آئی ایم ایف گردی اور پاکستان

 آئی ایم ایف گردی اور پاکستان

بدقسمتی سے موجودہ حکومت اپنی کارکردگی درست کرنے کے بجائے اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہے ان کا خیال ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ہی وہ ٹول ہے جس سے وہ اقتدار میں رہ سکتے ہیں لیکن انھیں شائد اس بات کا علم نہیں کہ اسٹیبلشمنٹ بھی اس پر ہاتھ رکھتی ہے جس کے ساتھ عوام ہوں وہ اٹھارہ بیس تو کر سکتی ہے مگر دس بیس کرنے سے وہ بھی ہمیشہ گریزاں ہوتی ہے اور اسطرح آنکھیں دکھاتی ہے کہ سب دیکھتے  اور سوچتے رہ جاتے ہیں کہ ہوا کیا۔ ماضی اس بات کا گواہ ہے کہ نواز شریف دو تہائی اکثریت ڈھونڈتے رہ گئے تھے کہ کدھر گئی اور سابق صدر زرداری کی مثال بھی سامنے ہے کہ تین سال کی ایکسٹنشن دینا بھی انکے کسی کام نہ آیا ۔موجودہ حالات میں تو قوم انتظار میں ہے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے اللہ پاکستان کے لئے بہتر کرے جو بھی ہو۔حکومت کی تو منطق ہی نرالی ہے قومی اسمبلی میں منی بجٹ پیش کیا گیا تو اسے بھی فخریہ پیشکش کہا گیا شوکت ترین نے دعویٰ کیا کہ عوام پر صرف دو ارب کا بوجھ ڈالا گیا ہے ۔شاید انھیں اس بات کا علم نہیں کہ نیسلے کادہی اور دودھ، پریما ، انہار کے دودھ اور دہی ، نورپور کا مکھن  امپورٹڈ آئٹمز  نہیںہیں اْن پربھی17 فیصد ٹیکس لگادیا ہے  اورکہتے ہیں کہ صرف امپورٹڈ آئٹمز پر ٹیکس لگایا گیا  ہے اور سال کے پہلے دن ہی پٹرول کی قیمت میں بے جا اضافہ کر کے عوام کو حکومت نے تحفہ پیش کر دیا ہے۔
  آئی ایم ایف کے پاکستان پر شکنجہ شروع ہونے کی کہانی   1950 میں شروع ہوئی جو آج تک جاری ہے ۔ نئے قائم ہونے والے ملک کو 1947 میں برطانوی ہندوستان سے اپنے قیام کے بعد سے مالی مسائل کا سامنا تھا۔1958 میں پہلی بار پاکستان  آئی ایم ایف کے پاس گیا۔  آئی ایم ایف نے 8 دسمبر 1958 کو پاکستان کو 25,000 امریکی ڈالر اسٹینڈ بائی انتظامات کی بنیاد پر دیے۔ دوبارہ پاکستان 1965 میں آئی ایم ایف کے پاس گیا۔ اس بار آئی ایم ایف نے  جنگ زدہ ملک کو 37,500 امریکی ڈالر دیے۔ تین سال بعد، پاکستان پھر تیسری بار آئی ایم ایف کے پاس بیلنس آف پیمنٹ کے مسائل کے لیے گیا  اور اسے75,000  امریکی ڈالرملے ۔1971 میں پاکستان دولخت ہونے کے بعد  اپنی بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے دوبارہ آئی ایم ایف سے رجوع کرنا پڑا اور 84,000 امریکی ڈالر حاصل کئے، 1973 میں دوبارہ  امریکی ڈالر ملے پھر یہ سلسلہ چل نکلا  1974 اور 1977 میں دوبارہ پیسے ھاصل کئے ۔  1980 میں ب پاکستان جب سوویت یونین کے خلاف امریکی سرد جنگ کا حصہ تھا۔ 349,000 امریکی ڈالر کی توسیعی سہولت پہنچ گئی۔
ایک اور دور شروع ہوا، جب ضیاء الحق کے بعد پاکستان میں جمہوریت واپس آئی   لیکن معیشت کو خراب طریقے سے سنبھالنے کے پرانے طریقے جاری رہے۔ بے نظیر بھٹو کی حکومت نے 28 دسمبر 1988 کو 194,480 امریکی ڈالر اسٹینڈ بائی انتظام کے طور پر اور 382,410 امریکی ڈالر ڈھانچہ جاتی ایڈجسٹمنٹ سہولت کے وعدے کی شکل میں حاصل کئے۔ 1990 میں نواز شریف کی حکومت نے آئی ایم ایف کے پاس جانے کے بجائے سعودی عرب جیسے دوست ممالک سے چندہ لینے کا فیصلہ کیا۔
