تم تو ایسے نہ کرتے!!!!!

تم تو ایسے نہ کرتے!!!!!

وطن عزیز میں کوئی چیز ترقی کرے نہ کرے لیکن ایک بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ یہاں کرپشن بھر پور انداز میں پنپ رہی۔ بات کسی ایک طبقہ یا شعبہ یا عمر کے کسی خاص حصے تک بھی محدود نہیں ۔ یعنی کرپشن ہو رہی ہے اور بے شمار ہو رہی ہے۔
میرا اور میری بیگم صاحبہ کا ہمیشہ سے یہ خیال رہا ہے کہ جو چیز چھوٹی دکان یا پھیری والے سے دستیاب ہو اسے کسی بھی صورت بڑے بڑے سٹوروں سے نہیں خریدنا چاہیے۔کیونکہ اس طرح ایک طرف تو ہم Capitalism کی نفی کرتے ہیں دوسرے چھوٹے کاروباری طبقہ کی بقا کی جنگ میں بھی اپنا کردار ادا کرتے ہیں لیکن اس وقت شدید افسوس ہوتا ہے اور غصہ آتا ہے جب اس اچھی نیت کے جواب میں دھوکا ملتا ہے۔
گزشتہ روز برادر سرفراز قریشی گھر تشریف لائے تو باتوں باتوں میں معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے ایمانی بھی زیر بحث آ گئی ۔ میں نے ذاتی تجزبہ شیئر کرتے ہوئے معاشرے میں بڑھتی ہوئی کرپشن پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بتا یا کہ میںتو دکانداروں پر اس قدر بھروسا کر تا تھا کہ کبھی واپس دی ہوئی رقم گنی تک نہیں۔ لیکن اب مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ اکثر مہربان میرے اس اعتماد کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے مجھے کم پیسے واپس کر دیتے ہیں۔ مہمان نے بتایا کہ یہ کوئی ایسی عجب بات نہیں، انہیں بھی اکثر اسی قسم کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ تا ہے۔
بڑے سٹور جہاں کمپیوٹرائزڈ بلنگ کا سسٹم موجود ہے وہاں واردات کسی اور طریقہ سے ڈالی جاتی ہے۔ پھرمارکیٹوں میں قیمتیں کنٹرول کرنے والے اور تجاوزات ہٹانے پر مامور سرکاری ملازم اپنی سطح پر اس کرپشن میں شامل ہوتے ہیں ۔ اور بات بڑھتے بڑھتے درمیانے درجے کے افسران، پھر اعلیٰ افسران پھر چھوٹے (گلی محلہ کے لیول کے) سیاستدان ، پھر بڑے سیاستدان، پھر وزارا اور پھر وزیراعظم یعنی ایک سوئپر اور پھیری والے سے لے کر اعلیٰ ترین کاروبار کرنے والے ، چھوٹے ملازم سے لے کر اعلیٰ ترین افسر تک اور پھر اعلیٰ ترین سیاسی قیادت تک کرپشن کی جڑیں اس قدر مضبوط ہو چکی ہیں کہ اس کے خلاف آواز اٹھانے والے کو یا تو
شرمندہ ہونا پڑتا ہے اور یا پھر نقصان اٹھانے کے بعد خاموشی اختیار کرنا پڑتی ہے۔
چند روز قبل اپنے علاقہ کی مارکیٹ میں کچھ خریداری کرنے کے بعد ایک فون سننے کے لیے گاڑی میں بیٹھا ہوا تھا کہ دیکھا کہ سامنے دو بچے جن کی عمریں بمشکل آٹھ دس برس کی ہوں گی دکان سے کچھ ٹافیاں وغیرہ خرید کر میری گاڑی کے سامنے آ کر رکے ۔ ان کی سرگرمی پر غور کرنے سے معلوم ہوا کہ انہوں نے پیکنگ میں سے ٹافیاں نکالیں اور انتہائی مہارت سے اسی سائز کے پتھر اسی پیکنگ میں ڈال کر دکاندار کو واپس کر آئے۔ چھوٹے چھوٹے بچوں کی یہ حرکت دیکھ کر بہت صدمہ ہوا کہ ہماری نئی نسل کس ڈگر پر چل رہی ہے۔ پھر سوچا کہ انہوں نے بھی تو وہی کچھ کرنا ہے جو اپنے ارد گرد ہوتے ہوئے دیکھنا ہے۔
سیاست میں تبدیلی لانے کے دعویدار اور ملک میں کرپشن ختم کرنے کے علمبردار عمران خان کی مثال ہی دیکھ لیں۔ اب تو ان کی ڈٹ کر مخالفت کرنے کی وجوہات صرف سیاسی بھی نہیں رہیں۔ ان پر نا صرف کرپشن ، بے ایمانی اور اقرباپروری کے بہت مضبوط الزامات ہیں بلکہ ان کا سب سے بڑا اور ناقابل معافی جرم عوام کے اعتماد کو چکنا چور کرنا، جھوٹ بولنا او ر خودغرضی کی سیاست کرنا ہے۔
