گھمن گھیریاں

گھمن گھیریاں

زیادہ دور کی بات نہیں، ابھی کچھ عرصہ قبل ایک قوم پرست مقامی سندھی شاعر نے مرنے سے پہلے ایک عجیب وصیت کی۔ اس نے اپنی وصیت میں لکھا، میرا نمازِ جنازہ نہ پڑھایا جائے، کیونکہ میں کسی آخرت ومابعد پر یقین نہیں رکھتا، مجھے قبر میں اوندھے منہ ڈالا جائے تاکہ میرا منہ میری دھرتی کی طرف رہے اور یہ کہ میری قبر کے گرد زنجیریں باندھ دی جائیں، یہ زنجیریں اس وقت کھولی جائیں جب میری سندھ دھرتی "آزاد" ہو جائے۔ لسانیت، صوبائیت اور زمینی قومیت انسان کی سوچوں کو اس قدرپابندِ سلاسل کر دیتی ہے کہ اس کی قبر بھی زنجیروں سے آزاد نہیں ہو پاتی۔ 
پاکستان اور کلمہ طیبہ لسانی اور علاقائی عصبیتوں کا عجب توڑ ہے۔ اس لیے اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ اپنی زبان اور رنگ و نسل کے پرچارک عام طور پر پہلے کلمے سے اور پھر پاکستانیت سے برگشتہ ہو جاتے ہیں۔ قوم پرست ایک سفرِ معکوس کے پرچارک بن جاتے ہیں۔ آج سے پچھتر برس قبل ہم تمام عصبیتیں ترک کر کے اس وطن تک پہنچے تھے۔ دھرتی ماتا کی تقسیم پر رد عمل میں خون کی ندیاں اور آگ کے دریا بہا دینے والے پھر ایک نئے رنگ و روپ میں اونچے اونچے شملے باندھ کر آ گئے ہیں۔ ناسمجھ سمجھتے ہیں شاید کلمے نے ہمیں تقسیم کر دیا ہے، ادھر بھی چیمے ہیں، چٹھے، کھوکھر اور گھمن ہیں اور یہاں بھی وہی قوم قبیلے ہیں، وہ بھی اونچے شملے باندھتے ہیں، یہ بھی ویسی دھوتیاں اور لاچے باندھتے ہیں، بقول کسے وہ بھی وہی کچھ کھاتے ہیں اور ہم بھی وہی کھاتے ہیں— بس یہ درمیان میں ایک لکیر آگئی ہے تو کیا ہوا؟ مقامی عصبیت کے نشے میں دھت یہ لوگ بھول گئے ہیں کہ اس خونی لکیر کو عبور کرنے کے لیے ہم نے کیا کچھ قربان کیا ہے۔یہ داستان وہ خاندان سنائے گا جو اپنا گھربار لٹا کر اور عزیز و اقرباءکٹوا کر مشرقی پنجاب سے مغربی پنجاب میں داخل ہوا تھا۔ کل کرتار سنگھ کرپان لیے کھڑا تھا، کہتا تھا، میں دیکھتا ہوں پنجاب کیسے تقسیم ہوتا ہے۔اس کے جانشین یہاں سٹیج پر کھڑے ہو کر وحشی لب و لہجے میں پنجابی زبان کے فروغ کی آڑ میں پنجاب کی "تقسیم" کے خلاف نعرے بازی کر رہے ہیں۔ کل کلاںیہ لوگ مغربی اور مشرقی پنجاب کو متحد کرنے کی قرار داد پیش کرنے کی کوشش کریں گے، لیکن زمین سے اٹھی ہوئی یہ تحریک واپس زمین بوس ہو جائے گی۔ 
ہرعلاقائی تعصب کی ابتدا لسانی تعصب سے ہوتی ہے۔ یہی طریقہ واردات بنگال میں اختیار کیا گیا تھا۔ قائد کی واضح ہدایت کے برعکس اردو کے مقابلے میں بنگالی زبان کے حق میں آواز اٹھانے والی تنظیموں کا قیام عمل میں لایا گیا، انہیں انڈین مغربی بنگال کی مالی امداد بھی حاصل تھی۔ اسی لسانی تعصب نے علاقائی تعصب کا روپ دھارا اور نتیجہ یہ نکلا کہ کلمے سے وچھوڑا ہوگیا۔ اب بنگلہ دیش کی پہچان بنگالی بولنے والے لوگ ہیں، ان کی پہچان کلمہ نہ رہی۔ یہ لوگ کلمہ بھول گئے، لیکن ہندو ان کا کلمہ گو ہونا بالکل نہیں بھولے۔ زبان کی بنیاد پر الگ ہونے والوں کو پھر زبان کی بنیاد پر ہندو بنگال میں ضم ہو جانا چاہیے تھا، لیکن ایک زبان اور ایک کلچر ہونے کے باوجود 
