کرپشن کی حقیقت اور تاثر

کرپشن کی حقیقت اور تاثر

گزشتہ روز مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کے حوالے سے برطانیہ کی عدالت کے آنے والے فیصلے نے ایک بڑا اہم سوال اٹھایا ہے کہ پاکستان کو کرپشن کی حقیقت اور تاثر دونوں کو ختم کر کے شفافیت اور احتساب کے اصولوں پر عمل درآمد کرنا ہو گا۔ احتساب اور شفافیت ہی آگے بڑھنے کا بہتر راستہ ہے۔ پاکستان میں کرپشن کی کوئی حقیقت یا کوئی تاثر بھی موجود ہے تو اسے زائل کرنا اور شفافیت و احتساب کے اصولوں پر عمل درآمد کرنا ہو گا کیونکہ کرپشن کا تاثر معیشت اور بیرونی سرمایہ کاری کے لئے نقصان دہ ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ احتساب سب کے لئے خواہ وہ اپوزیشن سے تعلق رکھتے ہوں یا حکومت سے یکساں ہونا چاہئے۔ لیکن موجودہ دورِ حکومت میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ اپوزیشن کو تو ہر عمل کا جواب دینا پڑ رہا ہے لیکن حکومتی ارکان احتساب سے بالاتر ہیں۔ جب سے موجودہ حکومت برسرِ اقتدار آئی ہے تب سے قوم کو گڈ گورنس کی نوید سنائی جا رہی ہے لیکن جب ملکی حالات کا احاطہ کیا جائے تو ہمیں یہاں ایک بھی ایسی جگہ نہیں نظر آتی جس کے بارے میں کہا جا سکے کہ وہاں کرپشن نے بسیرا نہ کیا ہو حتیٰ کہ قومی نوعیت کے معاملات جن کا تعلق ملکی استحکام اور سا  لمیت سے ہے پر بھی انگلیاں اٹھائی جا رہی ہیں۔ اسی طرح دوسرے سرکاری محکموں میں بد عنوانی نے باقاعدہ گھر بنا لیا ہے۔ سرکاری سطح پر اس کے انسداد کے لئے نیب اور جو دوسرے اس طرح کے ادارے کام کر رہے ہیں ان کی کارکردگی کے بارے اعلیٰ عدلیہ تک نے سوال اٹھائے ہوئے ہیں کہ ان اداروں پر بااثر لوگوں کو بچانے کے لئے دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ اب اگر ان کی کارکردگی جانچنے کے لئے اگر کوئی اور ادارہ قائم کیا جائے تو پھر وہی چکر شروع ہو جائے گا کیونکہ کرپشن کی جڑیں معاشرے میں کافی گہرائی تک اثر کر چکی ہیں اگر کبھی کبھار اس کی کچھ شاخیں تراش دی جائیں اس سے درخت کے پھلنے پھولنے پر فرق نہیں پڑے گا۔
ہمارے ہاں جو شخص اعلیٰ پیمانے کی بد عنوانی کا ارتکاب کر کے قانون کی گرفت سے بچ نکلتا ہے اسے نہایت سمجھ دار اور فنکار مانا جاتا ہے۔ یہاں انسان کی حیثیت کا تعین اس کے اخلاق، کردار اور شرافت سے نہیں بلکہ دولت اور رتبے سے کیا جاتا 
ہے۔ پانامہ اسکینڈل سے لے کر پنڈورا پیپرز تک اور دیگر بے شمار معاملات میں ہونے والی کرپشن ہمارے بد عنوان معاشرے کی علامتیں ہیں۔ ایسی صورت میں سرکاری سطح پر چند قوانین مرتب کر کے یا بد عنوانی کے خلاف جنگ کا زبانی اعلان کر کے یہ سمجھ لینا کہ اس کا مقابلہ ہو جائے گا محض خوش فہمی ہے۔ وفاقی وزارتوں، سرکاری اداروں اور کمپنیوں میں ہزاروں ارب روپے سے زائد کی مالی بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوا ہے۔یہ ایک نہایت افسوسناک صورتحال ہے کہ جس سرکاری ادارے کے مالی معاملات کی تھوڑی سی بھی جانچ پڑتال کی جائے اس میں بے ضابطگیاں سامنے آ جاتی ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان اداروں میں چیک اینڈ بیلنس کا کوئی ٹھوس اور جامع نظام موجود نہیں۔ افسران اور اہلکاروں کو اس بات کا یقین ہوتا ہے کہ وہ جو چاہے کرتے رہیں کوئی ان سے باز پرس کرنے والا نہیں چنانچہ وہ کھل کھیلتے ہیں اور جہاں جہاں بھی موقع ملتا ہے اختیارات کا بے جا استعمال کیا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں بہترین حکمرانی ہنوز ایک خواب ہے۔