عمران خان صاحب کو سیاست میں مقبولیت ملنے کی صرف ایک وجہ تھی کہ وہ ہمیں بتاتے رہے کہ ماضی کے حکمران بہت کرپٹ تھے اور انہوں نے نہ صرف ملک کو لوٹا بلکہ اسے بڑے بڑے قرضوں کے بوجھ تلے دبا دیا۔ اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے ان کے بیانیے کو مقبولیت حاصل ہوئی اور یہ نہ صرف مرکز میں بلکہ صوبہ پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں بھی حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئے ۔ صرف اتنا ہی نہیں گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں بھی انہیں کے حمائیتوں کی حکومتیں قائم ہو گئیں۔
پہلے سے ایک اچھی سماجی حیثیت رکھنے والے عمران خان کو اچانک اللہ تعالیٰ نے اتنی عزت دی اسے تو چاہیے تھا کہ عوامی خدمت اور اپنے کیے ہوئے وعدوں کی تکمیل کے لیے دن رات ایک کر دیتا اور جو وقت بچتا اس میں سجدہ شکر سے سر ہی نہ اٹھاتا لیکن صد افسوس ہوا اس کے بالکل برعکس۔
عمران خان صاحب کی حکومت کے دوران مخالفین کو بدترین صورتحال کا سامنا کرنا پڑا، بے پناہ مہنگائی کی ایسی بنیاد پڑی کہ اس کے اثرات آج تک عوام کو بھگتنے پڑ رہے ہیں، ملک کی 75 سالہ تاریخ میں اتنے قرضے نہیں لیے گئے تھے جتنے انہوں نے چار سال میں لے لیے، سرکاری محکموں میں پوسٹنگ ٹرانسفر کی نیلامیاں ہوئیں ، سرکاری امور کی انجام دہی میں رشوت ستانی تو خیر پہلے سے تھی لیکن اس کے نا صرف ریٹ کئی گنا بڑھ گئے بلکہ اس کی وصولی میں دیدہ دلیری میں بھی کئی گنا اضافہ ہو گیا۔ جھوٹ بولنا اور پکڑے جانے پر شرمندہ ہونے کے بجائے بھرپور ڈھٹائی کا مظاہرہ کرنا اور پھر بھی اگر بات نہ بنے تو بدتمیزی کرنا اور دست وگریبان ہونے پر اتر آنا یہ سب بھی ، اگرمکمل طور پر نہیں تو نوے فیصد، خان صاحب کے ہی تحفے ہیں۔
ایک ایسا شخص جسے لوگوں نے سچائی اور ایمانداری کا دیوتا سمجھ کر مسند اقتدار پر بیٹھایا تھا اس کی کرپشن، رشوت خوری اور کمشن خوری کی کہانیاں تو بہت جلد منظر عام پر آنا شروع ہو گئی تھیں لیکن اب تو غیر ممالک سے ملنے والے قیمتی تحائف کوتو شہ خانہ سے چکر بازی کے زریعے حاصل کر کے انہیں مارکیٹ میں مہنگے داموں پر بیچنے کا ہر روز ایک نیا سکینڈل سامنے آ رہا ہے۔ بعض ذرائع تو یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ توشہ خاشہ میں موجود قیمتی اشیا کو مصنوعی چیزوں کے ساتھ تبدیل کر دیا گیا ہے۔
اس ساری صورتحال میںمزے کی بات یہ ہے کہ خان صاحب اور ان کے چاہنے والے توشہ خانہ سے اونے پونے داموں میں چیزیں خرید کر مارکیٹ میں مہنگے داموں میں فروخت کرنے کے عمل کو بالکل بھی معیوب نہیں سمجھتے اور ہر فورم پر اس عمل کا دفاع کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ اس چیز کو غلط ماننے کو تیار نہیں کہ کسی کی جانب سے محبت سے ملے تحفہ کو اس طرح مارکیٹ میں بیچنا اخلاقی طور پر انتہائی غیر مناسب تھا۔
اس سارے معاملہ کا سب سے بڑا دفاع یہ پیش کیا جا رہا ہے کہ ماضی کے حکمران بھی تو یہی کچھ کرتے تھے۔ اب ان بھولے بادشاہوں کو کوئی اتنی سادہ سی بات کیسے سمجھائے کہ پہلے حکمران اگر یہ سب کچھ کرتے تھے تو ان کو کرپٹ، چور اور ڈاکو کہہ کر نکال بھی دیا گیا تھا۔ لیکن اپنے آپ کو صادق ، امین اور ریاست مدینہ بنانے کا دعویدار اگر یہ حرکتیں کرے گا تو اس کی سزا تو کئی گنا زیادہ ہونی چاہیے۔

مصنف کے بارے میں