1993 میں، بے نظیر بھٹو دوبارہ اقتدار میں آئیں اور ان کی حکومت دوبارہ آئی ایم ایف کے پاس گئی اور 16 ستمبر 1993 کو 88,000 امریکی ڈالرکے اسٹینڈ بائی انتظامات حاصل کرنے کا معاہدہ کیا۔بدقسمتی سے اس دور میں بھی  حکومت کی طرف سے معیشت کی خراب ہینڈلنگ جاری رہی کیونکہ اسے توسیعی فنڈ سہولت کے تحت 23,200  امریکی ڈالرکا قرضہ ملا اور پھر یہ سلسلہ چلتا رہا یہ دیکھے بغیر کہ اس کے مستقبل پر کیا اثرات ہونگے  ۔ اس عرصے میں پاکستان کی معیشت خراب حالت میں رہی اور بے نظیر بھٹو حکومت کے دور میں پاکستان کو ریکارڈ تیسرے نمبر پر دوبارہ آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا۔ 1997 میں نواز شریف  پھر اقتدار میں آگئے ۔ شریف حکومت پہلی بار ہنگامی بنیادوں پر آئی ایم ایف کے پاس گئی اور  265,370 امریکی ڈالر اور 113,740 امریکی ڈالر کی دو رقوم حاصل کرنے کا معاہدہ کیا۔سلسلہ چلتا رہا مشرف حکومت آئی اور اس کے بعد جمہوریت دوبارہ آ گئی۔ یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم بن گئے اور انھوں نے بھی معیشت ٹھیک کرنے کے لئے ۔2008 میں  IMF سے 7.6 بلین ڈالر کا قرضہ وصول کر لیا۔سلسلہ جاری تھا کبھی خبر آتی کہ موٹر وے کو گروی رکھ دیا گیا ہے اور کبھی خبر آتی کہ سٹیل مل سمیت کچھ اداروں کو گروی رکھ کر قرض لیا گیا ہے اور پاکستان آئی ایم ایف کے شکنجے میں بڑی طرح پھنس گیا ۔
2018 میں عمران خان پاکستان کے وزیراعظم بنے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ وہ آئی ایم ایف کے شکنجے سے پاکستان کو آزاد کرائیں گے اقتدار حاصل کرنے کے بعد انھوں نے آئی ایم ایف کے بجائے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین سے دوستانہ قرضوں کا انتظام کیا تاکہ آئی ایم ایف کی سخت شرائط سے بچا جا سکے۔ لیکن وہ بھی اپنی معاشی ٹیم کی خراب کارکردگی کے باعث اپنے باقی وعدوں کی طرح یہ وعدہ بھی پورا نہ کر سکے اور 2019 میں، جب معاشی حالات خراب ہوئے، وہ 22 ویں بار آئی ایم ایف کے پاس 1 بلین امریکی ڈالر کے قرض کے لیے پہنچ گئے۔ آئی ایم ایف نے توانائی کے نرخوں میں اضافہ، توانائی کی سبسڈی ختم کرنے، ٹیکس میں اضافہ، عوامی اداروں کی نجکاری اور بجٹ میں مالیاتی ایڈجسٹمنٹ جیسی شرائط کی بنیاد پر قرض دیا۔اور اس کا تمام تر بوجھ غریب عوام پر آیا ۔لیکن ابھی یہ صدمہ ہلکا نہ ہوا تھا کہ دوبارہ سخت شرائط پر قرض حاصل کرنے کی درخواست دے دی گئی ۔ کابینہ سے ضمنی بجٹ کی منظوری کرائی گئی اور (آئی ایم ایف) سے فنڈ حاصل کرنے کے مقصد کے لئے مالی سختی کے اقدامات کے حصے کے طور پر سیلز ٹیکس پر چھوٹ ختم کرنے اور نئی ڈیوٹیز لگانے کی منظوری لی گئی اور قومی اسمبلی میں ضمنی بجٹ پیش کر دیا گیا ۔شرائط کے مطابق حکومت کا مقصد سیلز ٹیکس کی چھوٹ کو واپس لے کر اربوں روپے اکٹھا کرنا ہے تاکہ تمام شعبے یکساں 17 فیصد ادا کریں، نئی ڈیوٹیز لگائیں اور ٹیکس وصولی کے ہدف پر نظر ثانی کریں۔وزیر خزانہ شوکت ترین کا دعوی ہے کہ سیلز ٹیکس کی چھوٹ کی واپسی سے 343 بلین روپے ($ 1.93 بلین) بڑھیں گے، انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ یہ بات آئی ایم ایف کے 700 ارب روپے کی چھوٹ کو ختم کرنے کے مطالبے کے خلاف کی تھی۔پارلیمنٹ آنے والے دنوں میں اس بل پر بحث اور ووٹنگ کرے گی۔ اور یہ بل پاس بھی ہو جائے گا اس بل میں سٹیٹ بنک کا بھی ذکر ہے جس کی خود مختاری کے مجوزہ قانون کو ابھی تک منظر عام پر نہیں لایا گیا ہے، لیکن حکام کا کہنا ہے کہ یہ مرکزی بینک کو قیمتوں میں استحکام، مانیٹری پالیسی کے فیصلوں اور اس کے گورنر کے لیے ضمانت کی مدت کو کنٹرول کرنے کے لیے خود مختار اختیارات دے گا۔اس بل کی منظوری کے بعد عوام مہنگائی کی نئی چکی میں پسنے کے لئے تیار ہو چکے ہیں ۔اور ایسا محسوس ہوتا ہے ماضی کی طرح موجودہ حکومت کو بھی معیشت درست کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے وہ بھی ماضی کی حکومتوں کی طرح آئی ایم ایف سے قرض لے کر ڈنگ ٹپائو کر کے اپنا وقت پورا کرنا چاہتی ہے ۔اور عوام بے چاری اب کسی اور مسیحا کا انتظار کر رہی ہے جو ان کے زخموں پر مرہم رکھ سکے۔

مصنف کے بارے میں