آصف زرداری: ایک جادوگر

آصف زرداری: ایک جادوگر

میں کبھی بھی پیپلز پارٹی کا حمایتی نہیں رہا ہوں لیکن پیپلز پارٹی کو لبرل عوامی جماعت کے طور پر پاکستان کی ایک اہم سیاسی جماعت سمجھتا ہوں۔ پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کی کرشمہ ساز شخصیت کا کمال ہے کہ پیپلز پارٹی ابھی تک ایک مؤثر عوامی قوت اور الیکٹورل پاور کے طور پر پاکستان کی قومی سیاست میں ایک انتہائی اہم عامل کے طور پر متحرک ہے۔
جاری سیاسی کشمکش کے تناظر میں آصف علی زرداری نے جس انداز میں تمام چھوٹے بڑے، سیاستدانوں، اتحادی پارٹیوں اور علاقائی/ صوبائی لیڈروں کو عمران خان حکومت کے خلاف متحد کیا اور پارلیمان سے نکال باہر کیا اس سے یہ بات کہ ’’ایک زرداری سب پہ بھاری‘‘ بھی درست ثابت ہو گئی ہے اور جس بات پر زرداری صاحب خود اصرار کرتے ہیں کہ ’’ایک زرداری سب سے یاری‘‘ بھی سچ ثابت ہو گئی ہے۔ اس بارے میں دو آراء ہرگز نہیں پائی جاتی ہیں کہ پی ٹی آئی کا 3.5 سالہ دور حکمرانی پاکستان کے عوام پر سخت بھاری پڑا۔ اس عرصے میں پاکستان نہ صرف داخلی طور پر انتشار کا شکار ہوا بلکہ اسے عالمی تنہائی کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ عمران خان کی سیاسی بصیرت کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ جنہوں نے انہیں اقتدار کی راہ دکھائی اور جو اپنا وزن ان کے پلڑے میں ڈال کر انہیں ایوان اقتدار تک لانے کا باعث بنے عمران خان ان کے ساتھ بھی نبھا نہیں کر سکے۔ سیاست کو انہوں نے گدلا کر دیا۔ اپوزیشن کو کھدیڑنے اور ذلیل کرنے کے نت نئے طریقے متعارف کرائے کسی قسم کی اخلاقیات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے وہ میدان میں بگٹٹ بھاگتے رہے۔ انہوں نے اپنی اس دوڑ میں کسی اخلاقی، سیاسی اور روایتی اقدار اور قوانین کی ہرگز پروا نہیں کی نتیجہ ہمارے سامنے ہے وہ اپنی اس دوڑ میں بری طرح گر گئے اور اب گلی گلی پھرنے اور پھرتے رہنے کا اعلان کر رہے ہیں۔
عمران خان اپنے عوامی بیانیے اور سوشل میڈیا کی تنظیمی قوت کے بل بوتے پر خاص قوت پکڑ چکے تھے پھر کیونکہ انہوں نے کسی روایت و قانون کی بھی پروا نہ کرنے کا رویہ اختیار کر رکھا تھا اس لئے انہیں ہرانا یا گرانا اتنا آسان نظر نہیں آ رہا ہے۔ اپوزیشن قیادت کو انہوں نے نیب۔ ایف آئی اے اور اپنے سوشل میڈیا بریگیڈ کے ذریعے مکمل طور پر دیوار کے ساتھ لگا رکھا تھا اس لئے ان کے خلاف کوئی مؤثر تحریک چلنے یا بیانیہ تخلیق پانے کا امکان بھی نہیں تھا۔ پھر ہم نے دیکھا کہ مولانا فضل الرحمن اکیلے ہی عمران خان کو للکارتے اور پکارتے رہے۔ انہوں نے اسلام آباد میں ایک مؤثر و منظم دھرنا دے کر اپنی تنظیمی صلاحیت اور سٹریٹ پاور کا کامیاب مظاہرہ بھی کیا۔ اپوزیشن کی بڑی جماعت مسلم لیگ نواز کی صورت حال پتلی تھی شہباز شریف ، بمع اپنے بیٹے 
حمزہ شہباز تقریباً روزانہ کی بنیاد پر نیب عدالتوں کے چکر لگاتے نظر آتے تھے۔ خواجہ آصف، خواجہ سعد رفیق، خواجہ سلمان رفیق، احسن اقبال اور ایسے مسلم لیگی لیڈر مقدمات میں گھرے ہوئے تھے۔ رانا ثناء اللہ پر ہیروئن سمگلنگ کا مقدمہ قائم کر دیا گیا تھا۔ ایسا ہی کچھ پیپلز پارٹی کی قیادت کے ساتھ کیا جا رہا تھا۔ آصف علی زرداری بھی مقدمات کا شکار تھے پیپلز پارٹی کی قیادت کے ساتھ بھی ویسا ہی سلوک کیا جا رہا تھا جیسا ن لیگی قیادت کے ساتھ کیا جا رہا تھا۔ ایسے حالات میں مولانا فضل الرحمن ہی اپنے پورے قد کے ساتھ عمران خان کی حکومت کے خلاف کھڑے تھے۔ دامے، درمے، سخنے عمران خان اور ان کی حکومت پر ٹھیک ٹھیک نشانے لگا رہے تھے۔ عمران خان نے بیانیے کی سیاست کرتے ہوئے، ایک نیا بیانیہ تخلیق کیا۔ مہنگائی، بری گورننس، بدعنوانی اور ایسی ہی اپنی حکومت سے وابستہ دیگر برائیوں و ناکامیوں سے صرف نظر کرتے ہوئے خوشحالی اور ترقی کا ’’خوشنما بیانیہ‘‘ تخلیق کیا۔ اور پھر ان کے حواری دواری ایسی ہی باتوں کا جھوٹا پروپیگنڈہ کرنے لگے اخبارات، الیکٹرانک میڈیا، سوشل میڈیا حد تک حکومت کامیاب نظر آنے لگی تھی مشہور زمانہ گوئبلز، جو ایڈولف ہٹلر کا وزیر اطلاعات تھا، کے بقول جھوٹ کو بار بار اور اس طرح بولنا چاہئے کہ جیسے وہی سچ ہے، تو پھر ایک وقت آتا ہے کہ لوگ اس جھوٹ کو سچ سمجھ کر قبول کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ عمران خان نے بھی یہی طریقہ اختیار کیا، معاشی تعمیروترقی کی باتیں کرنے لگے اور اس طرح انہوں نے مہنگائی رشوت خوری، نالائقی اور اپنی حکومت سے منسلک دیگر برائیوں کا تدارک کرنے کی پالیسی اختیار کی۔
دوسری طرف اپوزیشن نے عوام کی بگڑی اور بگڑتی ہوئی صورتحال دیکھتے ہوئے اور اپنے آپ کو حکومتی انتقامی کارروائیوں سے بچانے کے لئے پی ڈی ایم تشکیل دی جو اپوزیشن جماعتوں کا حکومت کے خلاف اتحاد تھا، تھوڑی ہی دیر میں پیپلز پارٹی اس اتحاد سے الگ ہو گئی اور اس طرح عمران خان کو اپنے مخالفوں پر تنقید کے نشتر چلاتے رہنے کے مواقع ملتے رہے اس دوران مولانا فضل الرحمن نوازشریف کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہے اور باقی ماندہ اپوزیشن اتحاد کو گرماتے رہے حکومت کے خلاف ڈٹے رہے پھر دیکھتے ہی دیکھتے پیپلز پارٹی سمیت تمام اپوزیشن عمران خان کو ایوان اقتدار سے رخصت کرنے پر یکجا ہو گئی۔ آصف علی زرداری اور نوازشریف کے درمیان سلسلہ جنبانی کے باعث عمران خان کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے فارغ کرنے پر اتفاق ہو گیا اور گنتی پوری کرنے کی ذمہ داری آصف علی زرداری کے سپرد ہو گئی اس کے بعد ہم نے دیکھا کہ پاکستان کے چاروں صوبوں سے انہوں نے چن چن کر عمران خان کے خلاف ممبران پارلیمنٹ کو اکٹھا کیا۔ کچھ کو سندھ ہائوس میں جمع کیا، کچھ کو آزادانہ سامنے لایا گیا۔ زرداری صاحب کی ان جادوئی سرگرمیوں میں تحریک انصاف بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی۔
چودھری کی ق لیگ کا بھی ٹیڑا ہو گیا۔ جی ڈی اے بھی انتشار کا شکار ہو گئی۔ پی ٹی آئی جو کچھ عرصہ پہلے اپوزیشن کوطعنے دے رہی تھی اور تحریک عدم اعتماد کو اپنے لئے ’’خوش بختی‘‘ قرار دے رہی تھی پریشانی و پشیمانی کا شکار نظر آنے لگی جوں جوں اپوزیشن مضبوط ہوتی گئی، اس کی رونقیں بڑھتی گئیں، عمران خان کیمپ میں افسردگی چھانے لگی۔ آج تحریک انصاف کا طنطنہ کہیں اور سمت چلا گیا ہے تحریک انصاف نے ’’امریکی سازش‘‘ کا ایک نیا بیانیہ تشکیل دے اپوزیشن کی کامیاب تحریک کو بدنام کرنے کی کوشش کی ہے جلسے کر کے اپنے ووٹروں اور سپورٹروں کو اکٹھا کرنے اور قائم رکھنے کی مہم شروع کر دی ہے لیکن آصف علی زرداری نے جس انداز میں عمران خان کی حکومت کو آئینی اور قانونی طریقے سے چلتا کرنے کی منصوبہ سازی کی اور اسے کامیاب بنایا وہ انہی کا کمال ہے اس لئے یہ کہنا کہ آصف علی زرداری حقیقی معنوں میں ایک شاندار سیاستدان ہیں۔ 
ایک جادوگر: A WIZARD ۔

مصنف کے بارے میں