ہمارا معاشرتی کرداراور اس کی تعمیر نو

ہمارا معاشرتی کرداراور اس کی تعمیر نو

مری روڈ، راولپنڈی کی تقریباََ اکلوتی اور مصروف ترین سڑک ہے۔ اسی سڑک پر بے نظیر بھٹو شہید اسپتال بھی واقع ہے۔ یوں تو تقریبا روز ہی اس سڑک سے گذرنا ہوتا ہے، مگر چند روز پہلے کی بات ہے کہ ایک بزرگ خاتون وہیل چئیر پر تھیں اور ایک دوسری خاتون ان کی وہیل چئیر کو پکڑے سڑک پار کرنے کی کوشش کر رہی تھیں۔ میں نے اپنی کار روک لی، کہ وہ خواتین سڑک پار کرسکیں۔ اب صورتحال یہ تھی کہ وہ خواتین میری کار کے سامنے کھڑی ہیں اور میری کار کے برابر سے گذرنے والی ٹریفک کسی صورت رُکنے پر تیار نہیں  تھی۔ میرے پیچھے گاڑیوں کی ایک طویل قطار بن گئی  اور ہارن بجانے کا سلسلہ پورے زور و شور کے ساتھ جاری تھا۔خیر وہ بے چاری خواتین آہستہ آہستہ آگے  بڑھنا شروع ہوئیں موٹر سائیکل سوار اور رکشہ ڈرائیور  حضرات دو لمحے رُکنے کی بجائے اپنی مہارت دکھاتے ہوئے وہیل چئیر کے سامنے سے گذرتے رہے۔ جب وہ خواتین تقریبا سڑک پار کرنے کے قریب پہنچی تو ایک رکشے والے نے وہیل چئیر کو ٹکر ماردی، یہ تو شُکر ہوا کہ وہیل چئیر گری نہیں ورنہ اس مریضہ کے لیے ایک اور تکلیف دہ مرحلہ شروع ہوجاتا۔ اس پر مستزاد یہ کہ رکشے والے نے ٹکر مار کر رُکنے کی زحمت بھی نہ کی۔ بس ہلکی سی گردن باہر نکال کر دیکھا  اور یہ جا وہ جا۔ 
اسی طرح ایک صاحب گلی کے داخلی راستے کے عین درمیان اپنی گاڑی کھڑی کر کے پھل خریدتے رہے اور تقریبا دس منٹ بعد واپس آئے۔ اس دوران کافی گاڑیاں جن میں اسکول جانے والے بچے اور دفاترکو جانے والے افراد شامل تھے ، خریداری ختم ہونے کے منتظر رہے۔ صدر  راولپنڈی میں ایک مشہور بیکری جہاں سے خریداری ضرورت کے تحت کم اور اسٹیٹس کے دکھلاوے کے لیے زیادہ ہوتی ہے وہاں ایک صاحب اپنی مہنگی ترین کار بیچ سڑک میں کھٹری کرکے بیکری میں چلے گئے اور کافی دیر بعد تشریف لائے اور گاڑی میں بیٹھے گئیر بدلا اورچلے گئے۔ کتنے لوگ اُن کے اس عمل سے تکلیف کا شکار ہوئے اُنھیں اس سے غرض نہیں تھی۔  ٹریفک کے حوالے سے ایک بات اور عرض کرتا چلوں کہ کسی تنگ گلی یا سڑک پر موٹرسائیکل، رکشہ یا کار کھڑی ہو اور آپ کا گزر مشکل ہو تو آپ یقینا ہارن دے کر راستہ مانگیں گے، لیکن مشاہدہ یہ ہے کہ 95  فیصد افراد پہلے مُڑ کر دیکھیں کہ کیا واقعی گاڑی کا گذر مشکل ہے یا ہارن بجا کر اُ ن کے سکون میں خلل ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے، اگر انھیں احساس ہو بھی جائے کہ گاڑی کا گزر مشکل ہے تو بجائے اس کے کہ وہ آپ اپنی سواری کو ہٹا لیں وہ آپ کی تنگ جگہ سے گاڑی نکلوانے کی مہارت کا عملی مظاہرہ شروع کردیں گے۔ 
