لڑکیوں میں منشیات کا استعمال وباء کی صورت اختیار کر رہا ہے، نامور صحافی

 لڑکیوں میں منشیات کا استعمال وباء کی صورت اختیار کر رہا ہے، نامور صحافی
کیپشن: فائل فوٹؤ

لاہور:تعلیم یافتہ نوجوان نسل بالخصوص لڑکیوں میں منشیات کا استعمال وباء کی صورت اختیار کر رہا ہے۔ نئی نسل کو تباہ کرنے میں بیرونی اور اندرونی عناصر شامل ہیں۔ منشیات فروشوں کی ہٹ لسٹ پر کالج اور یونیورسٹی کے طالبعلم ہیں کیونکہ امیر اور خوشحال گھرانوں سے تعلق رکھنے والے

نامور خاتون صحافی نےاپنے ایک خصوصی کالم میں  لکھا ہے کہ  بچوں سے رقم بآسانی مل جاتی ہے۔ ان منشیات میں خاص طور پر کوکین، مارفین، ٹریماڈول، میتھاڈون، ڈایامارفین، فینٹانل اور میفیڈرون کا استعمال تیزی سے بڑھ رہا ہے جو کہ چین سے غیر قانونی طور پر ڈارک ویب کے ذریعے درآمد کی جاتی ہے۔

سینٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی میں ساؤتھ ایشین سٹریٹجک سٹڈیز انسٹیٹیوٹ (سیسی) نامی ایک غیر سرکاری تنظیم کی طرف سے ایک رپورٹ پیش کی گئی جس میں یہ دعویٰ تھا کہ اسلام آباد کے 40تعلیمی پرائیویٹ اداروں میں زیر تعلیم 400 طلبہ و طالبات نشہ کرتے ہیں۔ جس میں آئس یا کرسٹل میتھ سرِفہرست ہے۔ اب کچھ والدین یہ سوچتے ہونگے کہ یہ کس بلا کا نام ہے؟ یہ کیا ہوتی ہے۔ آئس ’’میتھ المفٹامین‘‘ نامی کیمیکل سے بنتا ہے۔ یہ چینی یا نمک کے بڑے دانے کے برابر ایک کرسٹل کی قسم کی سفید چیز ہوتی ہے جسے بلب کے باریک شیشے سے گزار کر گرم کیا جاتا ہے۔ طالبعلم کے ٹاپ کرنے کا جنون، نمبروں کی ٹف مقابلہ بازی، اسائمنٹ کا بوجھ نوجوانوں کو یہ نشہ لینے پر آمادہ کرتا ہے۔

نشہ کرنے کے بعد نشئی کی توانائی دوگنا ہوجاتی ہے۔ بھوک پیاس سے قدرے بے نیاز ہو جاتا ہے۔ نیز 24تا 48 گھنٹے بآسانی جاگ سکتا ہے۔ اس نشے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ دوسری بار کے استعمال سے طالبعلم اس کا عادی بن جاتا ہے۔ اگر اس نشے کی تھوڑی سی مقدار سے بھی تجاوز کیا جائے تو موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔ بہت سارے تعلیم یافتہ طالبعلم بشمول لڑکیاں جو کہ ہاسٹل کی مکین ہوتی ہیں وہ یہ کہتی دکھائی دیتی ہیں۔کہ منشیات کا استعمال عارضی ہے، وہ اسے پریشانی کے دوران مثلاً امتحان یا کسی پراجیکٹ کی تیاری یا موڈ بہتر کرنے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔

یونیورسٹیز میں کسی ڈیلر کی بجائے اکثر دوستوں کے ذریعے منشیات لائی جاتی ہیں۔ جون اِن کو کسی منشیات فروش سے ملتی ہیں۔ منشیات فروشوں کا پورا نیٹ ورک ایکٹو ہے۔ وٹس ایپ علاوہ ازیں جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے فیس بک پر آن لائن بکنگ کی جاتی ہے۔ گینگ میں خواتین بھی شامل ہوتی ہیں تاکہ منشیات کو شاطر طریقے سے مطلوبہ مقام تک بآسانی پہنچایا جاسکے۔ ظاہر ہے جب گاڑی میں خواتین ہوں تو پولیس چوکی پر چیکنگ بھی واجبی سی ہوتی ہے۔ رہی بات سکولوں کی کینٹین کی تو میٹھی چھالیہ، بازاری سونف سپاری بآسانی مل جاتی ہے۔

ان چیزوں کا شمار بھی کسی نہ کسی طور سے نشے کے دائرے میں ہی آتا ہے۔ بہت سارے سکولوں کی کینٹین میں صمد باند، جوڑ سلوشن بھی دستیاب ہوتی ہے۔ بچے ڈرائنگ اور اس سے منسلک سرگرمیوں کی تیاری کے بہانے اسے خرید لیتے ہیں اور گراؤنڈ یا کسی ایسی جگہ جہاں چھپا سکے اس کو بطور نشہ استعمال کرتے ہیں۔ ہمارے بچے ہمارے مستقبل کے معمار ہیں۔ سکول انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ کینٹین سائیڈ پر کیمرے نصب کرے تاکہ کینٹین میں ہونے والے حالات و واقعات پر احسن طریقے سے جائزہ لیا جاسکے۔

دوسری جانب معاشرے کی ستم ظریفی ہے کہ اساتذہ اپنا کلیدی کردار ادا نہیں کر رہے۔ پس و پیش سے کام لے رہے ہیں۔ لیکچر کے دوران سوالات پوچھنا اور طالبعلم کے ذہن کو جھنجوڑنا ہی وہ واحد ہتھیار ہے جس سے اساتذہ کو اندازہ ہو جاتا ہے کہ طالبعلم کس جہان میں ہیں۔