برق گرتی ہے عوام پر

برق گرتی ہے عوام پر

شاعر مشرق نے جس برق کے مسلمانوں پر گرنے کا تذکرہ کیا ہے، ہماری مراد وہ نہیں بلکہ یہ اسکا ذکر خیر ہے ، قومی خطاب میں جس کے نرخ میں معمولی کمی کرکے کپتان نے حاتم طائی کی قبر پر لات دے ماری ہے۔ ایک زمانہ تھا جب عوام الناس بچوں کی صحت، تعلیم، بنیادی ضروریات پورا کرنے کے لئے فکر مند ہوتے تھے، اب گھی، پٹرول اور بجلی کا بل عوام کا پنجابی والا’’تراہ‘‘ نکال دیتا ہے، بل دیکھ کر ہر شہری محسوس کرتا ہے کہ یہ برق اس پر ہی گرنے آئی ہے۔
اسکی شدت میں اضافہ کا ایک سبب سوشل میڈیا بھی ہے، جسکے توسط سے اب عام شہری بھی جانتا ہے،کہ بجلی کے نرخ سے زیادہ اس میں ٹیکس شامل ہے،جن کی کئی اقسام ہیں، وہ نمازی جو مسجد میں ٹی وی دیکھنے نہیں نماز ادا کرنے آتے ہیں وہ بھی اسکی ادائیگی کرتے ہیں،یہ تو وہ قیمت ہے جو آن ریکارڈ ہے، اس میں وہ خفیہ چارجز نہیں ہیں، جوہم سے ’’گن پوائنٹ‘‘ پر لئے جاتے ہیں،بجلی چوری کرنے والے کابل، واپڈا کے اہلکاروں کو مفت عطا کئے جانے والے یونٹس، ریٹائرڈ افسران کے بجلی کے اخراجات،مراعات یافتہ طبقہ کو فراہم کی جانے والی بلا معاوضہ بجلی بھی عام شہری کے بل کا حصہ ہے جن کا تذکرہ بلوں میں قوم کے وسیع تر مفاد میں نہیں کیا جاتا، انکے دیکھا دیکھی اب تو دیگر منظم ادارہ جات نے بھی بجلی کے بھاری نرخ دیکھ کر نصف شرح پر اسکی فراہمی کا کہا ہے، جس کا ذکر ایوان بالا میں بھی ہوا ہے۔
ساٹھ کی دہائی سے قائم واپڈا نامی ادارہ کی خوبی یہ بھی ہے کہ اس نے بدلتے ہوئے حالات کے مطابق خود بدلنے کی سنجیدہ کاوش نہیں کی، البتہ اسکی انتظامی ہیئت کو ہی کوبدل ڈالا، اک زمانہ تھا جب چیئرمین جیسی بھاری بھرکم شخصیت واپڈا ہائوس میں برا جمان ہوا کرتا تھی اب یہ منصب پیپکو کمپنی بنا کر ان کے حوالہ کر دیا گیا ہے،اختیارات کی تقسیم کے لئے مختلف علاقہ پر مشتمل ادارے بنا دیئے ہیں، ان سب کو کنٹرول کرنے کے لئے نیپرا اتھارٹی اپنے فرائض منصبی انجام دے رہی ہے، گزشتہ دنوں ہماری ایک نشست افسر مجاز سے ہوئی، حلقہ احباب میں سے یہ بھی اپنے شعبہ کے لئے درد دل رکھتے ہیں، ہم نے سوال داغا کہ پری پیڈ کارڈ سے بجلی بل کی ادائیگی کے منصوبہ کا انجام کیا ہوا، ایک ٹھنڈی آہ بھرکر کہنے لگے،یہ اچھا منصوبہ تھا، ٹرائل بھی کیا گیا، اسکی کامیابی بھی ممکن تھی، صارف کے لئے فائدہ مند تھا، لیکن 
جب محکمہ کی افسر شاہی سر جوڑ کر بیٹھی تو دینے والے نے اندر کی یہ خبر بتائی کہ اس پالیسی کے اطلاق سے بہت سے شعبہ جات سے ملازمین فارغ ہو جائیں،اسکو طوالت دینے کے لئے کئی جواز پیش کیے گئے، آخر کارافسران نے ہاتھ کھڑے کر دیئے، حالانکہ ترقی یافتہ ممالک میں یہ منصوبہ کامیابی سے چل رہا ہے، اس سے بجلی کی چوری بھی ختم ہوتی ہے، لائن لاسز میں ہر صورت کمی کرنا پڑتی ہے۔
بر سبیل تذکرہ گویاہوئے کہ بیرون ملک تو گرڈ سٹیشن کا نظام ہی ڈیجیٹائز ہے،فنی خرابی کا پیغام صارف کو فون پر مل جاتا ہے اور چند منٹ کی کاوش سے دور ہوجاتا ہے سارا شہر تاریکی میں نہیں ڈوبتا، محدود علاقہ متاثر ہوتا ہے ہمارے ہاں بڑھتی ہوئی آبادی کے اعتبار سے ٹرانسفارمر ہی اپ گریڈ نہیں کیے جاتے، انکی تبدیلی بھی سیاسی سفارش پر ہوتی ہے،حالانکہ یہ تو محکمہ کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ بڑھتی ہوئی آبادی اور بجلی کی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے طویل المیعاد پلاننگ کرے۔
