افغانستان میں تبدیلی آ گئی……؟؟

Shafiq Awan, Nai Baat Newspaper, e-paper, Pakistan

طالبان کی پُر امن آمد کے بعد افغانستان میں خوف اور غیر یقینی کی فضا یقینا برقرار ہے لیکن افراتفری نہیں ہے اور یقینا وقت کے ساتھ ساتھ طالبان کے اقدامات سے اعتماد کی بحالی ممکن ہو گی۔
طالبان افغانستان پر قبضے کے بعد اپنے بارے تشدد پسندی اور دہشت گردی کے تاثر کو دور کرنے کی حتی المقدور کوشش کر رہے ہیں لیکن دنیا ہے کہ ماننے کو ہی تیار نہیں۔ میری رائے میں جہاں دنیا ان کے ماضی کو سامنے رکھ کر رائے قائم کر رہی ان سے التماس ہے کہ وہ ان کے حال کو بھی پرکھیں اور ایک موقع ان کی امن پسندی کو بھی دیں۔ ہمیں امید رکھنی چاہیے کہ طالبان جو کہہ رہے اس پر عمل کرتے ہوئے اقوام عالم کے خدشات کو دور کر دیں گے۔
طالبان نے دنیا سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ انہیں تسلیم کریں اور افغان کی تعمیر نو میں حصہ ڈالیں۔ یقینا طالبان نے اب تک نظر آنے والے اپنے مثبت طرز عمل سے دنیا کو حیران کر دیا ہے لیکن دنیا کو اسے قبول کر کے گلے لگانا چاہیے چہ جائیکہ ان کے ماضی کے پیش نظر انہیں دیوار سے لگانے کی باتیں کرے۔ فرض کریں اگر خدانخواستہ طالبان پہلے والا طرز عمل اپناتے تو دنیا آج چیخ چنگاڑ رہی ہوتی۔ شکر ہے وہ صورتحال نہیں ہے۔ اقوام عالم طالبان کے تبدیل شدہ رویے کو غنیمت جانیں اور ان سے خوفزدہ ہونے یا منفی تاثر قائم کرنے کے بجائے افغانستان کی تعمیر نو میں حصہ ڈالیں۔
طالبان نے نہ صرف عام معافی کا اعلان کیا بلکہ اس پر عمل کر کے بھی دکھایا۔
خواتین اور اقلیتوں سمیت ہر طبقہ فکر کو امان دینے سے لے کر کس بھی قسم کی انتقامی کارروائی سے پرہیز کر کے افغان عوام کو تحفظ کا احساس دلایا جو کہ قابل تعریف امر ہے۔ خاص طور پر یوم عاشور کے جلوس کی اجازت اور ان کے لیے حفاظتی اقدامات کر کے مذہبی رواداری کی جو مسائل قائم کی قابل ستائش ہے۔ یونیورسٹیوں، سکول کالجوں کے 
دورے کر کے خاص طور پر خواتین اساتذہ کو تدریسی عمل جاری رکھنے کا کہنا بھی ایک مثبت تبدیلی ہے۔ ہسپتالوں کے دورے کر کے خاتون نرسز، ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل سٹاف کو آزادی کے ساتھ کام کرنے اور مکمل تحفظ کی یقین دہانی کرائی۔ پوری دنیا میڈیا کے تحفظ اور آزادی اظہار کے حوالے سے شکوک و شبہات میں مبتلا تھی لیکن طالبان نے میڈیا کو آزادی سے کام کرنے کی اجازت دے کر بھی دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ ایک افغان صحافی کو سٹوڈیو میں افغان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے یہ بھی یقین دلایا کہ افغان سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہ ہونے دیں گے۔ سب کے انسانی حقوق کے تحفظ کی بھی بات کی ہے۔
