حادثے سے بڑا سانحہ

حادثے سے بڑا سانحہ

یہ تو ہمیں معلوم نہیں کہ پنجاب کی سرحد پر واقع شہررحیم یار خاں میں تعینات لیڈی پولیس انسپکٹر نے جب زہر کی گولیاں کھا کر اپنی بیٹیوں کو گلے لگایا انھیں آخری بار دیکھا تو بحیثیت والدہ اِسکے کیا جذبات تھے، وہ معصوم بچیاں جو اس صورت حال سے قطعی نابلد تھی وہ کیا سوچ رہی تھیں، یہ تو انکے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ وہ اسکے بعد اپنی ماں کا چہرہ کبھی نہ دیکھ سکیں گی، نہ ہی خود کشی کرنے والی اس آفیسر کی والدہ کو انتہائی قدم اٹھانے کی اُمید تھی، ورثاء کے لئے یہ سب کچھ غیر متوقع تھا، سچ تو ہے ایک ماں جسکی دو معصوم بیٹیاں ہوں وہ انھیں اس انداز میں بے رحم سماج کے حوالہ کر کے یوں رخصت ہو گی کسی کو بھی شک و شبہ نہ تھا۔ ایک تعلیم یافتہ بر سر روزگار،بااختیار ادارہ سے وابستہ ایک خاتون کاشوہر کے رویہ سے تنگ آکر جان دے دینا بہت سے سوالات چھوڑ گیا ہے،سب سے بڑھ کرموت سے قبل دل ہلا دینے والی اِسکی وہ تحریر جو اس نے اپنے کمرہ میں آئینہ پر سرخ رنگ سے رقم کی ،سوشل میڈیا کی وساطت سے اس کا علم پوری دنیا کو ہوا، جس میں مرحومہ نے اپنی والدہ کو وصیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اسکی بیٹیوں کی شادی کسی انسان سے کرنا جو ذمہ داری اٹھا سکے اپنے اندر بہت سے سوال لئے ہوئے ہے۔
 خاندانی ذرائع کے مطابق موصوفہ کی شادی اسکی پسند مگر والدین کی رضامندی سے ہوئی تھی، محکمہ پولیس کے مطابق سب انسپکٹر بڑی اچھی اور قابل آفیسر تھیں، بہت سے مقدمات جو خانگی معاملات سے متعلق تھے نپٹانے کا شرف اسکو حاصل ہوا، لیکن وہ خود اپنے خانگی معاملات کو نہ صرف حل کرنے میں ناکام ہوئیں بلکہ اس کی نذر ہوگئی ۔جب وہ انتہائی قدم اٹھا رہی تھیں تو انھوں نے ایک لمحہ کے لئے بھی نہ سوچا کہ جس پدر شاہی معاشرے کی خلاف وہ اس طرح سراپا احتجاج ہیں وہ اپنی بچیوں کو کیوں اس کے حوالہ کر کے جارہی ہیں۔
ہمارے سماج میں عمومی رویہ تو یہی ہے کہ مائیں اپنے بچوں کی خاطر بہت سی ناانصافیوں کو برداشت کر لیتی ہیں، دکھائی یوں دیتا ہے کہ انکے خانگی معاملات حد سے زیادہ اور ناقابل برداشت ہوگئے تھے کہ اس بیچاری کو موت کو گلے لگانا پڑا، خاندان کے لئے یہ بہت گہرا صدمہ ہے  تاہم بڑاصدمہ، دکھ اور غم ان بچیوں کے لئے ہے جن کے سامنے پہاڑ جیسی زندگی ہے،جب وہ شعوری زندگی میں داخل ہوں گی تو انھیں والدہ کو کھونے کا دکھ بہت زیادہ ہو گا، ہمارے سماج میں ماں بیٹی رشتہ بڑا ہی انمول ہے،شائد وہ اسکو تقدیر لکھا سمجھ کر قبول کر لیں۔ لیکن ایسا معاشرہ جس کی غالب آبادی مسلم ہو اس میں رہتے ہوئے مرحومہ کی یہ نصیحت کہ اسکی بیٹیوں کی شادی کسی انسان سے کی جائے جو ذمہ داری اٹھا سکے بڑا معنی خیز ہے۔
 سماج میں لوگ بیٹیوں سے زیادہ ان کے نصیب سے خوف زدہ ہوتے ہیں، اسکی اگرچہ بہت سی وجوہات ہیں لیکن بہت سے خانگی مسائل جہالت کے پیدا کردہ بھی ہیں، اسکی بھینٹ چڑھنے والی خواتین کے اعدادو شمار اکٹھے کئے جائیں تو وہ چشم کشا ہوں گے، اس میں تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ کی بھی تفریق نہ ہوگی، معمولی معمولی بات پر خواتین کو ذہنی اذیت سے دوچار کرنا تو معمول کی کارروائی سمجھا جاتا ہے۔