ہندو بنگال اور کلمہ گو بنگال کے درمیان سرحد قائم رکھنا ضروری سمجھا گیا۔ دونوں نے ایک دوسروں کو قبول نہ کیا، اِدھر کے کلمہ گو بنگالی ملیچھ تھے، ملیچھ رہے۔ 
یہی فکری غلطی مصر کے جمال عبد الناصر سے بھی ہوئی۔ اس نے کہا، ہم دھرتی کے بیٹے ہیں، یہ دھرتی فراعین کی ہے، ہم ابنائے فراعین ہیں، یہ کلمہ باہر سے وارد ہوا ہے، پہلے ہم مصری ہیں، بعد میں مسلمان۔ اسلام ہمارے فاتحین لے کر آئے تھے۔ حقیقت یہ تھی حملہ آورفقط ملک فتح کرنے آئے تھے، کلمہ دینے کے لیے نہیں آئے تھے۔ یہاں ہر بادشاہ نے دین و مذہب کو اپنے اقتدار کی بقا کے لیے استعمال کیا اور بے دریغ استعمال کیا۔ اس سے یہ نتیجہ تو ہرگز نہیں اخذ کیا جا سکتا ہے کہ اسلام کی آفاقی حیثیت ختم ہو گئی۔ درحقیقت بیرونی حملہ آوروں نے ملک فتح کیے، دل فتح نہ کر سکے۔ دل فتح کرنے کا کام کلمے کے وارثوں نے کیا— آئمہ اہلِ بیت اور ان کے جانشین صوفیا کرام نے کیا۔ حملہ آور فاتحین نے دل زخمی کیے، صوفیاءنے ان کے دلوں پر پھاہا رکھا، ان کی خدمت کی، انہیں لنگر کھلایا، ان کے دکھ سکھ کے ساتھی بنے، اپنے نسب کا فخر ایک طرف رکھ دیا، خلقِ خدا کے ساتھ بحکمِ خدا ایسا سلوک کیا کہ مخلوق ان کا کلمہ پڑھنے لگی، اور یہ اس وحدہ لاشریک ذات کا کلمہ پڑھانے لگے۔ 
یہی غلطی ابوجہل سے بھی ہوئی تھی۔ کلمے کی آفاقیت کے مقابلے اس نے زبان اور نسل کے تعصب کو ترجیح دی، زبان اور گرامر کا ماسٹر تھا، اس کے گرامر کے کلیے صدیوں سے رائج ہیں، لیکن تعصب میں اندھا ہو کر مرا، ابوالحکم تھا، ابوجہل ہو کر رہا۔ اس نے سمجھا شاید کلمہِ توحید قوم قبیلے میں تفریق پیدا کر رہا ہے، وہ یہ نہ جان سکا کہ یہ کلمہ قوموں کو جوڑ رہا ہے، وحدتِ انسانیت کا پیغام دے رہا ہے۔ وہ نہ دیکھ سکا کہ مدینے میں روم سے صہیبؓ، حبش سے بلالؓ، فارس سے سلمانؓ اور یمن سے ابوذرؓ ایک ہی ریاست کے برابر حقوق رکھنے والے شہری ہیں۔ اپنی زبان اور نسل کی شناخت اور فوقیت کے مرض میں مبتلا یہ کیسے مان سکتا تھا کہ کسی عربی کو عجمی پر اور کسی گورے کو کالے پر کوئی فوقیت نہیں۔ 
ہر سال کی طرح امسال بھی مجلس بابا بلّھے شاہؒ کی طرف سے دعوتِ خطاب موصول ہوئی، اس فقیر نے یہ دعوت نامہ ایک سعادت نامہ سمجھ کر سر آنکھوں سے لگایا۔ حاضری ہوئی۔ اپنا مقالہ پڑھا، حسبِ روایت مقالہ ا±ردو میں تھا۔ اس مرتبہ ذوقِ سلیم پر یہ منظر بہت ثقیل لگا کہ کچھ مقررین نے ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت پنجابی زبان کے فروغ اور تحفظ کی آڑ لے کر "گریٹر پنجاب" کے حق میں ایک گرجدار قسم کی گفتگو شروع کر دی۔ تعجب، حیرت اور پریشانی یہ ہوئی کہ جس شخصیت کی یاد میں یہ مجلس قائم کی گئی تھی، اس کی تعلیمات اور افکار کا دور دور تک کوئی ذکر نہیں، بس انہیں پنجابی کا ایک مقامی شاعر بنا کر پیش کر دیا گیا اور پھر"جاگ پنجابی جاگ" قسم کی سطحی باتیں شروع ہو گئیں۔ اردو میں مقالہ و مضامین پیش کرنے والوں کے خوب لتے لیے گئے اور یہ تاثر دیا گیا کہ اردو میں لکھنے والے شاید دھرتی ماتا کی ماں بولی سے غداری کے مرتکب ہو رہے ہیں— للعجب ثم العجب! سندھی بولنے والے سندھو دیش کے نعرے لگائیں، بلوچی بولنے والے گریٹر بلوچستان کے جھنڈے اٹھائیں، پختون بھائی پختونستان کی بات کریں اور پنجاب والے پنجابی زبان کی بات کرتے کرتے گریٹر پنجاب کے نعرے تک جا پہنچیں تو پاکستان کا نعرہ کون لگائے گا؟ پاکستان کس کی ذمہ داری ہے؟ پاکستان کی فکری اساس پرکون "سوجھوان" پہرہ دے گا؟ 
"چودہ طبقیں سیر اے ساڈی ، کتے نہ ہندے قید، بلّھے شاہؒ دی کی پچھنا اے، نہ پیدا نہ پید" ایسے اشعار پر ہر سال سر دھننے والے مقررین بھی اس آفاقی پیغام کو پنجابی کنٹوپ پہنانے پر راضی ہو گئے؟ یوں تو ہم یہاں سنتے چلے آئے کہ "بابے کو مسلمانی چوغہ نہ پہناو¿ وغیرہ وغیرہ" لیکن لسانی تعصب کی زد میں آ کر اسے قصور کی گلیوں اور پنجاب کے پانیوں تک محدود کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بابا بلّھے شاہ ایسے عظیم صوفی کا حق ہے کہ ان کے کلام ترجمہ اور تشریح دنیا کی ہر زبان میں کی جائے۔ یہاں ا±ن پر ا±ردو مقالے بھی برداشت نہیں کیے جارہے۔ اس عظیم شخصیت کے کلام پر فکری پہرہ دینا از حد ضروری ہے، وگرنہ اندیشہ ہے کہ یہ کلام تیسرے درجے کے قوالوں اور دوسرے درجے کے دانشورں کے تختہِ مشق کی زد میں آکر اپنی آفاقی جہت کھو بیٹھے گا۔ رومیؒ نے فارسی میں لکھا، فارسی زبان بولنے والے اگر قدغن لگا دیتے کہ ہم صرف رومی? کو فارسی میں سنیں گے، فکرِ رومیؒ پر صرف فارسی زبان میں لکھا جائے گا تو آج رومیؒ یورپ میں سب سے پڑھا جانے والا صوفی شاعر کیسے ہوتا؟
 منطق کی دنیا بھی عجیب ہے، منطق نہ ہوئی موم کی ناک ہوگئی— یہاں یہ منطق بھی سننے کو ملی کہ بلّھے کو فارسی اور عربی بھی آتی تھی لیکن اس نے لوکائی کے لئے لکھا اور لوکائی کی زبان میں لکھا، اس لیے ہمیں بھی اس پر صرف پنجابی میں لکھنا چاہیے۔ بھئی! صوفی نے اپنا پیغام مقامی لوگوں کو دینا ہے، اس کا پہلا مخاطب ہی مقامی لوگ ہیں، اسکے کلام کو دوسرے خطوں اور زبانوں تک پہنچانااس کے مریدین اور شارحین کا کام ہوتا ہے۔ ظاہر ہے، جب آپ طبع زاد کلام لکھیں گے تو اپنی ہی زبان میں لکھیں گے،لیکن ایسی کانفرنسیں اور سیمینار تو تشریحات اور ابلاغ کے لیے برپا کی جاتی ہیں۔ بابا بلّھے شاہؒ کا مشن پنجابی زبان کا فروغ نہ تھا۔ آفاقی پیغام کا شاہباز اگر مقامی منڈیر پر آن بیٹھا ہے توگاو¿ں کی نالائق بڑھیا کی طرح اس کے ناخن اور پَر ک±ترنے کی کوشش نہ کی جائے۔
مجلس بلّھے شاہؒ کو فروغِ افکارِبلّھے شاہؒ کے لیے وقف ہونا چاہیے، اسے لسانی اور صوبائی عصبیت کے فروغ کے لیے استعمال نہ کیا جائے۔ اگر یہ طرزِ فکر برقرار رہتا ہے تو ہماری طرف سے اعلان برا¿ت ہے!! ہم خوشبو کے مسافر ہیں، جہاں تعصب کی سڑانڈ آنے لگتی ہے،وہاں ہمارا دم گھٹنے لگتا ہے۔ حریتِ فکر کے مسافروں کو گلی محلے کا طواف نہ کرایا جائے۔ صوفیاءصراطِ مستقیم پر ہیں، صراطِ مستقیم کا سبق دینے کے لیے آئے ہیں— اس لیے ہمارا راستہ سیدھا ہے— ہمیں گھمن گھیریوں سے گھن آتی ہے۔

مصنف کے بارے میں