اسی طرح شاہراہوں کا حال دیکھ لیں۔ لاہور اسلام آباد موٹر وے بلاشبہ بین الاقوامی معیار کے مطابق ہے۔ تقریباً ہر آدھے گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد واش رومز کی سہولت موجود ہے، مگر اس کے باوجود یار لوگ سڑک کے کنارے بیٹھے نظر آئیں گے۔ دو روز قبل ملتان سکھر موٹر وے پر سفر کا اتفاق ہوا۔ ہر سروس ایریا ایک وسیع رقبے پر تعمیر کیا گیا ہے۔ مگر ویرانی اور گندگی بھی اپنی انتہا کو ہے۔ استعمال کرنے والوں کو سلیقہ نہ صفائی کے ذمہ داروں کو قرینہ۔ اس پر سونے پہ سہاگہ کہ عصبیت کا ڈھول بھی پیٹا جاتا ہے۔
مسجد کا احترام ایک مسلمان کے لیے کیا ہوتا ہے، بتانے کی ضرورت نہیں۔ ایک مسلمان خاندان کا بچہ تقریبا چھ سات برس سے ہی مسجد سے آشنا ہوجاتا ہے۔ جمعے کی نماز میں دیکھ لیں کہ پیش امام صاحب آخری وقت تک اگلی صفوں کو پُر کرنے کی اپیل اور حکم دیتے رہتے ہیں مگر ہم وہاں بھی برابر والے کو اشارہ کرتے ہیں کہ وہ آگے بڑھ کر صف مکمل کرے ، مگر ہم خود اس کارِ خیر میں حصہ لینے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ اسی طرح بعض ایسے بھی ہیںجو مسجد میں تشریف تو آخر میں لائیں گے مگر اجر کی طلب میں پہلے سے موجود لوگوں کے سَروں پر سے پھلانگتے ہوئے اگلی صفوں میں جگہ نہ بھی ہونے کے باوجود جگہ بنا لیتے ہیں ۔ 
معاشرتی آداب کی ترویج کیسے ہو؟ معاشرتی کردار کیسے بہتر ہو؟ ، ہمارے یہاں اربابِ اختیار اور اربابِ اقتدار کا یہ موضوع  ہے اور نہ مسئلہ۔ بنیادی طور پر ہر قوم کی ایک مجموعی ثقافت ہوتی ہے جسے اُس قوم کا تعلیمی نظام قائم رکھتا ہے۔ مگر ہمارے یہاں تعلیمی نظام طبقات کی نذر ہوگیا اور ساتھ ہی ثقافت بھی زوال پذیر۔ ہمارا حال یہ ہے کہ قومی زبان کا ذکر تو خوب کیا جاتا ہے لیکن اس قومی زبان کا مکمل نفاذ آج بھی ایک خواب ہے۔پہلے پی ٹی وی پر ادیب اور شاعر ڈرامے لکھا کرتے تھے، جس میں ادب اور زبان کا خاص خیال رکھا جاتا تھا۔ آج شوبز سے متعلق افراد ڈرامے بھی خود لکھتے ہیں، پروڈکشن بھی خود کرتے ہیں اور اس میں اداکاری کے جوہر بھی خود ہی دکھاتے ہیں، ایسے ماحول میں ادب کیسے آئے اور معاشرتی کردار کیسے پروان چڑھے۔ تعلیم اور میڈیا کی جو حالت ہے ، ایسے میں سماجی سائنسدانوں کو آگے بڑھ کر قوم کے معاشرتی کردار کی تعمیر نو میں کردار ادا کرنا چاہیے۔