گیس کا بحران اور محکمہ سوئی گیس

 گیس کا بحران اور محکمہ سوئی گیس

گزشتہ ساڑھے 3سالہ حکومتی کارکردگی کو دیکھا جائے تو جہاں بڑے مسائل حل نہ ہوسکے وہاں مختلف اداروں پر سوالیہ نشان اٹھائے گئے خاص کر اگر ان اداروں کے حوالے سے بات کی جائے جن کا براہ راست تعلق عوام کے ساتھ ہے اوروہ ادارے عوام کو سہولیات فراہم کرتے ہیں ایسے اداروںمیں ایک بڑا ادارہ سوئی گیس کا ہے یہ پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ ایوب خان کے دور میں سوئی کے مقام پر جب گیس نکلی تو کہا گیا کہ عوام کے ایندھن کا ایک بڑا مسئلہ حل ہوگیا ہے اور برسوں نہیں اب صدیوں تک گیس فراہم کی جاتی رہے گی اور یہی بات درسی کتب میں بھی بتائی گئی جس بارے میں آج بھی سوال اٹھتا ہے کہ درسی کتب جو حکومت کی نگرانی میں شائع ہوتی ہیں وہاں غلط بیانی کیوں کی گئی کہ ہمارے ہاں گیس کے صدیوں کے ذخائر موجود ہیں۔ ہمارے برعکس آج اگر پوری دنیا میں دیکھا جائے تو جن ممالک میں یہ قدرتی گیس ہے وہاں کبھی نہ مسئلے مسائل نہ مفادات اور نہ گیس کی کمی کی باتیں سننے کو ملیں قدرتی گیس کو بھی ایسا مسئلہ بنادیا کہ صدیوں کی نوید سننے والے عوام سالوں میں ہی رونے لگے ،ذوالفقارعلی بھٹو سے لے کر عمران خان کے دورحکومت تک اگر بات کی جائے تو مختلف حکومتوں نے اس ادارے کو عوامی مفادات کے بجائے ذاتی مفادات کے تحت ایسی ناقص پالیسیاں بنائیں جن میں انڈسٹریل ایریا بارے غلط پالیسیاں بنائی گئیں چند سال قبل فیصل آ باد کے بہت سے انڈسٹریل یونٹس کو گیس پر منتقل کیا گیا جس کا مقصد بین الاقوامی مارکیٹ میں قیمتوں کا مقابلہ کرنا تھا لیکن بعد ازاں صنعتکار ہاتھ مل مل کر روتے رہے کہ جائیں تو جائیں کہاں کیونکہ بجلی سے گیس پر تبدیل کرنے پر کروڑوں روپے خرچ ہوئے۔
لیکن ہم یہاں حکومتی کارکردگی کے بجائے عوامی مسائل کی پہلے بات کرتے چلیں کہ آج حکومتی رپورٹس کے مطابق بدقسمتی سے قدرتی گیس نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے گھروں کے چولہے ٹھنڈے ہوچکے ہیں لوگ اس قدر پریشان ہیں کہ ان کا جینا دوبھر ہوگیا ہے وہ نہ پکاسکتے ہیں نہ کھا سکتے ہیں کمرتوڑ مہنگائی میں گیس کا نہ ملنا ایک عذاب الٰہی بن چکا ہے جبکہ قوم اس کی عادی ہو چکی ہے۔ وعدوں پر چلنے والی حکومت کو یہ احساس ہی نہیں کہ گھروں میں گیس نہ ملنے سے جس قدر رونے دھونے پڑے ہیں اور آنے والے دنوں میں مزید حالات تباہی کی طرف جارہے ہیں۔ نہ ہی اس کے پاس اس کام کی فرصت ہے کہ وہ اس بارے میں کوئی منصوبہ بندی کریں اور توانائی کے متبادل ذرائع بارے سوچیں ۔
