شہباز شریف صاحب، پہلے یہ کام کر لیں

شہباز شریف صاحب، پہلے یہ کام کر لیں

جمہوری طریقے سے انتقال اقتدار کا مرحلہ جس طریقے سر انجام پایا وہ کسی طور بھی قابل ستائش نہیں ہے۔ یہ وہ کپتان جو کہتا تھا کہ میں سپورٹس مین ہوں، مجھے ہارنا بھی آتا ہے اور جیتنا بھی مگر اس بار اس نے اپنے چاہنے والوں کو بہت مایوس کیا۔ تحریک انصاف کے کارکنوں کی بڑی تعداد ابھی تک رنجیدہ ہے اور سمجھ رہی ہے کہ مہاتما کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔ انہیں آئین سے مطلب ہے نہ وہ قانونی ضرورتوں سے واقف ہیں۔ یہ وہ اندھے مقلد ہیں جو صحیح اور غلط کی تفریق کے بغیر ہر بات پر آمین کہتے ہیں۔ عمران خان کا ردعمل انتہائی غیر متوقع ہے اور جمہوری اقدار کو سمجھنے والے جانتے ہیں کہ وہ جو کچھ کر رہا ہے وہ جمہوریت کے کسی اصول کے مطابق نہیں ہے۔ آپ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک آئی ہے تو اسے قبول کریں اور واپسی کی تیاری کریں۔
پاکستان کا جمہوری تماشا پوری دنیا نے دیکھا ہے۔ یہ سسپنس سے بھرپور ایک ناول یا ڈرامہ سیریل تھی جس کے کردار اپنی طاقت کے بل بوتے پر صحیح اور غلط کرنے کا اختیار رکھتے تھے اور انہوں نے اپنے اس اختیار کا بھرپور استعمال بھی کیا۔ ریاست کے اہم عہدوں پر سیاسی کارکنوں کی جگہ اس کے وفادار ساتھی براجمان تھے انہیں اس بات سے غرض نہیں تھی کہ ریاست کی ذمہ داری کیا ہے انہیں ریاست کا وفادار ہونا ہے یا اپنی دوستی کو عزیز رکھنا ہے۔ سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کا رویہ اور کنڈکٹ کسی بھی طور قابل ستائش نہیں ہے۔ اس قسم کے اہم عہدوں پر براجمان یہ لوگ انتہائی گھٹیا کردار کے مالک نکلے اور ان سب سے بڑھ کر صدر محترم کی ذات ہے جس کے نام پر ریاست کا کاروبار چلتا ہے ان میں اتنی بھی اعلیٰ ظرفی نہیں تھی کہ وہ نومنتخب وزیراعظم سے حلف ہی لے لیتے۔ نئی حکومت نے آتے ہی اعلان کیا ہے کہ وہ انتقامی سیاست نہیں کرے گی لیکن جن لوگوں نے آئین کو مذاق بنا دیا اور اپنے عمل سے قانون کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیں ان کا محاسبہ اور احتساب کیوں نہیں؟
سنیچر کی رات کیا ہوا اس کی کہانیاں سامنے آنا شروع ہو گئی ہیں۔ بی بی سی اردو نے اس پر ایک مفصل سٹوری دی ہے تاہم فوج کے تعلقات عامہ کے شعبے نے اس کہانی کی تردید کر دی ہے۔ اس کے بعد گارجین نے ایک سٹوری شائع کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ عمران خان نے اس رات مارشل لا لگوانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ معاملہ محض اتنا نہیں ہے بلکہ عمران خان نے فوج کو تقسیم کرنے کی پوری کوشش کی۔ گارجین نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے وہ دستاویزات دیکھی ہیں جس کو دیکھ کر سمجھا جا سکتا ہے کہ اس رات عمران خان کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ فوری طور پر نئے انتخابات یا مارشل لا کا اعلان۔ اپوزیشن نے اسے ماننے سے قطعی پور پر انکار کر دیا۔ سپریم کورٹ کے احکامات کو ہوا میں اڑانے کا منصوبہ کامیابی سے چل رہا تھا اور سپیکر کے ساتھ مذاکرات ہوئے مگر اس نے صاف انکار کر دیا کہ وہ ووٹ نہیں کرائیں گے اور اس کے لیے وہ کوئی بھی سزا بھگتنے کے لیے تیار ہیں۔ وہ زیادہ سے زیادہ نا اہلی سمجھ رہے تھے لیکن معاملہ اس سے آگے نکل رہا تھا۔ یہ ایک بدمعاش حکومت تھی جو طاقت کے بل بوتے پر پوری ریاستی مشینری کو اپنی منشا کے مطابق چلانے کی کوشش میں مصروف تھی۔ معاملہ کب خراب ہوا؟ واقفان حال کا کہنا ہے کہ یہ سب اس وقت خراب ہوا جب مہاتما نے رات نو بجے کابینہ کا ہنگامی اجلاس طلب کر لیا اور اس اجلاس میں اس لیٹر کو ڈی 
کلاسیفائیڈ کرنے کا فیصلہ ہوا جو عمران خان نے اپنے جلسوں میں لہرایا تھا۔ اسی وقت آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کو عہدے سے ہٹانے کی افواہیں گردش کرنا شروع ہوئیں اور ان افواہوں کی درمیان اس سنسی خیز ڈرامے کا ڈراپ سین ہو گیا۔ جو طاقت کے نشے میں ہر چیز کو روندنے کا عندیہ دے چکے تھے جھاگ کی طرح بیٹھ گئے اور رات بارہ بجے سے پہلے رائے شماری کروانے پر تیار ہو گئے۔ رات کے وقت سپریم کورٹ کے دروازے ایسے ہی نہیں کھل گئے تھے اور اسلام آباد ہائیکورٹ کا عملہ دس بجے ہی کورٹ روم میں پہنچ گیا تھا۔ قیدیوں کو لے کر جانے والی گاڑی پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر کھڑی کر دی گئی اور مہاتما مسکرایا اور کہنے لگا کہ کوئی رہ تو نہیں گیا جو میرے خلاف نہ ہو۔ وہ اسے بڑی کامیابی تصور کر رہا تھا۔ اس کے نزدیک ہر قانون اور آئین کو پاؤں تلے روندنا ہی اصل طاقت ہے۔ آخری گھنٹے کی اور بھی بہت سی کہانیاں ہیں وہ کبھی پھر سہی۔ اسلام آباد میں اس رات جو سرگرمیاں ہو رہی تھی وہ ملک کو ایک فوجی مارشل لا کی طرف دھکیلنے کے لیے جواز مہیا کر رہی تھیں اور مہاتما اس لیے خوش تھا کہ اس کے منصوبے کے تحت سب کچھ آگے بڑھ رہا ہے اور فوج اقتدار پر قبضہ کرتی ہے تو اس کی خلاصی ہو جائے گی۔ اپوزیشن کو تو اس نے پہلے ہی غدار ڈیکلیئر کر دیا تھا۔ اسے پابند سلاسل کریں گے تو اپوزیشن کو کون بخشے گا۔
مہاتما نے فوج کو اس گند میں گھسیٹنے کی بہت کوشش کی ہے۔ باجوہ کی جگہ اگر پرویز مشرف کی فطرت کا کوئی اور جرنیل ہوتا تو ملک ایک بار پھر مارشل لا کے چنگل میں جا چکا ہوتا۔ جس وقت متحدہ اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد لانے کا اعلان کیا تھا اس وقت سے ہی مہاتما فوج سے کہہ رہا تھا کہ اس کے سر پر دست شفقت رکھا جائے مگر فوج نے سیاسی عمل میں کسی بھی فریق کی جانبداری کرنے سے انکار کر دیا۔ فوج کی جانب سے نیوٹرل ہونے کا اعلان ہوا تو پہلے اسے جانور کہا گیا اور پھر یہ پتہ پھینکا گیا کہ نیکی اور بدی میں سے کسی ایک کا انتخاب ضروری ہے۔ خود کو وہ نیکی کا پیروکار قرار دے رہے تھے اور اپوزیشن کو بدی کا استعارہ۔ تحریک انصاف کے جلسوں میں بزدل چوکیدار کے نعرے لگے۔ سوشل میڈیا ونگ نے فوج کے خلاف نفرت انگیز مہم کا آغاز کیا اور سوشل میڈیا پر طوفان بدتمیزی شروع ہو گیا۔ فوج کو پہلی بار احساس ہوا کہ اقتدار کن کم ظرفوں کے ہاتھ میں موجود ہے۔ یہ وہ لاڈلا بچہ تھا جسے بڑے چاؤ سے اقتدار سونپا گیا تھا آج وہ اپنے ابا کی داڑھی کو نوچنے پر تلا ہوا تھا۔ بزرگ صحیح کہتے ہیں کہ حد سے زیادہ لاس پیار سے بگاڑ ہی پیدا ہوتا ہے۔
گذشتہ روز فارمیشن کمانڈرز کے اجلاس میں جو آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کی صدارت میں ہوا میں ادارے اور معاشرے کو تقسیم کرنے کی سازش پر انتہائی افسوس کا اظہار کیا گیا۔ اقتدار میں لانے والوں کو پتہ ہے کہ کون کیا کر رہا ہے اس لیے وہ ان کو ٹھیک کرنے کا طریقہ بھی جانتے ہیں۔ ذرا صبر کیجیے وقت کا پہیہ گھوم رہا ہے۔ آج پھر سے راحت اندوری کے اشعار یاد آ رہے ہیں۔
لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں
یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے
میں جانتا ہوں کہ دشمن بھی کم نہیں لیکن
ہماری طرح ہتھیلی پہ جان تھوڑی ہے
ہمارے منہ سے جو نکلے وہی صداقت ہے
ہمارے منہ میں تمہاری زبان تھوڑی ہے
جو آج صاحبِ مسند ہیں، کل نہیں ہوں گے
کرائے دار ہیں، ذاتی مکان تھوڑی ہے
عمران خان کی متاع صرف وہ لیٹر ہے جو لہرا رہا ہے۔ اس لیٹر کی کاپیاں وزیراعظم اور سپیکر قومی اسمبلی نے چیف جسٹس کو بھی ارسال کی ہیں اور مطالبہ کیا ہے کہ اس کی تحقیقات کی جائے۔ شہباز شریف نے بھی اپنی پہلی تقریر میں اس خط کے حوالے سے پارلیمان کی قومی سلامتی کمیٹی کا ان کیمرہ اجلاس بلانے کا اعلان کیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ کافی نہیں ہے۔ نئے وزیراعظم کو چیف جسٹس سے کہنا چاہیے کہ وہ اس خط کی تحقیقات کرائیں نئی حکومت اس حوالے سے تمام تعاون کرنے کے لیے تیار ہے۔ تحقیقات کے لیے چیف جسٹس کو تمام تر وسائل اور اختیار مہیا کیا جائے تاکہ اس معاملہ کی شفاف انکوائری ہو سکے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ اگر چیف جسٹس نے اس پر سو موٹو لے لیا تو عمران خان وہاں سے بھاگنے پر مجبور ہو جائیں گے۔
شہبازشریف کو بطور وزیراعظم کئی چیلنجز کا سامنا ہے۔ کابینہ کی تشکیل کے بعد عوام کو ریلیف دینے کے منصوبوں کو آگے بڑھانا ہو گا۔ یہ منصوبے اسی وقت آگے بڑھیں گے جب آپ سکون سے کام کریں گے اور ریاست کے اندر کچھ شرارتی بچے آپ کو سکون نہیں لینے دیں گے۔ پہلے ان کا کچھ بندوبست کریں۔ اور ہاں جن لوگوں نے آئین کو توڑا، معطل کیا ان کے خلاف آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت مقدمات کو آگے بڑھایا جائے۔ اگر آپ کا دامن صاف ہے تو اس حوالے سے ذرا سی دیر اپنے حلف سے غداری کے مترادف ہے۔

مصنف کے بارے میں