پاکستان میں دوہرا ایگزیکٹو سسٹم سیاسی حکمرانی اور بیوروکریسی پر مشتمل ہے، سیاسی حکمران اپنی نام نہاد مقبولیت و اقتدار کے زعم میں اپنا غلبہ جتاتے ہیں اور قواعدِ حکمرانی کا بے جا استعمال کرتے ہیں۔ بیورو کریسی پر سیاسی غلبہ کو بیوروکریسی نے کبھی بھی چیلنج نہیں کیا بلکہ بیشتر مواقع پر بیوروکریٹ سیاسی حکمرانوں کے تابع اور فرماں بردار بنے رہے اور اسی چکر میں وہ اپنے مفادات بھی حاصل کرتے رہے، جس کے نتیجے میں بہتر حکمرانی اور انتظام پر کاری ضرب لگی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کا ذمہ دار کون ہے، آج تک بد عنوانی کے خاتمے کے لئے کیا اقدامات کئے گئے ؟ جب کہ ماضی کے کئی گھپلوں نے عام آدمی کو پریشان کر رکھا ہے، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ  کو مرکز میں اقتدار سے محروم بھی ہونا پڑا لیکن نئے آنے والوں پر بھی اسی قسم کے الزامات ہیں اور اقتدار کی تبدیلی سے بھی حالات پر کوئی فرق نہیں یعنی صرف چہرے تبدیل ہونے سے کچھ نہیں ہوتا نظام میں تبدیلی کی ضرورت ہے اور یہ کام آسان نہیں کیونکہ یہاں سب ہی ایک جیسے ہیں نیچے سے اوپر تک تمام کے تمام کرپشن میں ڈوبے ہوئے نظر آتے ہیں۔ 
آج پاکستان میں کرپشن کا ایشو گمبھیر ہو چکا ہے، مہنگائی پر قابو پانے، کالا دھن واپس لانے، توانائی بحران پر 100روز میں قابو پانے، بے روزگاری کا خاتمہ کرنے اور امن و امان کی صورتحال بہتر کرنے کے دعوے کے ساتھ اقتدار میں آنے والی پی ٹی آئی کی حکومت صرف دعوؤں تک ہی محدود نظر آ رہی ہے عملی طور پر حکومت کے لئے عوامی مسائل اور ان کی یکسوئی کوئی معنی نہیں رکھتی۔ عوامی مسائل کا حل اور ترقی کے بلند و بانگ دعوے تو صرف انتخابات میں ووٹوں کے حصول کا ایک ذریعہ ہیں۔ اگر واقعی ہمارے قائدین کے لئے عام آدمی کے مسائل اولین ترجیح ہوتے تب تو 7دہائیوں میں عوام کے تمام مسائل حل ہو چکے ہوتے اور آج وطنِ عزیز خوشحال اور دولت مند ملک ہوتا۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا کیونکہ ہمارے قائدین کے دعوے صرف تقاریر، کاغذوں اور منشور تک ہی محدود رہے یہی وجہ ہے کہ آج بھی نصف سے زیادہ عوام کو دو وقت پیٹ بھر کے کھانا نصیب نہیں ہوتا۔ 40فیصد آبادی دن بھر میں ایک مرتبہ اپنے پیٹ کی آگ بجھا سکتی ہے اور بے بس عوام کے لئے ہمارے حکمران اب بھی تقریروں میں خوشحالی کا رونا رو رہے ہیں، یہ خوشحالی پتہ نہیں کہاں ہے۔ جب بھی کسی ملک کی خوشحالی یا بد حالی کو جانچنا ہو تو روٹی، کپڑا اور مکان کی دستیابی کو پیمانہ بنانا ہوتا ہے۔ 
جب کہ حکومت کے ایسے خوش کن بیانات آتے رہتے ہیں جس میں پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے ہوشربا اعداد و شمار بھی دیئے جاتے ہیں۔ یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ اگر پاکستان میں خوشحالی آئی ہے تو 22کرورڑ عوام کیوں مصائب کا شکار ہیں، ہر طرف بے چینی کیوں پھیلی ہوئی ہے، ہر کوئی آنے والے دن کی فکر میں کیوں ہے؟ 22کروڑ عوام خدا کو بھول کر اپنا پیٹ بھرنے کی خاطر جھوٹ، رشوت، سفارش، دھوکہ، جعلسازی، بے ایمانی، چوری چکاری، ڈاکے اور کرپشن پر کیوں اتر آئی ہے؟ حکومت کہتی ہے کہ ملک میں ریکارڈ زرِ مبادلہ کے ذخائر جمع ہو گئے ہیں تو پھر ہر کوئی انجانے خوف میں کیوں مبتلا ہے اور ڈالر روز بروز روپے کے مقابلے میں اتنا مضبوط کیوں ہوتا جا رہا ہے؟ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہر طرف بد امنی، انتشار، اضطراب اور بے یقینی ہے۔ پاکستانی حکومتوں کا سب سے بڑا المیہ عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی میں ناکامی ہے۔