ن لیگ کی سیاست

ن لیگ کی سیاست

پچھلے دنوں پاکستان واپسی کے لیے دبئی ایئر پورٹ کے لاوئج میں مسلم لیگ ن کے ایک متحرک رہنما سے ملاقات ہوگئی۔ فلائیٹ دو بار تاخیر کا شکار ہوئی تو ان تفصیل سے گفتگو کا موقع ملا۔ لیگی رہنما اپنے علاقے میں اچھا اثر و رسوخ رکھتے ہیں اور کاروباری طور پر بھی خاصے مستحکم ہیں۔ وہ اپنی پارٹی کی بے سمت پالیسیوں کا شکوہ کرتے ہوئے یہ بھی کہہ رہے تھے کہ حامی اور کارکن اپنی سیاسی وفاداریوں کے سبب کسی مشکل میں آجائیں تو پارٹی میں کوئی ان کی آواز سننے والا نہیں۔یہ بات کافی تک درست اس لیے بھی ہے اس طرح کی گلے شکوے مسلم لیگ ن میں ایک طویل عرصے سے سننے کو مل رہے ہیں۔اس وقت بھی پارٹی حکومت ہو اور اس وقت بھی جب اپوزیشن میں ہو۔ ایک تاثر ہے کہ مسلم لیگ ن کی قیادت نے پارٹی کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ رکھا ہے۔ یہ سلسلہ نواز شریف کے تیسری مرتبہ وزیر اعظم بننے کے بعد سے شروع ہوا۔ 2013 کے بعد شریف خاندان سے قریبی مراسم رکھنے والی ایک شخصیت کو یہ کہتے سنا گیا کہ اس حکومت کے آنے سے پہلے ہی اسے گرانے کی سازشیں شروع کردی گئی ہیں مگر قیادت گم صم بیٹھی ہے۔ پھر ایسا ہی ہوا 2014 میں عمران خان، طاہر القادی اور مجلس وحدت المسلمین کو اکٹھا کرکے 126 دن طویل دھرنا کراکے ریاست پاکستان کو تماشا بنا دیا گیا۔ گو کہ اس منظم گڑ بڑ کے کئی مقاصد تھے مگر بنیادی ہدف سی پیک کو روکنا تھا۔ حیرت کی بات ہے کہ اس تمام غیر موافق ماحول میں بھی نہ صرف سی پیک کا آغاز کردیا گیا بلکہ ملک سے بجلی کی قلت کے بڑے مسئلے سے بھی چھٹکارا حاصل کرلیا گیا۔ معاشی سمت بھی درست ہوگئی۔ صاف نظر آنے لگا کہ آنے والے سالوں میں پاکستان میں کاروباری اور تجارتی سرگرمیوں میں زبردست اضافہ ہو جائے گا پھر اچانک پانامہ نمودار ہوا اور اسٹیبلشمنٹ نے دھرنوں کے ہتھیاروں کو مسلسل بروئے کار لانے کے ساتھ میڈیا کے ذریعے سیاسی حکومت کی کردار کشی کی مہم چلائی، ساتھ ہی اپنی روایتی حلیف سپریم کورٹ کو کھل کر استعمال کیا۔ وزیر اعظم کو نااہل قرار دے کر گھر بھیج دیا گیا۔ صاف نظر آرہا تھا کہ انتقامی کارروائیوں کا سلسلہ رکنے والا نہیں۔ صورتحال کو بھانپتے ہوئے بعض خیر خواہوں نے نواز شریف سے خود رابطے کرکے رائے دی کہ پیش بندی کے طور پر ابھی سے چند جوابی اقدامات کا آغاز کردینا چاہیے مگر ان کو یہ عجیب و غریب جواب ملا کہ ہم نے کچھ نہیں کرنا۔ نواز شریف کی اس ذہنی کیفیت کے بارے میں اسی طرح کا اندازہ عرفان صدیقی کے حالیہ کالموں سے بھی ہوتا ہے کہ وہ ایکسٹینشن کے لیے جنرل راحیل شریف کی بلیک میلنگ سے تنگ آکر خود استعفا دینے کا سوچ رہے تھے۔اپنے پہلے دو ادوار میں نواز شریف ہر چیلنج کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہتے تھے، تیسرے دور میں ان کا رویہ ویسا