ہم یہاں سابقہ حکومتوں کی کارکردگی بات نہیں کرتے صرف موجودہ حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لیںتو گیس کے معاملے میں بڑے افسوس کے ساتھ یہ بات کہنی پڑتی ہے کہ اس نے سابقہ حکومتوں کی روش پر چلتے ہوئے بجائے بہتری کے ایسے اقدامات اٹھائے جس سے حالات مزید بگڑتے گئے حکومتی وزراء دن رات ن لیگ کی حکومت کو موردالزام ٹھہرانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے ۔الزمات کی آڑ میں وہ یہ بات بھول گئے ہیں کہ عوام کے مسائل حل کرنا ان کی حکومت کا کام ہے وہ آج ایل این جی کے بارے میں جھوٹ کے اوپر جھوٹ بولے جارہے ہیں ۔یہ لوگ بڑی ڈھٹائی کے ساتھ یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر سابقہ حکومت ایل این جی بروقت خرید لیتی تو آج عوام کو یہ دن نہ دیکھنے پڑتے حسب معمول موجودہ وزراء اس کا الزام بھی گزشتہ حکومت پر لگا نے سے نہیں شرما رہے۔ ان وزراء سے پوچھا جائے کہ ساڑھے تین سالوں میں آپ نے ایسے اقدامات کیوں نہ اٹھائے اور آپ کی حکومت نے بروقت کیوں ایل این جی برآمد نہیں کی۔ خیر ان کا تو کیا کہنا یہ تو منی بجٹ کو بھی اپنی فخریہ پیشکش کہہ رہے ہیںاور عوام پر ٹیکس لگاتے وقت ذرا بھی شرمندگی محسوس نہیں کر رہے۔
آج پاکستان میں کئی ایسے مقامات ہیں جہاں سے سوئی گیس نکالی جاسکتی ہے اور اتنی گیس ہے کہ ہمارے آنے والی نسلیں صدیوں اس سے استفادہ کرسکتی ہیں مگر گزشتہ حکومتوں سمیت موجودہ حکومت نے بھی ان ذخائر کو تلاش کرنے کے لیے کوئی اقدامات نہیں اٹھائے جبکہ ضرورت اس بات کی تھی کہ بیانات سے نکل کے ایسے اقدامات کی طرف توجہ دی جاتی تو آج عوام کو اتنی بڑی تباہی کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ 
بات سے بات چلی تو بات بہت دورچلی جائے گی یہاں ہم محکمہ سوئی ناردرن کی ایک کاوش پرخراج تحسین پیش کرتے ہیں کہ اس نے عوام کی پریشانیوں کو دورکرنے کے لیے آگہی مہم کا آغاز کیا اورجہاں عوام کو پریشانیوں سے دورکرنے کی باتیں کیں وہاں گیس بچانے کی مہم کے بارے میں بھی آگاہی دی ،آگاہی مہم میں تین چارباتوں کی طرف خوبصورتی سے توجہ دلائی گئی یعنی گیس کا استعمال کم کریں، یہ درست ہے کہ سردی بڑھتی جارہی ہے اس سے سردی سے بچنے کے لیے بجائے گیس کو کمروں میں استعمال کیاجائے زیادہ سے زیادہ گرم کپڑوں کا استعمال کریں تاکہ گیس کی بچت سے ہوبلکہ آپ اس کو بے جا استعمال سے بچاسکتے ہیں اور آپ کی یہ بچت دوسروں کے کام بھی آسکتی ہے۔ آگاہی مہم کے دوران گیس کی بچت کے طریق کار کو بڑی خوبصورتی سے پیش کیا گیا ہے۔ایسے اقدامات کے بارے توجہ دلوائی گئی کہ آپ صرف گیس بچا نہیں سکتے بلکہ دوسروں کی پریشانی بھی دورہوسکتی ہے۔ 
’’سردی آگئی ہے خیال رکھنا‘‘ اس سلوگن کے ساتھ عوام کو اس خطرے سے بھی آگاہ کیا گیا ہے کہ گیس کے حصول کے لیے کمپریسر کا استعمال نہ کریں اوراگر ایسا کیا گیا توپھر آپ کے خلاف قانونی کارروائی ہوسکتی ہے ۔سوئی ناردرن گیس والوں کی طرف سے ایسی آگاہی ایک بروقت اور دوبہترین اقدام ہے اس سے ادارے کی عوام سے وابستگی کا احساس دکھائی دیتا ہے۔

مصنف کے بارے میں