”اپنی ’نور مقدم‘ کو درندوں سے خود بچائیں“

Iftikhar Hussain Shah, Nai Baat Newspaper, e-paper, Pakistan

 آج کل سوشل میڈیا اور اخبارات ’نور مقدم‘کے قتل اور اس پر ہونے والے ظلم کی تفصیلات سے بھرے ہوتے ہیں۔اس بربریت کے واقعہ کو زیادہ اہمیت اس لیے مل گئی ہے کہ ایک تو ظاہر جعفر نامی نفسیاتی درندے نے نور مقدم پر ظلم کی انتہا کر دی، دوسرے دونوں فیملیزکا تعلق اس ملک کی elite کلاس سے ہے، تیسرا یہ واقعہ ملک کے دارالخلافہ ’اسلام آباد‘ میں وقوع پذیر ہوا۔ عموماً لوگ اس واقعہ کو اس ملک کے امراء کی بگڑی اولادوں کا منطقی انجام قرار دے رہے ہیں،لیکن سب کے سب لوگ اس ایک بات پر متفق ہیں کہ ظاہر جعفر ایک ارب پتی اور اثر و رسوخ والی فیملی کا سپوت ہے اس لیے وہ کسی نہ کسی طریقے سے بچ نکلے گا۔ اسے کوئی سزا نہیں ہو گی اور اگر ہو بھی گئی تو مختصر عرصہ کے بعد باہر آجائیگا۔ لوگ اس سلسلے میں خدیجہ صدیقی اور شاہ حسین کے واقعے کی مثال دیتے ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ شہر لاہور میں شاہ حسین نے دن دیہاڑے خدیجہ صدیقی کو چاقو کے تیس وار کرکے شدید زخمی کر دیا تھا لیکن چونکہ وہ ایک ا ثر و رسوخ والے وکیل کا بیٹا تھا اس لیے وہ تھوڑا سا عرصہ جیل میں رہ کر باہر آگیا۔ وہ آج آزاد فضاؤں میں گھومتا پھرتا اور خدیجہ بیچاری قانون اور قانونی اداروں کو آوازیں دیتی پھرتی ہے۔ اس ملک میں کون اس کی آواز سنے گا، آپ سب کو معلوم ہے کیا بتانا آپ کو۔ اپنے ملک میں جاری نظام سے تو بظاہر یہی انجام نظر آتا ہے کہ ظاہر جعفر جیسے طاقتور خاندان کے سپوت کو سوائے اس وقتی پریشانی کے کچھ بھی نہیں ہوگا۔ اگر آپ اپنے معاشرے کو غور سے دیکھیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ اپنے ملک کی ’نور مقدموں‘ کے ساتھ ایسے واقعات ہر روز پیش آتے رہتے ہیں جن کا پرچار نہ کسی میڈ یا پر ہوتا ہے اور نہ ہی کسی تھانہ میں مقدمے کا اندراج۔ وہ بے بس اور بے آسرا ’نور مقدمیں“ خون کے آنسو پیتی رہتی ہیں اور زندہ لاشوں کی صورت زندگی گزارتی رہتی ہیں۔ آپ پوچھیں گے کہ ایسا کیوں ہے! تو اس کی بڑی واضح وجہ یہ کہ اس ملک میں کوئی نظام نہیں ہے جو کسی مظلوم کا ساتھ دے، ظالم کو کٹہرے میں لا کر کھڑا کر دے اورا سے قرار واقعی سزا دلائے۔ اپنے ہاں جاری نظام سے مجھے ایک واقعہ یا د آرہا ہے۔ میں سٹاف کالج لاہور میں نیشنل مینجمنٹ کورس کر رہا تھا۔ یہ کورس وفاقی سروسز اور صوبائی سروسز کے لیے نہایت ہی اہم ہوتا ہے کیونکہ یہ کورس کامیابی سے پاس کرنے والوں ہی 
کو گریڈ اکیس میں ترقی ملتی ہے۔ اس کورس میں ہمارے ساتھ کوئی دو تین فوج کے بریگیڈئیر بھی تھے جو اپنی پروموشن کے لیے یہ کورس کرنے آئے ہوئے تھے۔ اس کورس میں شامل کچھ افسران کو یہ Assignmentملی کہ آپ لوگ لاہورکے لڑکیوں کے تاریخی تعلیمی ادارے لاہور کالج برائے خواتین یونیورسٹی جسے تازہ تازہ خود مختار ادارے (autonomous)  کی حیثیت ملی تھی کا دورہ کریں۔ وہاں کی وائس چانسلر اور تدریسی سٹاف سے ملیں، طلبا سے ملیں اور پھر اس ادارے کی ورکنگ اور کارکردگی پر ایک رپورٹ تیا ر کرکے سٹاف کالج میں پیش کریں۔خیر تمام افسران جن کو کہا گیا تھاوہ اس ادارے میں پہنچے۔ میں بھی اس گروپ میں شامل تھا۔ یونیورسٹی کی وائس چانسلر اور ان کے سٹاف نے اپنی یونیورسٹی کے متعلق نہایت ہی جامع اور خوبصورت پریزینٹیشن (resentation p) پیش کی جسے سب نے سراہا۔ پھر ایک مختصر سا سوال و جواب کا سیشن بھی ہوا۔ آخر میں وائس چانسلر صاحبہ کہنے لگیں کہ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ آپ کے گروپ میں مختلف انتظامی سروسز کے افسران شامل ہیں تو کیا ہم بھی آپ لوگوں سے انتظامی امور کے متعلق سوال پوچھ سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم آپ سے ایک ہی سوال پوچھیں گے۔ ظاہر ہے یہی جواب دیا گیا کہ ضرور پوچھیں۔ انہوں نے کہا کہ یہاں پولیس کے اور ضلعی انتظامیہ کے لوگ بھی موجود ہیں۔ آپ لوگ ہمیں صرف اس ایک سوال کا جواب دیں۔ فرض کریں کہ آپ کی بیٹی ہماری اسی یونیورسٹی میں پڑھتی ہو اور آپ اسی شہر میں رہتے ہوں۔،ظاہر ہے آپ لوگوں نے اپنی بیٹی کے یونیورسٹی آنے جانے کے لیے کوئی ٹرانسپورٹ کا بندوبست کر رکھا ہوگا۔کوئی اپنی گاڑی بھجواتا ہو گا تو کسی نے پرائیویٹ ویگن وغیرہ لگوا رکھی ہو گی۔ اگر کسی روز کسی ایمرجنسی کی وجہ سے ہمیں یونیورسٹی معمول کے چھٹی ٹائمنگ سے پہلے بند کرنا پڑ جائے اور آپ کے پاس فوری طور پر گاڑی کا بندوبست نہ ہو سکے تو کیا آپ اپنی بیٹی سے کہیں گے کہ آپ کسی ویگن یا رکشا کے ذریعہ خود گھر چلی جائیں۔ مختلف آرا کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ آپ اپنی بیٹی کو اکیلے گھر واقع شادباغ یا ٹاؤن شپ نہیں جانے دیں گے۔آخر میں انہوں نے کہا کہ آپ لوگ اس ملک کی انتظامی مشینری کی کریم بیٹھے ہوئے ہیں۔ آپ لوگ کیوں نہیں سوچتے کہ آپ کے ملک میں آپ کی بیٹیوں کی سکیورٹی کے یہ حالات ہیں۔آپ کے مشاہدہ میں ہو گا کہ ہمارے ملک میں لوگ بیٹوں کے لیے دُعائیں مانگتے ہیں، بیٹیوں کے لیے نہیں۔ حالانکہ اولاد تو دونوں ہیں، بلکہ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ بیٹیاں والدین سے زیادہ پیار اور خدمت کرتی ہیں۔ ظاہر ہے ان دعاؤں کی کچھ بیک گراؤنڈ ہے۔ سچ پوچھیں اس ملک میں لڑکیوں کے لیے بڑے مسائل ہیں۔ ان کا اس معاشرہ میں بڑا استحصال ہوتا ہے۔ان کے والدین کے لیے اس معاشرے میں بے شمار مسائل ہیں۔ اب اسی کیس یعنی نور مقدم اور ظاہر جعفر والے کیس ہی کو لے لیں۔ کیا گزر رہی ہو گی شوکت مقدم پر جس نے دنیا کے دو ممالک میں اپنے ملک کی نمائندگی بطور سفیر کی۔ جس نے پاکستان نیوی میں ایک لمبا عرصہ باعزت نوکری کی۔ یہ تو صرف وہی خاندان جا نتا ہو گا جس پر گزر رہی ہوگی۔نور مقدم کے بھائیوں پر کیا گزر رہی ہوگی۔دوسری طرف ظاہرجعفر کے خاندان کو اگر کوئی پریشانی ہو گی تو صرف یہ ہوگی کہ اسے کس طرح پولیس کے چنگل سے نکالا جائے۔ہمارے معاشرے میں مرد نہاتے دھوتے گھوڑے ہوتے ہیں یہ صرف لڑکیاں ہوتی ہیں جن کے اپنے گھر والے کہتے ہیں کہ اگر اس نے یہ دن دکھانے تھے تو پیدا ہوتے ہی مر کیوں نہیں گئی۔میں نے اپنے ملک میں دیکھا ہے کہ یہاں قدم قدم پر لڑکیوں کا استحصال کیا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ محلوں میں رہنے والی لڑکیاں جنہوں نے پیدل سکول جانا ہوتا ہے انہیں کس اذیت کا سامنا ہر روز کرنا پڑتا ہے۔ اگر کسی غریب کی بیٹی کوئی پرائیویٹ نوکری کرنا چاہے تو کیسے درندے منہ کھولے بیٹھے ہوتے ہیں۔ نوکری دینے سے پہلے ہی یہ کمٹمنٹ ((commitment  لینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ایم ڈی یعنی منیجنگ ڈائریکٹر صاحب کے ساتھ شہر سے باہر جانا پڑیگا۔ سرکاری نوکری ہو یا پرائیویٹ،ہر جگہ استحصال۔ کوئی شادی کا جھانسا دے کر لوٹنے کی کوشش میں ہے تو کوئی نوکری یا پروموشن کے چکر میں۔ اس ملک میں غریب کے بیٹی اگر کچھ کمانے کے لیے گھر سے نکلے تو ہر طرف بھیڑیئے اسے گھور رہے ہوتے ہیں اور خوشحال گھروں کی لڑکیوں کو روشن خیالی کے چکر میں تباہ کر دیا جاتا ہے۔اسی لیے میں سمجھتا ہو کہ اس ملک میں اپنی نور مقدموں کا قدم قدم پر خود خیال رکھیں۔اس ملک میں کوئی نظام نہیں ہے جو آپکی بیٹیوں کو تحفظ دے سکے۔