانا نہیں‘ یا ’ آپ کچھ عرصہ مزید قربانی دیں‘، یا ’ دو کے بجائے ایک روٹی کھائیں ‘ ، یا ’ چائے نہ پئیں وغیرہ‘  جیسے سبق پڑھانے کے بجائے جیسے بھی ہو اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کا انتظام کرے۔ کیونکہ ماں اپنے بچوں کو روٹی دینے کے معاملہ میں اگر، مگر، چونکہ ، چنانچہ نہیں کرتی بلکہ ہر صورت میں اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ اس کے بچوں کو روٹی ملے۔
حکومت جو مرضی حیلے بہانے کرے لیکن یہ بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ ملک کی اکانومی چاہے جتنے مرضی بڑے بحران سے گزر رہی ہو، اگر حکومت پرخلوص ہو اور اس کی نیت میں کھوٹ نہ ہو تو ہر شہری کو دو وقت کی روٹی مہیا کرنا کوئی اتنا مشکل کام بھی نہیں ہے۔ 
اگرچہ مختلف شہروں میں بحریہ دسترخوان ، سیلانی ٹرسٹ ، ایدھی ٹرسٹ اور صاحب حیثیت لوگوں کی جانب سے غربا اور مستحقین کے لیے کئی لنگر خانے قائم ہیں، سابقہ حکومت جس کے سربراہ عمران خان تھے نے بھی کچھ رفاعی اداروں کے ساتھ مل کر لنگر خانوں کے نام پر کچھ سرگرمی دکھانے کی کوشش کی لیکن یہ تمام کاوشیں بہت ناکافی ہیں۔  
مستحقین کو روٹی کی فراہمی کے سلسلہ میں رفاعی اداروں، این جی اوز اور صاحب حیثیت لوگ جو کاوشیں کر رہے ہیں اس پر ان کو شاباش بھی ملنی چاہیے اور ان کو تعریف کی نگاہ سے بھی دیکھا جانا چاہیے لیکن حکومت ،چاہے ماضی کی ہو یا موجودہ، کے بھوک کے خلاف انتہائی ناکافی انتظامات پران کی بھر پور انداز میں مذمت کی جانی چاہیے۔عوام کے حقوق کی بات کرنے والوں اور ان کا درد محسوس کرنے کا دعویٰ کرنے والے موقع ملنے پر غریب پروری کے اپنے تمام دعوے بھول کر نہ صرف رشوت اور کرپشن کا بازار گرم کرتے ہیں بلکہ سرکاری خرچ پر اپنے اللے تللے پورے کرنے اور پروٹوکول اور مفادات کے حصول میں بھی کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔ 
اگر لگژری گاڑیوں، مہنگی ترین رہائشگاہوں اور غیر ملکی دوروں کی بات نہ بھی کی جائے تو بھی ان کی عیاشیوں کے لیول کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے بچے جتنے پیسے کسی اعلیٰ ہوٹل میں بیٹھ کر ایک وقت کے کھانے پر اڑا دیتے ہیں ، تقریباً اتنی ہی رقم کسی غریب گھرانے کو مہینہ بھر کی ضروریات پوری کرنے کے لیے درکار ہوتی ہے۔ یعنی اگرا سراف ، نمائش اور عیاشی سے اجتناب برتا جائے تو وسائل اس قدر موجود ہیں کہ ہر گھرانے میں دو وقت کی روٹی کا انتظام کیا جا سکتا ہے۔ 
حکومت بے شک ان بے پناہ دولت کے حامل افراد کے خلاف کوئی کریک ڈائون نہ کرے لیکن بجٹ میں اتنی گنجائش تو نکالے کہ فوری طورپر،  محدود پیمانے پر ہی سہی، مستحق خاندانوں کے لیے خوراک اورپیڑول پر سبسڈی فراہم کی جائے۔ یعنی گھر گھر سروے کرا کر ہر گھر کے لیے سبسڈائزاڈ اشیا خورونوش اور پیٹرول کا کوٹہ مقرر کرنا چاہیے۔ اگر کسی گھرانے کو کسی بھی وجہ سے مقرر کردہ کوٹہ سے زائد اشیا درکار ہو ں تووہ بے شک مارکیٹ ریٹ پر مہیا کی جائیں۔ اگر عوام سو قسم کے جائر ناجائز، ڈائریکٹ اور ان ڈائریکٹ ٹیکس پہلے سے ادا کر رہے ہیں تو بے شک اس سبسڈی کی فراہمی کے لیے ایک اور ٹیکس لگا دیا جائے۔  
 اس کے علاوہ میں جو بات حکومتی اور اپوزیشن ارکان اسمبلی کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں وہ یہ کہ ، 1)۔جب بھی اپنی تنخواہیں بڑھائیںاپنے ساتھ ساتھ دیگر سرکاری ملازمین کی تنخواہیں بھی اسی تناسب سے اضافہ کریں۔ اور 2) ۔ اگر حکومت بہت زیادہ نہیںبھی کرنا چاہتی تو کم از کم اتنا تو کر ہی سکتی ہے کہ غریب عوام کو بھی انہیں ریٹس پر کھانا میسر ہو جن پر ہمارے کروڑ پتی اور ارب پتی اراکین اسمبلی کو  قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے کیفے ٹیریاز میں دستیاب ہے۔