’’محنت کا کوئی متبادل نہیں‘‘

’’محنت کا کوئی متبادل نہیں‘‘

گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کا شمار برصغیر کے قدیم تعلیمی اداروں میں ہوتا ہے اس میں داخلے کا میرٹ آج بھی اپنے ہمعصر تعلیمی اداروں کی نسبت زیادہ ہے یہاں سے فارغ التحصیل طلباء نے تاریخی طور پر ہر شعبۂ فکر میں اپنی قابلیت کا لوہا منوایا ہے جس کی وجہ سے راوین ہونا بذات خود ایک بڑا اعزاز اور تفاخر کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان کی سول سروس میں سب سے زیادہ تعداد جی سی کے طلباء کی ہوتی ہے جو ہر سال مقابلے کا امتحان پاس کر کے اعلیٰ سرکاری نوکریاں حاصل کرتے ہیں اسی طرح فوج اور پولیس میں بھی خاصی تعداد اپنی اس مادر علمی کی نمائندگی کرتی ہے۔ 
حالیہ ہفتوں میں جی سی لاہور میں دو ایسے واقعات ہوئے ہیں جس کی وجہ سے اس ادارے کے امیج کے بارے میں ایک غیر ضروری تنازع پیدا ہوا جس کا ذمہ دار وائس چانسلر کو سمجھا جا رہا ہے اور اس پر کافی گرما گرم بحث جاری ہے۔ اگر جی سی جیسے ادارے میں بھی meritocracy نہیں ہو گی تو پھر باقی اداروں کا تو خدا حافظ ہے۔ 
پہلے واقعہ میں جی سی کے ایک فنکشن میں سابق وزیراعظم عمران خان کو مہمان خصوصی کے طور پر خطاب کے لیے بلایا گیا عام طور پر تعلیمی اداروں کو سیاست سے دور رکھنے کے لیے سیاسی شخصیات کو ایسے مواقع پر مدعو نہیں کیا جاتا اگر موجودہ وی سی صاحب یہ سمجھتے تھے کہ سیاسی قیادت کو نئی نسل کے ساتھ براہ راست ہمکلام ہونے کی روایت شروع کی جانی چاہیے تو اس کے لیے کوئی ضابطۂ اخلاق طے ہونا چاہیے تھا کہ جس سیاسی شخصیت کو بلایا جائے وہ ملک کو موجود چیلنجز سے نبٹنے پر بات کرے اپنی سیاسی جدوجہد کی بات کرے یا نئی نسل کو سیاست میں آ کر ملک کی خدمت پر لیکچر دے لیکن عملاً ایسا کچھ نہیں تھا عمران خان نے جی سی یونیورسٹی کے قومی فورم کو اپنے مخالفین پر تنقید کرنے اور ذاتی حملوں کے ذریعے ایک اچھی روایت قائم کرنے کے بجائے یہ ایک موقع تھا جو ضائع کر دیا بلکہ ان کے مخالفین اس بات پر سیخ پا ہیں کہ انہیں بلا کر ایک متنازع تقریر کیوں کرائی گئی یا اگر ایسا کرنا ہی تھا تو پھر ان کی مخالف پارٹی سے بھی کوئی ایک نمائندہ وہاں ہونا چاہیے تھا جو ان کا جواب دے سکے مگر اس سے معاملات اور زیادہ تفرقہ بازی کی طرف چلے جاتے۔
اب وی سی صاحب کے خلاف گورنر پنجاب جو بالحاظ عہدہ جی سی یونیورسٹی کے چانسلر بھی ہیں کی طرف سے انکوائری کا حکم دیا گیا ہے کہ وی سی صاحب نے خلاف معمول اور خلاف ضابطہ ایک سیاستدان کو بلا کر یونیورسٹی کے غیر جانبدار ہونے کا تاثر کیوں مجروح کیا۔ یاد رہے کہ میاں نواز شریف جب تیسری بار وزیراعظم بنے تھے تو اس وقت کے VC کی طرف سے ایک سالانہ تقریب اسناد پر انہیں بلا کر اعزازی پی ایچ ڈی کی ڈگری دی گئی تو اس پر کافی اعتراض ہوئے تھے کہ انہیں یہ ڈگری کیوں دی گئی ہے جس پر VC نے کہا تھا کہ اگر کوئی اور شخصیت جو تین بار ملک کی وزیراعظم بن چکی ہو تو بتائیں ہم انہیں بھی اسی طرح کا اعزاز دینے کے لیے تیار ہیں۔ 
اگر عمران خان صاحب اس اہم موقع کو کسی قومی اہمیت کے موضوع پر بات کر کے اپنی رائے کا اظہار کرتے تو شاید اس پر اعتراض کم ہوتا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ ایک نئی روایت ہے تو اس میں مہمان خصوصی کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنی تقریر کو مخالفین سے بدلہ لینے کے لیے استعمال نہیں کرے گا۔ 