نجانے خاتون خانہ کی موت کے بعد ا س کے شوہر نامدار کے کیا تاثرات ہوں گے ،انکی بیٹیاں باپ کے بارے میں کیا رائے قائم کریں گی، وہ ان سانحہ کا کس کو ذمہ دار قرار دیں گی، لوگ ان کی ذہن سازی کس انداز میں کریں گے، کون اصل قصوروار ٹھہرایا جائے گا یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا، لیکن ایک تعلیم یافتہ شادی شدہ ، برسر روزگار جوڑے کا خانگی تعلق ٹوٹنے کا واقعہ قابل توجہ ضرور ہے۔کیوںدونوں حالات سے سمجھوتہ نہ کر سکے، کس کی تربیت میں کیا خامی رہی ۔تعلیم کے مثبت اثرات انکی شخصیت پر مرتب کیوں نہ ہوئے، یہ حل طلب سوالات سماجی علوم کے ماہرین کے سامنے سوالیہ نشان ہوں گے۔
دوسرا بڑا واقعہ پتوکی میں پیش آیا جس کے متعلق بہت کچھ میڈیا پر نشر ہو چکا ہے،اس کو سانحہ کا ہی نام دیا جا سکتا ہے، جہاں ایک شادی ہال میں ایک پاپڑ فروخت کرنے والا اس وقت جان کی بازی ہا ر گیا جب ایک طرف شہنائیوں کی گونج میں لوگ شادی کی خوشی میں شریک تھے تو دوسری طرف گوشت پوست کا زندہ انسان سینکڑوں افراد کے درمیان آخری سانس لے رہا تھا،اسکی لاش انکے مابین موجود تھی مگر اپنی اپنی خوشی میں مگن یہ لوگ اس سے بے خبر کھانے میں مصروف رہے،سوشل میڈیا پر وائرل وڈیو میں اس کے رخسار پر بیٹھی مکھیوں نے واقعہ کی سنگینی کی طرف متوجہ کیا تو انتظامیہ کی دوڑیں لگیں، اس بدقسمت شخص کے ورثاء کو اسکی موت کی خبر بھی سوشل میڈیا پر موجود اسکی تصویر سے ہوئی، اسکی موت کی وجہ کیا ہے یہ معمہ تو فرانزنگ رپورٹ کے آنے کے بعد حل ہو گا، ہرچند کہ سماج کے ہر فرد نے اس انسانی بے حسی کی مذمت کی ہے لیکن باراتیوں نے لاش کی موجودگی میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھ کر شاعر کے اس شعر کی عملی تصویر پیش کی ہے۔
حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا
لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر
ہمارا سماج دو عملی کے خبط میں مبتلا ہے، حج وعمرہ کی سعادت میں مسلم ممالک میں اسے عددی امتیاز ملاہے،رنگ برنگے عماموں پر مشتمل بھاری بھر بڑے بڑے اسلامی اجتماعات باقاعدگی سے منعقد ہوتے ہیں لیکن بدعنوان ریاست کے طور پر ہم دنیا میں معروف ہیں ، باوجود اسکے ٹی وی پرروزانہ کی بنیاد پراسلامی پروگرامات نشر ہوتے ہیں،پرنٹ میڈیا میں ہفتہ وار سلامی ایڈیشن شائع کئے جاتے ہیں اور سوشل میڈیا پر علماء کرام کی وائرل وڈیوز عوامی دلچسپی کا مظہر ہیں، مگر یہ سب ہماری اصلاح کے لئے ناکافی معلوم ہوتا ہے، علماء کرام کے اس انتباہ کے باوجود کہ انسانوں کے ساتھ معاملات کا تعلق بڑا حساس ہے،اسکی تلافی میں حج وعمرہ بھی کارگر ثابت نہ ہوں گے، آئے روز اس نوع کے سانحات بڑھتے جارہے ہیں۔کیا یہ تعلیمات ہمارے حلق سے نیچے نہیں اترتیں؟
کپتان سے سیاسی اختلاف کی گنجائش تو ممکن ہے لیکن سماج کے لئے ا مر بالمعروف کا جو وہ ایجنڈہ رکھتے ہیں، سیرت اتھارٹی کے قیام کا فیصلہ، اسلام اور مسلمانوں کا مقدمہ انھوں نے جس انداز میں دنیا کے سامنے پیش کیا ہے،وہ معاشرے کردار سازی پر زور دیتے رہے ہیں،خاندانی نظام کے تحفظ کی بات کرتے ہیں انکے یہ تمام اقدامات قابل تحسین ہیں، سیرت اتھارٹی کے ذمہ داران کو الیکٹرانک میڈیا پر نشر ہونے والے معاشرتی ڈراموں کا بھی جائزہ لینا ہوگا، جن کے بارے ایک رائے یہ بھی ہے کہ خاندانی نظام کی شکست و ریخت میں بڑا کردار ان کا بھی ہے۔معاشرہ کی کردار سازی  اور تربیت کے لئے سیرت اتھارٹی کا فعال ہونا اب وقت کی اہم ضرورت ہے۔
ہماری غالب اکثریت کے خیال میں اسلام محض عبادات ہی کا مذہب ہے اسکا کردار سے کوئی واسطہ نہیں،جبکہ قرآن حکیم مسلمانوں کو اس میں پورے پورے داخل ہونے کا حکم دیتا ہے۔جب تلک اسکی تلقین منبر رسولؐ سے نہیں ہوگی اور ہم اللہ تعالی ٰ کے اس حکم کی تعمیل نہیں کریں گے،اس طرح کے سانحات سماج میں رونما اور بے یارومدگار لوگ جہالت اور خرافات کی نذر ہوتے رہیں گے۔

مصنف کے بارے میں