 دیہاتوں میں صورت حال زیادہ گمبھیر ہے، جہاں ٹرانسفارمر کی مرمت کے لیے صارفین پر مالی بوجھ ڈالا جاتا ہے، باوجود اس کے فنڈز کی کوئی کمی نہیں ہے، مگر بہت سے مسائل کی بنیادی وجہ افسران کی عدم دلچسپی، بد انتظامی جس کااعتراف موصوف کو کرنا پڑا۔
اس صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے محکمہ نے فیصلہ کیا کہ ایک مقام پر تعینات ایس ای کے عہدہ پر برا جمان حضرات کا تبادلہ دوسرے صوبہ جات میں دوسال کے لئے کیا جائے،بعض کے تو بھاگ جاگ اٹھے انھوں نے دو سال میں لہریں گننے ہی کا کام کیا اور جمع پونجی کے ساتھ واپس اپنے منصب پر فائز ہوئے ،اس کا ایک نقصان یہ بھی ہوا کہ انھوں نے یہ سوچ کر کہ واپسی تو لازم ہے، محنت اور لگن سے کام ہی نہ کیا، اس پوسٹنگ پر انھیں اضافی مالی مراعات بھی ملتی تھیں، عمومی رائے یہ بھی ہے کہ ملازمین کی یونین افسران کے ’’گناہوں ‘‘پر پردہ ڈالنے کیلئے استعمال ہوتی ہے۔ لیکن تالی کبھی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔
حلقہ احباب میں سے ایک نے نئی’’واردات‘‘ کی مخبری کرتے ہوئے کہا کہ جونہی موسم گرما کا آغاز ہوتا ہے،تو اپنے شناسا لوگوں کو نوازنے کے لئے انکے میٹر اتار دیئے جاتے ہیں، انتہائی سست رفتار سے چلنے والے میٹر نصب کر دیئے جاتے ہیں،ریکارڈ میں انکو Defectedدکھایا جاتا ہے،موسم گرما میں ائرکنڈیشنڈ کی یخ بستہ ٹھنڈک انجوائے کرنے کے بعد معمولی بل ادا کرنے کا’’ قومی فریضہ‘‘ وہ اپنے دست شفقت سے ادا کرتے ہیں۔، کیونکہ محکمہ کئی ماہ تک اوسط بل ہی بھیجتا رہتا ہے، موسم سرما کی آمد پر پھر میٹر تبدیل کر دیئے جاتے ہیں،رند کے رند رہتے ہیں اور جنت بھی ہاتھ سے نہیں جاتی۔یہ سب کچھ اہلکاروں کی خصوصی شفقت کے بغیر ممکن ہی نہیں۔
مذکورہ افسر نے ایک اہم معاملہ کی طرف بھی توجہ دلائی، ہم سن کرورطہ حیرت میں گم ہوئے کہ اتنا اہم مسئلہ ہائی آفیشل کی نظروں سے کیسے اوجھل رہا،گویا ہوئے جنوبی پنجاب کے صدر مقام میں بیسیوں ایسی سب ڈویژن ہیں جو گزشتہ چالیس سال سے کرائے کی عمارات میں اپنے دفتر قائم رکھے ہوئے ہیں، اتنی طویل مدت اور بھاری بھر کرایہ کی ادائیگی کے بعد بھی کسی کو خیال نہیں آیا کہ اربوں روپیہ کرایہ کی مد میں دیا جارہا ہے، اس سے تو بڑے کمپلیکس تعمیر ہو سکتے تھے،جہاں کئی سب ڈویژن کے دفاتر کا قیام عمل میں لایا جا سکتا تھا۔
 واقفان حال کہتے ہیں، کہ اس کے پیچھے مفاداتی نظریہ کارفرما ہے، جس شعبہ کے ناتواں کندھوں پر کرایہ پر کوٹھیاں لینے کی ذمہ داری ہے،انکی نگاہ خاص صرف ان مالکان پر پڑتی ہے،جن سے ان کا کوئی نہ کوئی حسب نسب ہوتا ہے۔اب تلک کرائے کی کوٹھیوں میں دفاتر کے قیام میں کیا مصلحت ہے، کن کے مفادات اس فعل سے وابستہ ہیں، اس بارے میں راوی خاموش ہے۔
عوام کی ایک دائمی شکایت پر نجانے واپڈا انتظامیہ کب نوٹس لے گی، میٹرریڈر اپنی فن کاری سے 30یوم کے ماہ کو37ایام تک طویل کر دیتا ہے، بل پرمیٹر ریڈنگ کی تاریخ اسکی آمد سے 7یوم قبل کی ہوتی ہے،جہاں ایک اہلکار محکمہ کی رٹ کو چیلنج کر رہا ہو، وہاں صارف کس باغ کی مولی ہے۔
اس شعبہ کے بارے میں عوام کی وہی رائے ہے جو پولیس کے متعلق ہے،بلکہ اب یہ محکمہ رینکنگ میں اگلے درجہ پر ہے، اس میں وہ تمام خرافات پائی جاتی ہیں،جو کسی شہری کی حیاتی تنگ کرنے کے لئے کافی ہیں، عوامی فلاح اور برتائو کے اس ادارہ کی ابتری کا نوٹس نجانے کب اسکی وزارت لے گی۔موصوف کے ساتھ گفتگو سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے، کہ سرکار نہ ہی واپڈا کی افسر شاہی اپنے شعبہ میں جدت لانے کی خواہاں ہے، محکمہ کی بد انتظامی کی عوام کو ملنے والی سزا مسلمانوںپر برق گرنے ہی کے مترادف ہے۔

مصنف کے بارے میں