ایسے ہی ایک دوسرے واقعہ کا تعلق بھی جی سی سے ہی ہے جہاں اسی وی سی صاحب نے ایک اور پروگرام میں مولانا طارق جمیل کو مہمان خصوصی کے طور پر بلایا۔ مولانا طارق جمیل کو دعوت دینے کے فیصلے میں ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ اس ادارے کے اولڈ سٹوڈنٹ ہیں حالانکہ عمران خان کا تو بطور طالب علم بھی جی سی سے کوئی تعلق نہیں۔ 
مولانا طارق جمیل کوئی عالم دین یا مفتی نہیں ہیں۔ وہ ایک اچھے خطیب ہیں ان کے پاس شریعت اسلامی کی تعلیمات کی کوئی اعلیٰ ڈگری نہیں ہے۔ البتہ وہ ایک اچھے مقرر ہیں ٹی وی پر بڑے مقبول ہیں وہ اپنے الفاظ میں جنت کے باغات جنتیوں کو ملنے والی شراب اور دیگر نعمتوں کی تفصیلات بیان کرنے میں مہارت رکھتے ہیں اور فضائل اور رحمت خداوندی کی نقشہ کشی کرتے ہیں البتہ جنت کی 72 حوروں کے بارے میں ان کی کافی تحقیق ہے۔ بلاشبہ آج کے اس زر پرستی کے دور میں مولانا صاحب کی مسلمانوں کو اللہ کے دین کی طرف واپس بلانے کی تحریک بڑی روح پرور ہے۔ ان کی تبلیغ کا مرکز و محور زیادہ تر اداکار کھلاڑی اور سیاستدان ہیں یہ چونکہ celebrity لوگ ہیں اس لیے مولانا کا خیال ہے کہ اگر یہ دین کے راستے پر آجائیں گے تو دوسرے لوگ ان کی پیروی کرتے ہوئے صراط مستقیم کی راہ اپنائیں گے۔ ویسے ہمارے پیارے نبی اکرمؐ نے وحدت دین آغاز غریبوں غلاموں اور معاشرے کے پسے ہوئے طبقے سے کیا تھا اور ابتدا میں وہی لوگ ایمان لائے تھے جن کے گھر میں سونا چاندی تو کیا رات کا کھانا یا پہننے کے لیے تن پر کپڑے بھی نہیں ہوتے تھے۔ 
جی سی یونیورسٹی میں مولانا طارق جمیل صاحب کا طلباء و طالبات سے صدارتی خطبہ ہماری اس گفتگو کا لب لباب تھا میرا یقین تھا کہ مولانا صاحب یہ ضرور فرمائیں گے کہ میرٹ نہ ہو تو قومیں تباہ ہو جاتی ہیں اور بچوں کو محنت کی عظمت اور حلال طریقے سے زندگی میں آگے بڑھنے پر اظہار خیال کریں گے مگر اس کے برعکس مولانا نے فرمایا کہ جب وہ سٹوڈنٹ تھے تو وہ پڑھائی کے بارے میں بالکل سنجیدہ نہیں تھے وہ فلمی رسالہ ’’مصور‘‘ پڑھتے تھے یا درسی کتاب کے اندر ڈائجسٹ رکھ کر پڑھتے تا کہ دوسروں کو پتہ نہ چلے۔ مولانا نے فرمایا کہ امتحان سے ایک دن پہلے وہ پورے خشوع و خضوع کیساتھ اللہ سے دعا کرتے کہ کل امتحان ہے اور میں نے لازمی پاس ہونا ہے یا اللہ جو کچھ کل پیپر میں ّنا ہے وہ مجھے خبر کر دے۔ مولانا کا کہنا ہے کہ اس کے بعد وہ کتاب کھولتے اور جو سامنے آتا اسے ایک دفعہ پڑھ لیتے اور یہ عمل تین چار مرتبہ دہراتے یعنی Random کتاب کھول کر جو سامنے آتا دیکھ لیتے ۔ مولانا طارق جمیل کا دعویٰ ہے کہ اگلے دن پیپر میں وہی سوال ہوتے تھے جنہیں وہ حل کر کے پاس ہو جایا کرتے تھے۔ 
ان کی اس تقریر سے ان کے پہلو میں بیٹھے وی سی صاحب قہقہے لگا رہے تھے مگر ہم سوچ رہے ہیں کہ کیا ہی اچھا ہوتا کہ مولانا بچوں کو محنت کرنے اور میرٹ کا درس دیتے اور اس طرح کا شارٹ کٹ راستہ نہ بتاتے محنت کا کوئی متبادل نہیں ہے اور زندگی میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے کوئی شارٹ کٹ نہیں ہے یہ تو محض ڈھکوسلہ ہے کہ آپ 2-4 دفعہ کتاب کھولیں اور سمجھ لیں کہ یہی سوال امتحان میں آئے گا۔ معجزے یوں رونما نہیں ہوتے مجھے امید ہے کہ جی سی کے طلباء و طالبات نے مولانا کے ان الفاظ کو سنجیدگی سے نہیں لیا ہو گا اور اسے محض ایک لطیفہ کی حد تک لیں گے ورنہ وہ فیل ہو جائیں گے۔ جی سی یونیورسٹی کو اپنے مہمانان خصوصی کے انتخاب کے لیے اپنی حالیہ پالیسی پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے ورنہ اگلے سال کے convocation میں گلو بٹ مہمان خصوصی ہوں گے۔