طالبان کے وفد نے انس حقانی افغان کی رہنمائی میں افغان سیاسی رہنماؤں عبداللہ عبداللہ اور حامد کرزئی سے ملاقات کر کے انہیں مکمل تحفظ دینے کا کہا ہے جو کہ حیرت انگیز لیکن خوش آئند بھی ہے۔ اسی طرح دیگر سیاسی دھڑوں سے بھی رابطہ کر کے بھی انہیں افغانستان کی تعمیر نو میں اپنا کردار ادا کرنے کا کہا ہے۔ طالبان کو بھارت سمیت ہر اس ملک کے شر سے بھی ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے جن کا کام ہی شر انگیزی ہے۔
سب سے بڑھ کر اقوام عالم کے رہنماؤں کے وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ افغان صورتحال پر رابطوں سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا سمجھتی ہے کہ پاکستان کی شرکت کے بغیر افغانستان میں دیرپا امن اور ایک متفقہ سیاسی سیٹ اپ کا انعقاد ممکن نہیں۔ یہ سب پاکستانی قیادت پر اعتماد کا اظہار ہے۔ سب سے خوش آئند بات یہ ہے کہ افغانستان کے حوالے سے پاکستان کی فوجی اور سول قیادت ایک پیج پر ہیں۔
طالبان کے اس اعلان کو بھی بہت پذیرائی ملی کہ افغان حکومتی سیٹ اپ میں ہر دھڑے کو شامل کریں گے۔ اس کا علم نہیں کہ کل کیا ہو لیکن افغان طالبان کو ملک کے لیے ایسا سیاسی سیٹ اپ تشکیل دینا چاہیے جو ہر دھڑے کو قابل قبول ہو۔
بقول امریکی صدر جو بائیڈن کے امریکہ کی افغانستان کی تین لاکھ فوج کی تربیت پر 1 ہزار ارب ڈالر خرچ کیے لیکن امریکی انخلا کے 36 دن بعد ہی افغان فوج طالبان کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوئی۔ اس سے امریکہ کو یہ احساس ہونا چاہیے کہ اسلحہ اور نفرت کی سیاست دیرپا نہیں ہوتی اور فوجیں اسلحہ کے زور پر نہیں عوامی حمایت سے ہی کامیاب ہوتی ہیں۔ یہی پیسہ اگر امریکہ افغان کی تعمیر نو پر خرچ کرتا تو آج اسے یہ سبکی نہ ہوتی جس کی وجہ سے اسے دم دبا کر بھاگنا پڑا۔
خوش آئند بات یہ ہے کہ چین نے افغانستان کی تعمیر نو کی بات کی ہے۔ روس سمیت دیگر ممالک بھی نئی صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں اور امید ہے کہ آنے والے وقت میں اعتماد کی بحالی کے لیے مزید اقدامات کریں گے۔
 یہ بھی خوش آئند بات ہے کہ افغانستان کی نئی حکومت کو تسلیم کرنے کے حوالے سے وفاقی کابینہ نے طے کیا ہے کہ پاکستان اس حوالے سے اقوام عالم کے ساتھ چلے گا۔ اس حوالے سے فواد چودھری نے کہا کہ طالبان کو تسلیم کرنے کا فیصلہ سیاسی تنہائی میں نہیں کریں گے جو بھی فیصلہ ہو گا عالمی مشاورت اور قومی مفاد میں ہو گا۔ خود کو تسلیم کرانے کے لیے طالبان کو بھی اپنے عمل سے ثابت کرنا ہو گا۔
بہر حال اب تک افغانستان سے مثبت خبریں آ رہی ہیں اور اللہ کرے کہ افغان طالبان آئندہ بھی اسی طرز عمل کا مظاہرہ کریں۔ افغانستان کو غیر ملکی تسلط سے تو نجات مل گئی ہے لیکن اب افغان عوام کو بھی ان کی منشا کے مطابق زندگی گزارنے کا حق ملنا چاہیے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سب کچھ ایک نظام اور آئین کے تحت ہو اور طالبان سمیت سب کو ایک متفقہ نظام حکومت اور آئین کی طرف بڑھنا چاہیے۔
قارئین اپنی رائے کا اظہار 03004741474 پر وٹس ایپ، سگنل، بی آئی پی یا ٹیلیگرام کر سکتے ہیں۔